التمش تصدق
انتخابات سے قبل ایک کروڑ نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کے وعدے کرنے والی تحریک انصاف نے اقتدار میں آنے کے بعد پہلے سے موجود روزگار کا بڑے پیمانے پر خاتمہ کیا ہے۔ اس وقت تک تبدیلی سرکار نے لاکھوں افراد کو بیروزگار کر دیا ہے۔ محنت کشوں کی جبری برطرفیوں کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ مہنگائی اور بیروزگاری کے طوفان نے محنت کشوں اور نوجونوں کو ایسی دلدل میں دھکیل دیا ہے، جس سے نکلنے کی کوئی صورت کم از کم سرمایہ داری میں نظر نہیں آتی ہے۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے لیکن حکمران جماعت کے نمائندے انتہائی بے شرمی اور ڈھٹائی سے سب اچھا کا راگ الاپ رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کی پالیسیوں پر عمل درآمد کرتے ہوئے اشیا خوردونوش اور پیٹرولیم مصنوعات سمیت بنیادی ضروریات کی تمام اشیا ء پرمحصولات میں مسلسل اضافے نے محنت کشوں کے لیے مہنگائی کے بوجھ کو نا قابل برداشت بنا دیا ہے۔ بڑھتی ہوئی یہ مہنگائی محنت کشوں کے علاوہ درمیانی طبقے کی نچلی پرتوں کو بھی متاثر کر رہی ہے۔ مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں میں اضافے کی بجائے کٹوتی ہوئی ہے۔
مہنگائی کے علاوہ محنت کشوں پر دیگر معاشی حملے بھی جاری ہیں۔ تعلیم اور صحت کے اداروں سمیت دیگر قومی اداروں کی نجکاری اور ملازمتوں سے جبری برطرفیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ تقریباً تمام اداروں میں محنت کشوں کو ملازمت سے جبری برطرف کیا جا رہا ہے۔ حکمران طبقے کی طرف سے غیرا علانیہ طور پر مستقل ملازمتوں اور پینشن کو ختم کرنے کی پالیسی پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ لمبے عرصے سے زیادہ تر تقرریاں عارضی کی جا رہی ہیں۔ تین اور چھ مہینوں کے کنٹریکٹ کر کے ملازمین کے سر پر بے روزگاری کی تلوار لٹکائی جاتی ہے تاکہ وہ خوف کی وجہ سے اپنے حق کے لیے بولنے سے باز رہیں۔ کنڑیکٹ ملازمین کو 15 سے 20 سال ملازمت کے بعد بغیر پینشن اور دیگر مراعات کے نوکریوں سے برطرف کر دیا جاتا ہے۔ محنت کشوں کی طرف سے معمولی اُجرت پر زندگی بھر خون پسینہ نچوڑنے کے بعدبھی، جب وہ کام کرنے کے قابل نہیں رہتے تو انہیں بڑھاپے میں، بیماری اور بھوک کی حالت میں، سسک سسک کر، تڑپ تڑپ کر مرنے کے لیے بے آسرا چھوڑ دیا جاتا ہے۔
سُپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے 17 اگست 2021ء کو ایکٹ 2010ء کو منسوخ کر تے ہوئے 16 ہزار وفاقی ملازمین کو نوکریوں سے برطرف کر دیا گیا تھا۔ جس کے نتیجے میں محض 16 ہزار افرد ہی متاثر نہیں ہوئے بلکہ 16 ہزار خاندانوں کے چولہے بُجھ گئے۔ اسی طرح کے ایک اورعدالتی حکم نامے کے ذریعے 20 سال سے ڈیوٹی سر انجام دینے والے ملازمین کو بغیر پینشن اور دیگر مراعات کے ملازمت سے بر طرف کر دیا گیا۔
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں بھی تحریک انصاف کی حکومت نے اقتدار میں آنے کے تین مہینوں کے اندر ہی 28 اکتوبر کو کابینہ کے اجلاس میں ایڈہاک ملازمین کو مستقل کرنے والے قانون کے خاتمے کا اعلان کردیا ہے۔ جس کے نتیجے میں 4 ہزار سے زائد ملازمین کو برطرف کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایڈہاک ایکٹ مسلم لیگ نواز نے اپنے اقتدار کے آخری سال منظور کیا تھا، جس کے مطابق تمام کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کردیا گیا تھا۔ بظاہر یہ سب میرٹ اور اصول کے نام پر کیا جا رہا ہے لیکن اس کے پس پردہ وہی مقاصد ہیں جو گزشتہ حکومتوں کے رہے ہیں۔ اس ایکٹ کا خاتمہ کر کہ حکومت مستقل ہونے والے ملازمین سے مستقل روزگار کا حق چھین رہی ہے۔ جس سے ایڈہاک تقرریوں کی پالیسی پر کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ آج بھی حکومت اپنے من پسند افرد کی اڈہاک تقرریاں کر رہی ہے۔
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں حکومتوں کی ذمہ داری تمام شہریوں کو روزگار فراہم کرنا نہیں بلکہ اپنی اپنی سیاسی جماعت کے کارکنوں کی مخصوص تعداد کو روزگار فراہم کرنا ہے۔ ان کے نزدیک جس کا برسر اقتدار پارٹی سے تعلق نہیں وہ کام کے اہل ہی نہیں ہے، اسے ملازمت سے برطرف کر دینا چاہیے۔ اس خطے کی طفیلی حکمران اشرافیہ یہاں کے نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے میں مکمل ناکام رہی ہے۔
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں ریاست دس فیصد لوگوں کو بھی روزگار فراہم نہیں کر سکی ہے۔ یہاں کوئی پیداواری شعبہ وجود ہی نہیں رکھتا، سروسز کا واحد شعبہ ہے جس سے ایک لاکھ افراد وابستہ ہیں۔ اس خطے کی معیشت کا زیادہ تر انحصار بیرون ممالک میں موجود محنت کشوں کی طرف سے بھیجے گئے زر مبادلہ پر ہے۔ 46 لاکھ کی آبادی میں ایک لاکھ ملازمتیں ہیں، جن پر مقامی اشرافیہ کے تمام افرد اپنے قریبی افراد کوایڈجسٹ کرنے کے لیے زور آزمائی کرتے ہیں۔ نیا روزگار پیدا کرنے کے حوالے سے ان کے پاس کوئی پرگروام نہیں ہے۔
میرٹ کا شور کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ فرسودہ نظام تعلیم طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کو پیدا کرنے کی بجائے ان کو قتل کر رہا ہے۔ تعلیم کا عملی زندگی سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ آدھی زندگی تھیوری پڑھنے کے بعد پھر سے اسی شعبے کا کام نئے سرے سے سیکھنا پڑتا ہے۔ امتحانی نمبرات کو قابلیت کا معیار مان لیا جائے تو آج پاکستان میں لاکھوں سائنس دان، ڈاکٹر، فلسفی،معیشت دان اور دیگرامور کے ماہرین پیدا ہوتے نظر آتے۔ لیکن افسوسناک حقیت یہ ہے کہ یہ زیادہ نمبر لینے والے بھی اس نظام تعلیم میں الفاظ کو معنی و مفہوم کے بغیر یاد کرنے والے روبوٹ تیار ہوئے ہیں۔
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں نجی سیکٹر میں اگر کہیں روزگار ہے تو وہ محض نجی تعلیمی ادارے ہیں۔ خاص طور پر خواتین محنت کشوں کے لیے واحد روزگار کا بڑا شعبہ ہیں، جس سے بڑی تعداد میں خواتین محنت کش منسلک ہیں۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں سے وابستہ محنت کشوں کا شدید استحصال کیا جا رہا ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں کے معیار کو گرا کر ان کو برباد کر کے نجکاری کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں تعلیم کے شعبے سے سب سے زیادہ محنت کش وابستہ ہیں۔ تعلیمی اداروں کی نجکاری سے جو محدود روزگار کے مواقع تھے وہ بھی ختم ہو جائیں گے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں محنت کشوں کے پاس زندہ رہنے کے لیے اپنی محنت بیچنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ محنت نہ بکے، روزگار نہ ملے تو زندگی قائم نہیں رہ سکتی ہے۔ آج نوجوانوں اور محنت کشوں کی زندگی کے تمام راستے بند کیے جارہے ہیں۔ روزگار ہر انسان کا بنیادی حق ہے جسے ریاستی آئین میں بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ روزگار فراہم کرنے کی بجائے پہلے سے موجود روزگار کو چھین کر میرٹ کی بحالی کا واویلا کرنا حکمران طبقے کی مکاری پر مبنی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ حکمران طبقہ بیروزگا نوجوانوں کو روزگار مہیا کرنے میں ناکامی کو چھپانے کیلئے میرٹ اور قابلیت کا شور کرتا ہے۔ تاکہ ان بے روزگاروں کو یہ باور کروایا جائے کہ آپ کی بے روزگاری کا ذمہ رار یہ نظام نہیں ہے اور نہ ہی یہ ریاست ہے بلکہ جو پہلے سے برسر روزگار افرد ہیں وہ آپ کی بے روزگاری کے ذمہ دار ہیں۔
کیا اس خطے کے وہ نوجوان میرٹ پر پورا نہیں اترتے جو ساری دنیا میں اپنی محنت بیچ رہے ہیں؟ جو نوجوان عرب کی تپتی سحرا میں جل رہے ہیں۔ بے روزگاری کی ذلت سے تنگ آ کر جو غیر قانونی یورپ جانے کی کوشش میں انسانی اسمگلروں کے ہتھے چڑھ کر جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔جو سرحد عبور کرتے ہوئے گولی کا نشانہ بن کر یا کسی کشتی کے ڈوبنے سے جینے کے لیے مر جاتے ہیں۔
نظام زر کے عالمی بحران کی وجہ سے اب بیرون ممالک روزگار کے مواقع بھی تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔آج محنت کشوں اور نوجوانوں کے پاس زندہ رہنے کے لیے اس نظام کے خلاف مشترکہ جدوجہد کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہا۔ حکمران طبقے کے معاشی حملوں کے خلاف مختلف شعبوں کے محنت کشوں کی ہڑتالیں جاری ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ محنت کشوں کی ایک دوسرے سے کٹی ہوئی تحریکوں کو جوڑ کر حکمران طبقے کے معاشی حملوں کا مقابلہ کیا جائے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے میں ہی محنت کشوں کی بقا ہے۔ محنت کشوں کے مسائل اس وقت حل ہوں گے جب ان کی تقدیر کے فیصلے عالمی سامراجی ادارے کی بجائے وہ خود کریں گے۔