لاہور (جدوجہد رپورٹ) انسانی حقوق کے 180 گروپوں کے اتحاد نے چین میں آئندہ سال منعقد ہونے والے بیجنگ سرمائی اولمپکس کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا ہے۔
بائیکاٹ کا مطالبہ نسلی اقلیتوں کے خلاف انسانی حقوق کی پامالیوں کی اطلاعات کی بنیاد پر کیا جا رہا ہے۔ اولمپکس مقابلوں کا 4 فروری 2022ء کو افتتاح ہو گا اور وبائی مرض کے باوجود مقابلوں کے انعقاد کی تیاری کی گئی ہے۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق انسانی حقوق کے گروپوں کا یہ اتحاد تبتی، ایغور، منگولین، ہانگ کانگ کے باشندوں اور دیگر کی نمائندگی کرنے والے گروپوں پر مشتمل ہے۔
اس گروپ نے تمام حکومتوں کے نام ایک کھلا خط جاری کیا ہے جس میں اولمپکس کا بائیکاٹ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ ”بائیکاٹ کو یقینی بنانے سے ہی اس بات کا یقین کیا جا سکتا ہے کہ تمام حکومتیں چینی حکومت کی جانب سے انسانی حقوق کی خوفناک خلاف ورزیوں اور اختلاف رائے رکھنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے حق میں استعمال نہیں ہو رہی ہیں۔“
انسانی حقوق گروپوں کے اتحاد نے قبل ازیں سوئٹزر لینڈ میں قائم بین الاقوامی اولمپک کمیٹی (آئی او سی) سے اپیل کی تھی کہ چین سے اولمپک کھیلوں کو کسی دوسرے ملک میں منتقل کیا جائے۔ آئی او سی نے اس مطالبہ کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ صرف ایک کھیل کا ادارہ ہے جو سیاست میں شامل نہیں ہوتا۔
ان گروپوں کا کہنا ہے کہ ”آئی او سی کی طرف سے کوئی ایکشن نہ لینے کی وجہ سے اب حکومتوں کو یہ موقف اختیار کرنا ہوگا کہ وہ چین کی انسانی حقوق کی قابل مذمت کارروائیوں کو روکنے کی سیاسی خواہش رکھتے ہیں۔“
چین نے 2008ء کے اولمپکس کی میزبانی کی تھی اور وعدہ کیا تھا کہ اس سے ملک میں انسانی حقوق کی صورتحال میں بہتری آئے گی۔ انسانی حقوق گروپوں کا کہنا ہے کہ اولمپکس کے بعد چین کی حکمرانی میں رہنے والی برادریوں پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے امریکی وزیر خارجہ نے دفتر میں اپنے پہلے روز ہی یہ کہا تھا کہ سنکیانگ کی نسلی اقلیتوں کے خلاف نسل کشی کی جا رہی ہے۔ تاہم چین نے نسل کشی کے الزامات پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے صدی کا سب سے بڑا جھوٹ قرار دیا۔
محققین اور انسانی حقوق کے گروپوں کے تخمینے کے مطابق 2016ء سے اب تک چین نے ایک ملین سے زیادہ اویغور اور دیگر مسلم اقلیتوں کو جیلوں اور کیمپوں میں قید کیا۔ نظر بند رہنے والے افراد اور ماہرین کے مطابق لوگوں کو جبری مشقت کے علاوہ تشدد، نسبندی اور سیاسی وابستگیوں اور عقیدوں کو تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا۔
چین نے پہلے تو کیمپوں کی موجودگی سے ہی انکار کیا لیکن بعد میں کیمپوں کی موجودگی کے اعتراف کے ساتھ کسی قسم کی زیادتیوں سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدامات دہشت گردی اور علیحدگی پسند تحریک سے نمٹنے کیلئے ضروری تھے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ ”آئی او سی نے 2008ء میں بھی ہمیں سننے سے انکار کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اولمپکس انسانی حقوق میں بہتری کیلئے سود مند ثابت ہونگے۔ انسانی حقوق کے ماہرین کی رپورٹس کے مطابق یہ آئی او سی کا یہ فیصلہ بڑے پیمانے پر غلط ثابت ہوا ہے۔ چین میں نہ صرف انسانی حقوق کے ریکارڈ میں بہتری نہیں آئی بلکہ انسانی حقوق کی پامالیوں میں مزید اضافہ ہوا ہے۔