راولاکوٹ (حارث قدیر) صحافیوں کی آزادی کیلئے کام کرنیوالی عالمی تنظیم رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) نے میڈیا پر پابندیاں لگانے والے دنیا کے 37 حکمرانوں کی ایک فہرست شائع کی ہے۔ اس فہرست کو ’پریس فریڈم پریڈیٹرز‘ کا نام دیا گیا ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اس فہرست میں 13 ویں نمبر پر موجود ہیں۔
آر ایس ایف کے مطابق پہلی مرتبہ 2 خواتین کے علاوہ ایک یورپی حکمران کو بھی اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے جبکہ تقریباً نصف حکمران پہلی مرتبہ اس فہرست میں شامل کئے گئے ہیں۔ آر ایس ایف ہر 5 سال بعدیہ گیلری جاری کرتی ہے جس میں ایسے تمام حکمران شامل ہوتے ہیں جو سنسرشپ کرتے ہیں، میڈیا کی آزادی کو پامال کرتے ہیں، صحافیوں کو گرفتار کرنے سمیت انہیں قتل کرنے سے بھی نہیں کتراتے یا صحافیوں پر براہ راست یا بلا واسطہ دباؤ ڈالنے کی پالیسیاں اپنا رہے ہیں۔
ان 37 ممالک کے سربراہوں میں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان سمیت انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی، سعودی عرب کا شہزادہ محمد بن سلمان، ترکی کے رجب اردغان، ایران کے رہبر اعلیٰ علی خامنہ ای، چین کے صدر شی جن پنگ، روس کے دلادیمیر پوتن اور شمالی کوریا کے کم جونگ کے نام بھی شامل ہیں۔
ایشیا کی دو خاتون سربراہان مملکت کا شمار بھی اس فہرست میں کیا گیا ہے۔ ان میں بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ اور ہانگ کانگ کی چیف ایگزیکٹو کیری لام شامل ہیں جبکہ چند یورپی ممالک کے سربراہ بھی اسی فہرست میں نظر آتے ہیں۔
فہرست میں شامل 19 ممالک ایسے قرار دیئے گئے ہیں جہاں صورتحال صحافتی آزادی کیلئے انتہائی بری ہے اور 16 ممالک ایسے ہیں جن کو دوسرے درجے میں رکھا گیا ہے۔ ایک تہائی سے زائد حکمران ایشیا پیسیفک کے علاقوں سے شامل کئے گئے ہیں۔
فہرست کے مطابق مصر کے عبدالفتح السیسی، بیلا روس کے الیگزینڈر لوکاشیکو، ایران کے علی خامنہ ای، شام کے بشار الاسد، ہانگ کانگ کی کیری لام، نکاراگوا کے ڈینئل اورٹیگا، تاجکستان کے ایمومالی رحمان، سری لنکا کے گوتابایا راجا پکسا، تاجکستان کے گوربانگولی، بحرین کے حامد بن عیسیٰ الخلیفہ، کمبوڈیا کے ہن سین، آذربائیجان کے الہام الیف، پاکستان کے عمران خان، جبوتی کے اسماعیل عمر، ایریٹیریا کے عیسائیاس افارکی پہلے 15 نمبروں پر موجود ہیں۔
رپورٹ میں پاکستان سے متعلق کہا گیا ہے کہ پاکستان میں آزادی صحافت پر بڑھتی قدغنیں اور بندشیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں اور آئے روز صحافیوں پر تشدد، اغوا، ہراساں کرنا یا قتل کے واقعات کے ساتھ ساتھ ان کی زبان بندی کا عمل بھی جاری ہے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عمران خان ہر وقت مرکز نگاہ رہنا پسند کرتے ہیں، انھوں نے سیاست میں قدم رکھنے سے قبل بطور ایک قومی کرکٹ سٹار کے یورپی ممالک میں فیشن ایبل زندگی بسر کی اور سنہ 2018ء کے انتخابات کے نتیجہ میں اقتدار میں آنے کے بعد سے ملک میں آزادی صحافت پر قدغنیں لگانا شروع کر دیں۔ ان کے دور حکومت میں جمہوری قوتیں کمزور ہوئیں اور سویلین بالادستی کی جگہ ملک کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی ’ڈیپ سٹیٹ‘ کو مزید تقویت ملی۔