تاریخ

یوم مئی: مزدور کی محنت پر ہم مزدور کا قبضہ مانگیں گے!

التمش تصدق

یوم مئی ،مزدوروں کا عالمی دن ،امریکہ کے شہر شکاگو میں شہید ہونے والے مزدوروں کی یاد میں ہر سال بلا تفریق رنگ، نسل، مذہب،قوم اور ملک ساری دنیا میں انتہائی جوش و جذبے سے منایا جاتا ہے۔اس سال یوم مئی ایسے وقت منایا جا رہا ہے ،جب سرمایہ دانہ نظام تاریخی متروکیت کا شکار ہو کر ساری دنیا میں مہنگائی،بے روزگاری، نجکاری، جنگوں،خانہ جنگیوں اور ماحولیاتی آلودگی کی صورت میں ہر طرف بربادیاں پھیلا رہا ہے۔حکمران طبقہ بے رحمی سے مزدور دشمن نیو لبرل پالیسیوں کو لاگو کر رہا ہے۔ محنت کشوں پر معاشی حملوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور یونین سازی، پر امن احتجاج اور اجتماع جیسے جمہوری حقوق پر پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں۔

پاکستان کو اگلے تین سالوں میں ہر سال 25 ارب ڈالر قرضوں کا سود ادا کرنا ہے۔اس سود کی ادائیگی کے لیے حکمرانوں کو آئی ایم ایف اور دیگر سامراجی اداروں سے مزید قرض لینا پڑے گا۔یہ عالمی سامراجی مالیاتی ادارے اپنی شرائط پر قرض دیں گے۔آئی ایم ایف کی شرائط قومی اداروں کی نجکاری اورٹیکسوں میں مزید اضافہ ہے۔ قومی اداروں کی نجکاری سے بیروزگاری میں اضافہ ہو گا، اور گیس، پیٹرول، ڈیزل اور بجلی کی قیمت میں ہونیوالے اضافے کی وجہ سے مہنگائی کروڑوں انسانوں کو سطح غربت سے نیچے دھکیلے گی۔حکمران طبقے کی طرف سے لیا گیا قرضہ محنت کشوں کا خون نچوڑ کر اور قومی اداروں کی نجکاری کے ذریعے ادا کیا جائے گا۔

ایسے وقت میں جب محنت کشوں کے لیے زندگی کے تمام راستے بند کیے جا رہے ہوں ،یوم مئی کی اہمیت محض ماضی میں محنت کشوں کی قربانیوں کی یاد تک محدود نہیں ہے ،بلکہ جس بین الااقوامی طبقاتی یکجہتی اور اتحاد کا مظاہرہ یکم مئی کو ساری دنیا میں محنت کش طبقہ کرتا ہے ،اس طبقاتی اتحاد کو مستقل بنیادوں پر قائم کرتے ہوئے سرمایہ داری کے خلاف محنت کشوں کو طبقاتی جنگ تیز کرنے کی ضرورت آج تاریخ میں سب سے زیادہ ہے۔

یوں تو ہر دن ہی محنت کشوں کا دن ہوتا ہے،کیوں کہ محنت کش ہی ہیں جن کی محنت پر یہ سماج زندہ ہے۔اگر ایک دن محنت کش طبقہ اپنے ہاتھ روک لے توکوئی فیکٹری، کارخانہ، دفتر، ہسپتال، تعلیمی ادارہ، ٹرانسپورٹ،بجلی سمیت کوئی شعبہ زندگی ایسا نہیں ہے جو چل سکے۔المیہ یہ ہے کہ جو طبقہ سماج کو زندگانی دیتا ہے وہ خود ضروریات زندگی سے محروم ہے۔وہ کسان جو اپنی محنت سے تمام انسانوں کے لیے اناج پیدا کرتا ہے، اس کے گھر میں فاقے ہیں۔جو مزدور کپڑوں کے کارخانے میں کپڑا بناتا ہے، اس کے بچے ان کپڑوں سے محروم ہیں۔نجی تعلیمی اداروں میں کام کرنے والے اساتذہ جن تعلیمی اداروں میں پڑھاتے ہیں، اکثر وہ اس ادارے میں اپنے بچوں کی فیس ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتے ہیں۔

یوم مئی 1886 کو امریکہ کے شہر شکاگو میں شہید ہونے والے مزدوروں کی تاریخی جدوجہد اور قربانیاں کی یاد میں منایا جاتا ہے۔یہ دن محنت کشوں کو یاد دہانی کرواتا ہے کہ حکمران چاہے جس مذہب، قوم اور ملک سے تعلق رکھتے ہوں، ان کے طبقاتی مفادات مشترک ہیں۔ اسی طرح ساری دنیا کے محنت کشوں کے مفادات اور جدوجہد مشترک ہے۔ شکاگو کے محنت کشوں کا قتل عام ثابت کرتا ہے کہ سرمایہ دار حکمران طبقہ اور ان کی نمائندہ ریاست منافعوں کو برقرار رکھنے کے لیے محنت کشوں کے خون سے ہولی کھیلنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔منافع محنت کشوں کی محنت کا وہ حصہ ہوتا ہے ،سرمایہ دار طبقہ جس کی اجرت ادا نہیں کرتا ہے۔تمام تر دولت جو مختلف اجناس کی صورت میں موجود ہے،وہ انسانی محنت کی پیداوار ہے۔پیداواری صلاحیت جتنی زیادہ ہوگی اور کام کے اوقات کار جتنے طویل ہوں گے ،سرمایہ داروں کے منافع میں اتنا ہی اضافہ ہو گا۔سرمایہ داری کے آغاز میں سرمایہ دار محنت کشوں سے 12 سے 18گھنٹے کام لیتے تھے۔شکاگو کے مزدوروں نے 16 گھنٹے کے غیر انسانی کام کے اوقات کار کی بجائے 8 گھنٹے اوقات کار کی مانگ کی اور اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے احتجاج کیا۔محنت کشوں کے پرامن احتجاج پر پولیس نے فائرنگ کر دی ،جس سے بہت سے مزدور شہید اور زخمی ہوئے۔محنت کشوں کے سفید پرچم ان کے لہو سے سرخ ہو گئے، وہی سرخ پرچم آج بھی محنت کشوں کی جدوجہد کی پہچان ہے۔

آج محنت کشوں کے پاس 8 گھنٹے اوقات کار، پنیشن کے حق سمیت جو حقوق موجود ہیں ،وہ سرمایہ دار حکمران طبقے نے خیرات کے طور پر نہیں دیئے ہیں، بلکہ محنت کشوں کی لا زوال جدوجہد کا نتیجہ ہیں۔آج بھی محنت کشوں کے پاس اپنے حقوق کے لیے مشترکہ جدوجہد کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔

شکاگو کے محنت کشوں کا قتل عام کوئی پہلا واقع نہیں تھا اور نہ ہی آخری قتل عام تھا ،بلکہ آج تک محنت کشوں کے قتل کا سلسلہ ختم نہیں ہوا ہے۔آج بھی محنت کش جب اپنے حقوق کی لڑائی لڑتے ہیں توان پر تشدد کیا جاتا ہے، گولیاں برسائی جاتی ہیں اوران کو جیلوں میں ڈالا جاتا ہے۔آج بھی محنت کش بھوک اور بیماری سے مر رہے ہیں۔ بیروزگاری کی ذلتیں برداشت کر رہے ہیں۔قحط اور جنگوں کا بھی سب سے زیادہ شکار محنت کش ہی بنتے ہیں۔آج بھی پاکستان میں نجی شعبے میں 12 گھنٹے کام کے اوقات کار ہیں اور نجی تعلیمی اداروں سمیت دیگر اداروں میں حکومت کی اعلان کردہ 33 ہزار اجرت سے نصف سے بھی کم اجرت پر کام لیا جاتا ہے۔ان اداروں میں روزگار کا کوئی تحفظ نہیں ہے۔بیماری یا کسی اور مجبوری کی وجہ سے چھٹی کی صورت میں اجرت میں کٹوتی کی جاتی ہے۔

جب تک طبقاتی سماج موجود ہے طبقاتی تضاد اور کشمکش ختم نہیں ہو سکتی ہے۔کبھی یہ کشمکش بغاوتوں اور انقلابات کی صورت میں اپنا اظہار کرتی ہے ،کبھی پس پردہ چلی جاتی ہے۔طبقاتی کشمکش محنت کشوں کی پیدا کردہ دولت پر محنت کشوں اور سرمایہ داروں کی حصے داری کی لڑائی ہے۔سرمایہ دار طبقے کی کوشش ہوتی ہے کہ محنت کشوں سے زیادہ سے زیادہ کام لیا جائے اور کم سے کم اجرت دی جائے۔محنت کا جتنا حصہ سرمایہ دار ہڑپ کرتے ہیں ،ان کو اتنا ہی زیادہ نفع ملتا ہے۔دوسری طرف محنت کش اپنی محنت کا زیادہ سے زیادہ حصہ وصول کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جس کے لیے وہ اجتماعی جدوجہد کا راستہ اپنانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ٹریڈیونین تحریک اسی قدر زائد یا منافع میں سے محنت کشوں کو زیادہ سے زیادہ حصہ دلانے کے عمل میں وجود میں آئی ہے۔ کبھی یہ لڑائی قانونی حدود میں مقید رہتی ہے اور سمجھوتے پر منتج ہوتی ہے اور کبھی سرکشی اور انقلابات کی صورت اختیار کر دیتی ہے۔

اس وقت تک بے شمار محنت کشوں کی بغاوتوں اور انقلابات نے جنم لیا ہے، جن کو کبھی حکمرانوں نے خون میں ڈبویا ہے اور کبھی محنت کشوں نے سرمائے کی حاکمیت کو شکست دے کر صنعت اور معیشت کواپنے جمہوری کنٹرول میں لے کر اشتراکی سماج کاقیام کیا۔پیرس کمیون اور 1917 کے سوویت انقلابات سمیت بے شمار انقلابات نے یہ ثابت کیا ہے کہ محنت کش طبقہ افسر شاہی اور سرمایہ داروں کے بغیر اس نظام کو چلا سکتا ہے۔آج ایک مرتبہ پھر ساری دنیا میں محنت کش طبقہ ایک نئی طبقاتی جنگ کے لیے صف بندی کر رہا ہے۔اس طبقاتی جنگ میں محنت کشوں کی فتح ہی اس طبقاتی تضاد کا خاتمہ کر سکتی ہے ،جو انسان کو انسان کا دشمن بناتا ہے۔

شہدائے شکاگو سمیت محنت کشوں کے ہر شہید کا انتقام طبقاتی استحصال اور ظلم پر مبنی نظام کو شکست دے کر غیرطبقاتی سماج کا قیام کر کے ہی لیا جا سکتا ہے۔

Altamash Tasadduq
+ posts

مصنف ’عزم‘ میگزین کے مدیر ہیں۔