نقطہ نظر

ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملے کے امکانات بڑھ گئے ہیں: جلبیر اشقر

سنیگدھیندو بھٹاچاریہ

7 اکتوبر 2023 کو غزہ سے تعلق رکھنے والے مسلح گروپ حماس نے اسرائیل پر اچانک حملہ کیا، جس میں تقریباً 1200 افراد ہلاک ہوئے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اسرائیل اپنی جیلوں سے فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے اور اپنے آباد کاروں کو فلسطینی سرزمین سے نکالے۔ یہ واقعہ دہائیوں پر محیط تنازع کے سلسلے میں رد عمل کے ایک اور سلسلے کا موجب بنا، جس میں غزہ پر مسلط کی گئی اسرائیل کی ہمہ جہت جنگ میں اکتوبر2023سے دسمبر2024تک 50ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر عام شہری، بالخصوص خواتین اور بچے شامل تھے۔

تنازع ان دونوں ملکوں کی سرحدوں سے آگے بڑھ چکا ہے اور غزہ کے لوگوں کی فریاد عالمی برادری اور نام نہاد تہذیبی ضمیر کے افق پر اٹھتا ہوا سب سے بڑا سوالیہ نشان بن کر ابھری ہے۔

جلبیر اشقر سکول آف اورینٹل اینڈ افریقن سٹڈیز(SOAS) یونیورسٹی آف لندن میں ایک لبنانی پروفیسر ہیں، جو مغربی ایشیا کی جغرافیائی سیاست اور ان میں بین الاقوامی مداخلتوں کے بارے میں اپنی گہری سمجھ کے لیے جانے جاتے ہیں۔ یہ خطہ جس بحران اور غیر یقینی صورتحال سے گزر رہا ہے، اس پر سنیگدھیندو بھٹا چاریہ سے بات کرتے ہوئے جلبیر اشقر نے شام میں اسد خاندان کے خاتمے سے لے کر فلسطینیوں کی جدوجہد پر اس کے مضمرات اور مغربی طاقتوں کی منافقت اور روس یوکرین جنگ کے مقابلے میں ان کے متضاد کردار کے بارے میں گفتگو کی ہے۔ جلبیر اشقر کی یہ گفتگو ذیل میں پیش کی جا رہی ہے:

آپ شام میں حکومت کی تبدیلی کے مضمرات کو کیسے دیکھتے ہیں؟

جلبیر:میں اسے حکومت کی تبدیلی نہیں کہوں گا کیونکہ حکومت کی تبدیلی ایک ایسا اظہار ہے جسے خاص طور پر عراق پر امریکی قیادت میں حملے کے بعد سے ایک بہت ہی خاص معنوں میں لیاجاتا ہے۔ اب اس کا مطلب ہے کہ کوئی بیرونی طاقت حکومت کو تبدیل کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔ شام کے معاملے میں، میں اسے حکومت کا حقیقی خاتمہ کہوں گا جس طرح 2021 میں کابل حکومت کا خاتمہ ہوا تھا، جب امریکی افواج نے ملک سے نکلنا شروع کیا تھا۔

بلاشبہ یہ بہت اہمیت کا حامل واقعہ ہے کیونکہ شام نے بالخصوص ایران اور بعض دیگر ممالک کے لیے ایک اہم پلیٹ فارم کے طور پر کردار ادا کیا ہے۔ شام کی سرزمین پر پانچ غیر ملکی افواج موجود تھیں۔ ان میں پہلا اسرائیل ہے جس نے ملک کے جنوب میں گولان کی پہاڑیوں پر 1967 سے قبضہ کر رکھا ہے۔ ایرانی اور روسی افواج نے بالترتیب 2013 اور 2015 میں مداخلت کی تھی۔ ترک فوجیوں نے 2016 میں شمال کے کچھ حصوں پر حملہ کیا تھا۔ امریکی فوجی شمال مشرق میں، خاص طور پر کرد علاقے میں ہیں۔

اس لیے ظاہر ہے کہ اسد حکومت کا خاتمہ، جسے روس اور ایران نے کنارے لگایا، ایک بڑی تزویراتی اہمیت کا حامل ہے۔ اس لیے یہ بھی ایک حیران کن واقعہ ہے۔

اسد کے نکلنے کے اگلے دن شامی باشندوں بشمول پناہ گزینوں نے ہر ایک شہر میں جشن منایا، لیکن اسی واقعے نے فلسطینیوں کو گہری تشویش میں دھکیل دیا کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ اسد کا زوال اسرائیل کو حوصلہ دے سکتا ہے۔ اس کے بعد اسرائیل نے شامی جشن کو مختصر کر دیا۔ بلاشبہ ترکی اور امریکہ نے شام پر بمباری بھی کی لیکن زیادہ تر یہ اسرائیل تھا جس نے ان کے جشن کو خراب کیا۔ کیا آپ اس جغرافیائی سیاسی صورتحال کی پیچیدگی کے بارے میں وضاحت کر سکتے ہیں؟

جلبیر:انسانی بحران پہلے ہی موجود تھا۔ گزشتہ چند سالوں میں شام نے سیاسی تباہی سے پہلے ہی معاشی تباہی کا مشاہدہ کیا ہے۔ حکومت کے زیر کنٹرول مافیا طرز کی معیشت منشیات کے ارد گرد تیار ہوئی۔ باقی آبادی کے لیے معاشی صورتحال انتہائی مخدوش تھی۔ مقامی کرنسی گر گئی اور اس کے ساتھ لوگوں کی قوت خرید بھی گر گئی۔ اوسط سرکاری ملازم کو ہر ماہ 25ڈالر یا 30ڈالر کے برابر کچھ ملے گا۔ غریب ترین ممالک میں بھی یہ انتہائی کم ہے۔ لہٰذا آپ کے پاس پہلے سے ہی سنگین انسانی صورتحال پیدا ہو رہی تھی۔

شامی حکومت کے خاتمے سے بہت بڑی راحت ملی ہے۔ اسد خاندان کی ظالمانہ اورجابر حکومت کے دوران لاکھوں افراد کو قید کیا گیا، ہزاروں لاپتہ ہوئے اور جیلوں میں مارے گئے۔تاہم جیسا کہ اس طرح کے معاملات میں اکثر ہوتا ہے، جب اس طرح کی نیم مطلق العنان حکومت کا خاتمہ ہوتا ہے، ایک تیار متبادل کی غیر موجودگی میں یہ پریشانی بڑھ جاتی ہے کہ حالات آگے کیسے چلیں گے۔ شام میں اب بھی متعدد فورسز سرگرم ہیں جن میں مقامی اور غیر ملکی بھی شامل ہیں۔ ہم کم و بیش ہر فورس کے منصوبوں کو جانتے ہیں لیکن کوئی نہیں جانتا کہ کون غالب آنے والا ہے۔ تاہم کم از کم لوگ ابھی کے لیے آزاد سانس لے سکتے ہیں۔ وہ منظم ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سول سوسائٹی دوبارہ زندہ ہونے کی کوشش کر رہی ہے، اور یہ موجودہ حالات میں سب سے مثبت عنصر ہے۔

اسرائیل نے شام کی مزید زمین پر قبضہ کرنے کے لیے گولان کی پہاڑیوں میں اس موقع پر قبضہ کیا ہے، لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اسرائیل نے چند ہی دنوں میں سیکڑوں فضائی حملے کیے۔ خود اسرائیلی ذرائع کے مطابق ان حملوں میں شام کی فوجی صلاحیت کا 80 فیصد تباہ کر دیاگیا۔ یہ باغی گروہوں کی نہیں بلکہ شام کی سرکاری یا باقاعدہ فوجی صلاحیت تھی۔اسرائیل نے شام کی بحری فوج، فضائیہ، طیارہ شکن مشینیں وغیرہ تباہ کر دیں۔ یہ تقریباً مکمل عالمی بے حسی میں ایک ملک کی دوسرے ملک کی فوجی صلاحیت کی مکمل تباہی ہے۔ یہ حیرت انگیز ہے کہ اس پر بہت کم اعتراض یا احتجاج ہوا۔

اسرائیل ایک انتہائی جارحانہ روش پر گامزن ہے، جو اس نے خاص طور پر اکتوبر2023سے غزہ پر جنگ مسلط کر کے شروع کیا، اس کے بعد لبنان اور پھر شام پر حملے ہوئے۔ اسرائیلی مسلح افواج اب ایک خاص حد تک تین علاقوں کو تباہ کرنے میں ملوث ہیں، جن میں دو خودمختار ممالک لبنان اور شام بھی شامل ہیں۔

حماس فلسطین کے لیے شام کی حکومت کو ایران کے زیر تسلط نام نہاد مزاحمت کے محور کے حصے کے طور پر دیکھ رہی تھی۔ اگرچہ حماس کا اسد حکومت کے ساتھ کئی سالوں سے اختلاف تھا کیونکہ اس نے 2011 کی اسد مخالف بغاوت کی حمایت کی تھی، لیکن بعد ازاں انہوں نے یہ تفاوت ختم کر دی تھی۔یہ بھی ان کی ایران کے ساتھ اتحاد کو دوبارہ قائم کرنے کی کوشش کا حصہ تھا۔ جب انہوں نے 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر اپنا آپریشن شروع کیا تو انہوں نے ایران اور نام نہاد مزاحمتی محور سے فلسطین کی آزادی کی جنگ میں ان کا ساتھ دینے کی اپیل کی۔

اب اسد حکومت کے خاتمے کے بعد ہم نے حماس کو شامی عوام کو مبارکباد دیتے دیکھا ہے۔ لہٰذا وہ ایک بار پھر اپنی حمایت بدل رہے ہیں۔وہ اب ان اسلامی قوتوں پر جواکھیل رہے ہیں جنہوں نے اسد کے خاتمے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان میں سے کچھ گروپ اخوان المسلمون سے منسلک ہیں۔ حماس خود اخوان المسلمون کی فلسطینی شاخ ہے، جو ایک علاقائی تنظیم ہے۔ اس سطح پر ہم نہیں جانتے کہ شام میں کس قسم کی سیاسی طاقت ابھرے گی اور فلسطین پر اس کی پوزیشن کیا ہوگی۔ تاہم ایک بات یقینی ہے کہ شامی ریاست کی فوجی صلاحیت کی تباہی اسرائیلی ریاست کے مخالفین کو بہت کمزور کر چکی ہے۔

لبنان میں قائم حزب اللہ کے بارے میں کیا خیال ہے؟

جلبیر:حزب اللہ ایک بڑا جانی نقصان ہواہے۔ ستمبر 2024 میں اپنی جارحیت شروع کرنے کے بعد سے اسرائیل نے انہیں بہت سخت دھچکا پہنچایا۔ نومبر کے آخر تک تقریباً چند مہینوں تک حزب اللہ پر اسرائیلی افواج کے شدید حملے ہوتے رہے۔ یہ حملے اس سے کہیں زیادہ بڑے تھے،جو ہم نے لبنان میں پہلے دیکھے ہیں۔ حزب اللہ پر 2006 کے اسرائیلی حملے سے کہیں زیادہ بڑے پیمانے پر یہ حملے تھے۔ اس بار 2006 کے برعکس اسرائیلی حملوں نے حزب اللہ کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔ انہوں نے تنظیم کا مکمل سر قلم کر دیااور سیکرٹری جنرل کو بھی قتل کر دیا گیا۔

عملی طور پر تنظیم کے اہم رہنماؤں کی اکثریت ہلاک ہو گئی اور فوجی صلاحیت کافی حد تک تباہ ہو چکی ہے۔ اب شامی حکومت کے خاتمے کے ساتھ وہ راستہ بھی تقریباً بند ہو گیا ہے، جس کے ذریعے ایران حزب اللہ کو ہتھیار بھیج سکتا تھا۔ 2006کے بعد بھی ایران نے شام کے ذریعے ہی حزب اللہ کو ہتھیار بھیجے تھے۔ اس طرح حزب اللہ کا دوبارہ مسلح ہونے کا امکان اگر ناممکن نہیں تو عملی طو رپر بہت ہی کم ہو چکا ہے۔ مجھے ابھی تک اس حوالے سے کچھ سمجھ نہیں آرہی، نہ ہی میں کوئی اندازہ لگا سکتا ہوں کہ ایران حزب اللہ کو کیسے دوبارہ مسلح کر سکتا ہے۔ ایران نے اس سب میں بہت کچھ کھویا ہے۔

ایران کیسے متاثر ہوا؟

جلبیر:یہ اس وقت ہوا جب ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ میں دوسری مدت کے لیے منتخب ہوئے۔ ہم جانتے ہیں کہ ٹرمپ کی اپنی پہلی میعاد کے دوران ایران سے کتنی دشمنی تھا۔ ہم جانتے ہیں کہ وہ ایسے لوگوں سے گھرے ہوئے ہیں جو بہت زیادہ ایران مخالف ہیں۔ لہٰذا ایران کے پاس حملے سے ڈرنے کی معقول وجہ ہے، یا تو امریکہ اسرائیل مشترکہ حملہ یا ٹرمپ کے دور میں تنہا امریکہ کاحملہ،جس میں خاص طور پر اس کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنائے جانے کا خطرہ موجود ہے۔ اس حملے کا اب ماضی کی نسبت امکان بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو ایران پر حملے کے لیے بہت زیادہ سختی سے زور دیں گے۔یہ وہ چیز ہے جس کی وہ طویل عرصے سے خواہش کر رہے تھے۔ تاہم اسرائیل اکیلا ایسا نہیں کر سکتا، اسے اس کے لیے امریکہ کی ضرورت ہے۔ اور اب نیتن یاہو کے ذہن میں ہے کہ اب ایسا کرنے کا وقت آگیا ہے، کیونکہ ان کے دوست ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی ہو چکی ہے۔

کیا آپ امریکہ اسرائیل اتحاد کے خلاف مزاحمت کے کسی دوسرے محور کے ابھرنے کا امکان دیکھتے ہیں، یا اسے جو بھی کہا جا سکتا ہے؟

جلبیر: صرف دو ایرانی اتحادی ہیں جو اب بھی کچھ صلاحیتوں کے ساتھ وہاں موجود ہیں۔ ایک عراق میں ایران نواز شیعہ ملیشیا ہے، تاہم اسرائیل یا امریکہ کے حوالے سے ان کی تاثیر بہت محدود ہے۔ جب بھی انہوں نے امریکی افواج پر حملہ کرنے کی کوشش کی، انہیں زبردست جوابی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسرے اتحادی یمن میں حوثی ہیں۔ وہ بحیرہ احمر میں اور اسرائیل پر بھی میزائل داغتے رہے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر میزائل جو خاص طور پر اسرائیل پر داغے گئے تھے، انہیں باآسانی روکا گیا ہے۔ تاہم وہاں ہر وقت کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے۔ اسرائیل نے حال ہی میں یمن میں حوثیوں کے خلاف اپنی انتقامی کارروائیوں میں اضافہ کیا ہے، اور اگر حوثیوں کے حملے جاری رہتے ہیں تو اسرائیل اس سے کہیں آگے بھی بڑھ سکتا ہے۔ میرا مطلب ہے کہ عراق میں ملیشیا، یا حوثیوں کا علاقہ، یا حزب اللہ میں سے کوئی بھی اب اسرائیل یا امریکہ کے لیے کسی مضبوط رکاوٹ یا خطرے کی نمائندگی نہیں کرتا۔ ایران تذویراتی طور پر کمزور ہے۔ یہ ایک تذویراتی شکست ہے اور اب ایران اپنے اتحادیوں کے لیے بہت زیادہ خطرے کے وقت بھی کچھ مدد کرنے میں بہت کمزور پوزیشن میں ہے۔

لہٰذا ہم فلسطینیوں کو اس وقت سب سے زیادہ غیر محفوظ پاتے ہیں، جو پہلے سے زیادہ کمزور تھے۔ ایران کے علاقہ اسرائیل مکمل استثنیٰ کے ساتھ غزہ میں ایک سال سے زائد عرصے تک نسل کشی کی جنگ شروع کر سکتا ہے۔ انہوں نے غزہ کو تباہ کیاہے۔ انہوں نے ایک حقیقی نسل کشی کا ارتکاب کیاہے۔ جیسا کہ اب بین الاقوامی عدالت انصاف اور بین الاقوامی فوجداری عدالت کے علاوہ ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز جیسی انسانی حقوق کی تمام تنظیموں نے اسے بے نقاب کیا اور مذمت بھی کی ہے۔ پھر بھی وہ 14 ماہ سے یہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی (اسرائیلی) قبضے کے لیے ایک پراکسی کے طور پر اپنے کردار کو بحال کر رہی ہے، اور یہ فلسطینی عوام کے مستقبل کے لیے کافی خطرناک ہے۔

آپ نے اس امکان کا ذکر کیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ ایران کی جوہری تنصیبات کو تباہ کرنے کی کوشش کرسکتا ہے۔ یہ مجھے جارج بش کی قیادت میں عراق کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کے جھوٹے الزام کی بنیاد پر عراق پر امریکی حملے کی یاد دلاتا ہے۔ بہت سے مبصرین کے نزدیک یہی وہ نقطہ تھا جس نے مغربی ایشیا کو افراتفری میں دھکیل دیا۔ عراق کے ساتھ جو کچھ کیا اس کا ذمہ دار امریکہ کو کون ٹھہرائے گا؟

جلبیر:عراق اور ایران کے معاملات میں بڑا فرق ہے۔ 2003 میں جب امریکہ نے حملہ کیا تو عراق کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار نہیں تھے۔ انہوں نے ہر چیز کی تلاش کی اور ان بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ بش انتظامیہ نے صریح جھوٹ بولا۔ تاہم ایران کے معاملے میں سب سے پہلے جوہری تنصیبات ہیں۔ ملک میں ایٹمی پیداوار کی اہم صلاحیت موجود ہے۔ ان تنصیبات کے کچھ کنٹرول کے لیے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ معاہدے ہوئے ہیں۔ یہ اس جوہری معاہدے کا حصہ تھا،جو امریکہ نے 2015 میں براک اوباما انتظامیہ کے تحت ایران کے ساتھ کیا تھا۔

تاہم ٹرمپ نے اپنی پہلی مدت کے دوران اس معاہدے کو مسترد کر دیا تھا۔ لہٰذا ایران نے یورینیم کو ایک خاص حد سے زیادہ افزودہ نہ کرنے کے اپنے عہد سے خود کو آزاد محسوس کیا، اور وہ بہت زیادہ افزودہ یورینیم تیار کر رہے ہیں، جو یقیناً عام طور پر صرف ایک چیز کی خدمت کر سکتا ہے، اوروہ جوہری ہتھیاروں کی تیاری ہے۔ حتیٰ کہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی بھی اس کی طرف اشارہ کرتی رہی ہے اور ایران کو اس بارے میں خبردار کرتی رہی ہے۔ ہم ایران میں اب ایک ایسی دوڑ دیکھ سکتے ہیں، جس میں حملے کے خلاف روک تھام کے طور پر جوہری ہتھیاروں کی تیاری کو تیز کرنے کا اشارہ کیا گیا ہے۔ جس حملے کی ہم بات کر رہے ہیں وہ برسوں کی بات نہیں ہے۔ یہ شاید مہینوں کی بات ہے۔ یا تو ایرانی قیادت مکمل طور پر سر تسلیم خم کرے اور اپنی تنصیبات کے حقیقی معائنے کی اجازت دے، یا یہ بہت ممکن ہے کہ امریکہ ان تنصیبات پر حملہ کرے۔

اس نقطہ نظر سے یہ عراق پر حملے سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ آپ کو ایران پر حملہ نہیں کرنا پڑے گا۔ یہ صرف ایک فضائی حملہ ہوگا،لیکن یہ پورے خطے میں آگ بڑھکانے کی صلاحیت کا حامل ہوگا، جو پہلے ہی بارود کا ڈھیر ہے اور پھر تیل سے مالا مال۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے تیل کے کنوئیں میں راکٹ بھیجا جائے۔ بہت بڑے تیل کے ذخائر ہیں اور یہی وہ سب ہے جو آپ حاصل کر سکتے ہیں۔

آپ مغربی طاقتوں کے کردار کو کیسے دیکھتے ہیں؟

جلبیر:مغربی طاقتیں غزہ پر اسرائیلی جارحیت کا اٹوٹ انگ ہیں۔ یہ امریکہ اور اسرائیل کی اب تک کی پہلی مشترکہ جنگ ہے۔ اگر آپ اسرائیلی ریاست کی 1948 میں اس کی بنیاد رکھے جانے سے اب تک کی تاریخ کی تمام جنگوں کا جائزہ لیں لیں، تو یہ پہلی جنگ ہے جسے امریکا اور اسرائیل کی مکمل مشترکہ جنگ قرار دیا جا سکتا ہے۔ صرف ایک چیز جو غائب ہے وہ ہے زمین پر موجود فوجی۔

امریکہ غزہ پر حملے کا حصہ نہیں ہے لیکن اس نے خاص طور پر غزہ کی پٹی کو تباہ کرنے والے بم بفراہم کر کے انہیں مسلح کیا ہے۔ اس نے سیاسی طور پر اسرائیل کی مالی امداد کی اور اس کا بھرپور دفاع کیا۔ اس نے اسرائیل کے کسی بھی دشمن کی طرف سے ممکنہ کارروائی کے خلاف خطے میں اپنی فوجیں تعینات کر کے اسرائیل کا عسکری طور پر دفاع کیا ہے، اور اس نے جنگ بندی کی کسی بھی کال کو روک دیا ہے۔ یہ جنگ میں مادی طور پر مکمل شرکت کے ساتھ ایک مکمل توثیق ہے۔

حال ہی میں یورپی ریاستوں میں سے کچھ ایسی ہیں جنہیں نسبتاً منصفانہ موقف لینے کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔ آئرلینڈ اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات منقطع کرنے تک چلا گیا۔ اسپین اور بلجیم جیسے ممالک نے بین الاقوامی قوانین کے قریب پوزیشن حاصل کی، لیکن زیادہ تر دیگر ریاستوں اور بالخصوص جرمنی نے اس حملے کی مکمل طور غیر مشروط توثیق کا موقف ہی اپنائے رکھا۔ امریکی رویے نے بین الاقوامی لبرل آرڈر پر مبنی قوانین کے مغربی دکھاوے کو مکمل طور پر توڑ دیا ہے۔ جب آپ یوکرین پر روسی حملے اور غزہ پر اسرائیلی حملے کے بارے میں ان کے رد عمل کا موازنہ کرتے ہیں تو بہت بڑا فرق نظرآتا ہے، جو بین الاقوامی قوانین، مساوات، انسانی حقوق اور ان سب کے احترام کے تمام دکھاوے کو ختم کر دیتا ہے۔

اس لحاظ سے میں سمجھتا ہوں کہ جو کچھ ہم نے دیکھا ہے وہ مغربی لبرل دکھاوے کے تابوت میں آخری کیل ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ متبادل بہتر ہے۔ صرف یہ کہنا ہے کہ جس دنیا میں ہم زندہ ہیں وہ بدقسمتی سے ایک ایسی دنیا ہے جس پر جنگل کے قانون کی حکمرانی ہے۔

آپ عام لوگوں کے لیے کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟

جلبیر:ایک عالمی تباہی شروع ہو چکی ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ایک صدی قبل نازی ازم اور فاشزم کی صورت میں کیا ہوا تھا۔ اب ہمارے پاس آب و ہوا کی تباہی بھی بڑھ رہی ہے۔ اگر عوام اٹھیں اور جمہوریت کے دفاع کے لیے ان انتہائی دائیں بازو کے رجحانات کے خلاف لڑیں،جو ہم دنیا بھر میں دیکھ رہے ہیں۔ عوام اقوام متحدہ کے چارٹر پر مبنی بین الاقوامی قانون کی بنیاد پر بنیاد کو بحال کرنے اور امن کے لیے اٹھیں اور ایسی دنیا کے لیے جدوجہد کریں جہاں کھربوں ڈالر اسلحے پر خرچ کرنے کی بجائے موسمیاتی تبدیلی اور غربت کے خلاف جنگ پر خرچ کیے جائیں۔ انسانیت ایک ہولناک صورتحال کا سامنا کر رہی ہے۔

دنیا ایک بہت بڑی تباہی کے دہانے پر ہے۔اس تباہی کا سفر شروع ہو چکا ہے۔ ہم جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے بارے میں اس سے زیادہ سن رہے ہیں،جتنا ہم سرد جنگ کے دوران سنتے تھے۔ میرا مطلب ہے 1962 کے کیوبا کے میزائل بحران کو چھوڑ کر۔ ہم روس یوکرین تنازع اور امریکہ ایران کے ممکنہ تنازع کے حوالے سے سن رہے ہیں۔ہم ایک تباہی کا سامنا کر رہے ہیں اور میں بالکل بھی مبالغہ آرائی نہیں کر رہا ہوں۔

(بشکریہ:لنکس، ترجمہ حارث قدیر)

Roznama Jeddojehad
+ posts