شاعری

خاطرؔ غزنوی کی گیارہویں برسی پر ایک تحریر

اسلم ملک

گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے

گزشتہ روز (7 جولائی) اس شعر کے خالق خاطر غزنوی کی گیارہویں برسی تھی۔پہلے پیش خدمت ہیں ان کے کچھ اور شعر:

میں اسے شہرت کہوں یا اپنی رسوائی کہوں
مجھ سے پہلے اس گلی میں میرے افسانے گئے

وحشتیں کچھ اس طرح اپنا مقدر ہو گئیں
ہم جہاں پہنچے، ہمارے ساتھ ویرانے گئے

کیا قیامت ہے کہ خاطر کشتہ شب بھی تھے ہم
صبح بھی آئی تو مجرم ہم ہی گردانے گئے

ایک ایک کر کے لوگ نکل آئے دھوپ میں
جلنے لگے تھے جیسے سبھی گھر کی چھاؤں میں

فضائیں چپ ہیں کچھ ایسی کہ درد بولتا ہے
بدن کے شور میں کس کو پکاریں کیا مانگیں

گلوں کی محفل رنگیں میں خار بن نہ سکے
بہار آئی تو ہم گلستاں سے لوٹ آئے

اک تجسس دل میں ہے یہ کیا ہوا کیسے ہوا
جو کبھی اپنا نہ تھا وہ غیر کا کیسے ہوا

انساں ہوں گھِر گیا ہوں زمیں کے خداؤں میں
اب بستیاں بساؤں گا جا کر خلاؤں میں

جو پھول آیا سبز قدم ہو کے رہ گیا
کب فصل گل ہے فصل طرب اپنے شہر میں

کیسی چلی ہے اب کے ہوا تیرے شہر میں
بندے بھی ہو گئے ہیں خدا تیرے شہر میں

خاطرؔ اب اہل دل بھی بنے ہیں زمانہ ساز
کس سے کریں وفا کی طلب اپنے شہر میں

لوگوں نے تو سورج کی چکا چوند کو پوجا
میں نے تو ترے سائے کو بھی سجدہ کیا ہے

قطرے کی جراتوں نے صدف سے لیا خراج
دریا سمندروں میں ملے اور مر گئے

سر رکھ کے سو گیا ہوں غموں کی صلیب پر
شاید کہ خواب لے اڑیں ہنستی فضاؤں میں

تو نہیں پاس تری یاد تو ہے
تو ہی تو سوجھے جہاں تک سوچوں

یہ کون چپکے چپکے اٹھا اور چل دیا
خاطرؔ یہ کس نے لوٹ لیں محفل کی دھڑکنیں

جب اس زلف کی بات چلی
ڈھلتے ڈھلتے رات ڈھلی

خاطر غزنوی 25 نومبر 1925ء کو پشاور میں پیدا ہوئے۔ان کا اصل نام مرزا محمد ابراہیم بیگ تھا۔ انہوں نے عملی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان پشاور سے کیا۔ بعد ازاں پشاور یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کیا اور اسی شعبہ میں تدریس کے پیشے سے وابستہ ہوئے۔ اس دوران وہ دو ادبی جرائد ’سنگ میل‘ اور ’احساس‘سے منسلک رہے۔

1984ء میں انہیں اکادمی ادبیات پاکستان کا ڈائریکٹر ادبیات مقرر کیا گیا۔

خاطرغزنوی جدید اردو اور ہندکو شاعری اور نثر میں ایک منفرد حیثیت کے حامل تھے۔ ان کی شاعری میں انسان بولتا ہے، وقت اپنی راگنی سناتا ہے، ماحول اپنے نغمے الاپتا ہے۔ جدید دور کی زندگی میں جو کچھ ہے، جو کچھ ہو سکتا ہے یا جو کچھ ہونا چاہیے، اس کی ان گنت تصویریں خاطرؔ کی شاعری میں نمایاں ہو کر مجموعی طور پر اس کو نئی زندگی کا مرقع‘ بلکہ نگار خانہ بناتی ہیں اور یہی ان کی شاعری کی نمایاں ترین خصوصیت ہے۔

حکومت پاکستان نے خاطر غزنوی کی ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر صدراتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔

ان کی شاعری کے مجموعے روپ رنگ، خواب درخواب، شام کی چھتری اورکونجاں کے عنوان سے شائع ہوئے۔

نثر کی کتابوں میں اُردو زبان کا ماخذ ہندکو، رزم نامہ، سرحد کے رومان، پشتو متلونہ، دستار نامہ، پٹھان اور جذباتِ لطیف، خوشحال نامہ، چین نامہ، اصناف ادب، ایک کمرہ اورجدید اُردو ادب شامل ہیں۔

خاطر غزنوی نے 7 جولائی 2008ء کو پشاور میں وفات پائی اور قبرستان رحمان بابا پشاور میں سپردِ خاک کیے گئے۔

Aslam Malik
+ posts

اسلم ملک روزنامہ جنگ کے سینئر سب ایڈیٹر ہیں۔ وہ ستر کی دہائی سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔