راولا کوٹ(نامہ نگار) حقوق خلق موومنٹ (ایچ کے ایم) کے زیر اہتمام اتوار کے روز ’اسرائیلی اپارتھائیڈ، مغرب اور فلسطینی مزاحمت‘ کے عنوان سے انٹرنیشنل ویبینار کا انعقاد کیا گیا۔ اس ویبینار میں ممتاز صحافی، مصنف اور انقلابی دانشور طارق علی، شیخ جراح فلسطین کے رہائشی اور انقلابی دانشور، محقق و مصنف توفیق حداد، نوجوان فلسطینی مصنف و ریسرچر دانا الکرد، اسسٹنٹ پروفیسر آف بیکن ہاؤس یونیورسٹی اور روزنامہ جدوجہد آن لائن کے مدیر فاروق سلہریا نے فلسطینی مزاحمت کی تاریخ، اسرائیلی صیہونی جنگی جرائم اورمغربی میڈیا اور طاقت ور ممالک کی جانب سے اسرائیلی جنگی اور نسل پرستانہ جرائم پر خاموشی کے محرکات پر بات کی، جبکہ حقوق خلق موومنٹ کے ممبران تابیتا سپینس اور بلال ظہور نے اس ویبینار کے موڈریٹرز کے طور پر فرائض سرانجام دیئے۔
اس ویبینار میں دنیا کے مختلف ممالک سے 120سے زائد افراد نے شرکت کی اور مقررین سے مختلف سوالات بھی کئے گئے۔
مقررین نے واضح کیا کہ اسرائیل ایک صیہونی اپارتھائیڈ ریاست ہے جو یہودی آباد کاری کے ذریعے فلسطینی علاقوں پر قبضے کرنے میں مصروف عمل ہے۔ فلسطینیوں کو حق خودارادیت دینے کی بجائے دنیا کی تمام بڑی طاقتیں اسرائیلی اپارتھائیڈ ریاست کے جنگی جرائم پر خاموشی اختیار کئے ہوئی ہیں۔
مقررین کا کہنا تھا کہ فلسطین تنازعہ کو مسلمانوں اور یہودیوں کے مابین مذہبی تنازعہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے، فلسطینیوں پر اسرائیلی جارحیت، صیہونیت اور جبری قبضے کے خلاف یہودیوں اور عیسائیوں کی ایک بڑی تعداد بھی فلسطینیوں کے ساتھ احتجاج میں شامل ہے۔ دنیا بھر میں بائیں بازو کی سیاسی قوتیں اور انسانی حقوق کے کارکنان اسرائیلی جبر کے خلاف فلسطینیوں کی حمایت کر رہے ہیں۔
مقررین نے مغربی کنارے، غزہ اور یروشلم میں منتشر فلسطینی مزاحمت کی بھی تفصیلی وضاحت کی اور کہا کہ فلسطین کی جدوجہد کی کامیابی اس بات پر منحصر ہے کہ دنیا بھر میں محنت کش اور ترقی پسند عوام احتجاج کریں اور حکومتوں پر دباؤ ڈالیں تاکہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو ختم کریں اور فلسطینیوں کو حق خودارادیت دیا جائے۔ عالمی سطحی کی عوامی مزاحمت کے علاوہ فلسطینی تحریک کی کامیابی کا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔