راجہ مظفر
11 فروری کشمیری عوام شہید محمد مقبول بٹ کا یوم شہادت نہایت عقیدت و احترام سے مناتے ہیں۔ ان کے ایک قریبی ساتھی ہونے کی وجہ سے میری کوشش ہوتی ہے کہ شہید سے وابستہ یادوں کو تازہ کروں اور مقبول بٹ کے پیروکاروں تک ان کا دیا گیا درس حریت منتقل کروں۔
آج میں نے تصور میں مقبول بٹ صاحب سے ملاقات کی اور کچھ خیالات، سوالات دل و دماغ میں تھے جو ان سے بیان کئے۔ وہ سوالات آپ کے لئے بھی قلم بند کر رہا ہوں۔
اے شہید وطن سلام ہو آپ پر میں مایوسی کے عالم میں آپ تک یہ افسوسناک خبر پہنچا رہا ہوں کہ آپ کی سوچ و فکر کے دشمن آپ کے وطن اور میرے مقدر کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ 73 سال قبل کئے گے قبضہ کو اب دوام بخشا جا رہا ہے۔ انڈیا نے 5 اگست 2019ء کو لداخ کو جموں اور وادی سے الگ کر کے ریاست کو اپنی شناخت اور جھنڈے سے محروم کیا ہے۔ پھر پاکستان نے گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کا اعلان کر دیا اور آج میں نے ایک پاکستان کے صحافی رؤف کلاسرا کی زبان سے سنا کہ بھارت اور پاکستان کشمیر پر لین دین کر چکے ہیں۔
آج بار بارکہا اور بولا جا رہا ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان جموں کشمیر، اس کے عوام اور اس کے پانیوں کی تقسیم کا سمجھوتہ ہو چکا ہے۔
آج آپ کی 38 ویں برسی پر میرے علاوہ بہت سے ذہنوں میں یہ سوال ابھر رہا ہے کہ انڈیا پاکستان کے درمیان سمجھوتہ کی جو خبریں آ رہی ہیں کشمیر پر یہ کس کی ہار ہے اور کس کی جیت؟ مقبول بٹ صاحب! آپ کے درس حریت کے مطابق میرا یقین ہے کہ آپ کی سوچ و فکر کی نفی کرنے والے اپنوں اور پرایوں کو شکست ہو گی اور آپ کے پر ستاروں کا قافلہ سرخرو ہو گا۔
اے میری مظلوم محکوم قوم کے قائد آج میں آپ کے دوست، کلاس فیلو اور مشہور زمانہ شاعر احمد فراز کے اشعار ’مرنے کا ہنر سکھا گیا تو‘ سے آپ کو خراج عقیدت پیش کر رہا ہوں۔ احمد فراز مرحوم نے آپ سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے جو کہا وہ تاریخ میں رقم ہو گیا ہے۔ انہوں نے آپ کو مخاطب کر کے کہا مقبول!
گو آنکھ سے دور جا چکا تو
روشن مگر چراغ سا تو
محروم لبوں کا حرف زندہ
مظلوم دلوں کا ہمنوا تو
میں بھی تیرا ہم سفر تھا لیکن
میں آبلہ پا تھا، برق پا تو
زنداں کے عذاب تک رہا میں
اور منزل دار تک گیا تو
دشمن کے حصار میں اکیلا
لشکر کے مقابلے پر تھا تو
کب قتل ہوئی ہے سچ کی آواز
خوشبو کی طرح ہے جابجا تو
اے جان جہاں سر فروشاں
لیلائے وطن کا دلربا تو
تھا تذکرہ مسیح و منصور
بے ساختہ یاد آ گیا تو
اے کشت شب فراز کو بھی
مرنے کا ہنر سکھا گیا تو
مندرجہ بالا مختصر سی خیالی ملاقات کے بعد میں اپنے رہنما بارے ان لوگوں کو کچھ بتانا چاہتا ہوں جو انہیں ٹھیک سے نہیں جانتے۔
مقبول بٹ نے آنے والی نسلوں کے کیلئے اپنی جان کی قربانی دی۔ وہ مادر وطن پر قبضے کے خلاف انتہائی ثابت قدمی کے ساتھ نبرد آزما رہے اور سرینگر کے مہتاب باغ، مظفر آباد بلیک فورٹ، شاہی قلعہ لاہور اور تہاڑ جیل (دہلی) میں شدید جسمانی اور ذہنی تشدد برداشت کیا۔ اس کے باوجود انھوں نے اپنے عظیم انقلابی خیالات کو نہ تو تبدیل کیا نہ کوئی سمجھوتہ کیا۔
شہید مقبول بٹ کو پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں سب سے زیادہ مخالفت و مزاحمت پاکستان کی عوام دشمن اسٹیبلشمنٹ اور بھارتی مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے بعض وظیفہ خور اور اقتدار کے بھوکے بعض سیاستدانوں کی جانب سے اٹھانی پڑی۔ میرا اشارہ ان سیاستدانوں کی طرف ہے جنہوں نے مقبول بٹ کو انڈین ایجنٹ کہا اور لگ بھگ وہی الزامات لگائے جو انڈیا اور اس کے ایجنٹ لگا رہے تھے۔
شہید مقبول بٹ کو بھارت اور بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں سب سے زیادہ مخالفت بھارتی خفیہ اداروں (را اور آئی بی) اور کشمیر میں ان کے ایجنٹوں نے کی۔ ان ایجنٹ سیاستدانوں اور چند ایک قلمکاروں نے مقبول بٹ کے بارے افواہوں اور مفروضوں پر مبنی حکومتی پراپیگنڈا کا حصہ بن کر ان کے بارے کشمیری عوام کو گمراہ کن معلومات فراہم کیں۔ اس کے باوجود آج کشمیر کا ہر جوان مقبول بٹ بن چکا ہے…سوچ فکر اور نظریہ کے ساتھ۔
کشمیر کی آزادی و خود مختاری کے سب ہی مخالف خواہ وہ سرینگر میں ہوں، مظفر آباد میں، دہلی میں ہوں یا اسلام آباد میں یا خود کشمیر کی آزادی چاہنے والوں کی صفوں میں کشمیریوں کی سوچ کی اس تبدیلی پر پریشان ہیں۔ اس لئے اب نہتے کشمیریوں پر اپنی طاقت کا رعب جمانے کے لئے پیلی پگڑیاں پہنے آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والے جموں میں اور سبز اور کالی پگڑیاں پہنے جہادی فسادی مظفر آباد میں لشکر جمع کرتے اور طاقت کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں۔
کشمیری امن چاہتے ہیں۔ آزادی چاہتے ہیں انصاف چاہتے ہیں۔ اس کے لئے پاکستان اور ہندوستان میں بسنے والے کروڑوں امن پسند عوام کی مدد و تعاون بھی درکار ہے، جس کے لئے ہم ایک مہم چلائے ہوئے ہیں۔
آپ اگر مقبول بٹ شہید کی اپنی زبان میں کی گئی تقریریں سنیں، ان کے انڈیا اور پاکستان کی عدالتوں میں چلنے والے مقدمات میں ان کے اپنے عدالتی بیانات پڑھیں، ساتھیوں کے نام لکھے گے خطوط پڑھیں تو ان کی شخصیت کے تمام پہلوو آپ پر کھل جا ئیں گے۔
تہاڑ جیل دہلی میں پھانسی پانے سے اڑھائی سال قبل مجھے اپنے خط میں لکھا کہ: ’بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ صلیب کو بوسہ دئے بغیر انجیل آگاہی کے اوراق کھلنے پائیں۔‘
اور پھر دنیا نے دیکھا لیلائے آزادی کے مجنوں 11 فروری 1984ء کو صلیب کو بوسہ دے کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امر ہو گے۔
قارئین میں نے مقبول بٹ شہید کی صحبت میں گزارے لمحات اور ان کی تحریروں محبت ناموں نے میرے ذہن کی کھڑکیاں کھول دیں۔ ان سے حاصل ہونے والے علم کے نور سے میرے ذہن و قلب نے روشنی پائی ہے۔ میرے مزاج اور سیاسی و تحریکی کردار اور رویہ کے نشو ونما میں شہید مقبول بٹ کی تحریروں نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔
مقبول بٹ حالات پر گہری نظر رکھنے والی ایسی شخصیت تھے کہ جن کی معاملات کو سمجھنے کی صلاحیت بہت گہری تھی۔ کچھ واقعات کی کڑیاں جوڑتا ہوں تا کہ مقبول بٹ کے کشمیر جانے کا پس منظر سمجھا جا سکے۔
اس پر بحث ہوتی رہی ہے اور ہوتی رہے گی کہ مقبول بٹ کا 1966ء میں جانے کی وجوہات درست تھیں؟ اور پھر 1976ء میں ان کے دوبارہ کشمیر جانے کے محرکات کیا تھے۔؟
قارئین کرام 1963ء میں سرینگر میں موئے مقدس کی بازیابی کے لئے عوام کی زبردست تحریک اور مظاہروں اور اسی دوران مہاجرین جموں کشمیر کا کشمیر انڈیپنڈنس کمیٹی بنانا پھر 1964ء میں شیخ عبداللہ کے دورہ پاکستان کے فوری بعد اگست 1965ء میں عبدالخالق انصاری مرحوم کے مشورہ پر محاذ رائے شماری آزاد کشمیر کے قیام میں مقبول بٹ کا نمایاں کردار اور محاذ کے بانی ساتھیوں کے ہمراہ سوچیت گڑھ پہنچ کر مادر وطن کی مٹی ہاتھ میں لے کر آزادی وطن کے لئے حلف اٹھانا پھر ان ہی ایام میں 1965ء کا ناکام آپریشن جبرالٹر اور اس کے نتیجہ میں 17 روزہ پاک بھارت جنگ اور تاشقند معاہدہ اور پھر شہید مقبول بٹ کا 10 جون 1966ء کو اپنے ساتھیوں میر محمد، مقبول نائک کے ساتھ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں پہنچنا، وہاں ان کی گرفتاری، انہیں سزائے موت کا سنایا جانا اور پھر مقبول بٹ اور ان کے ساتھی چوہدری یاسین مرحوم کا 8 اور 9 دسمبر 1968ء کی سرد ترین رات سرینگر جیل سے فرار، واقعات کی ایسی کڑیاں ہیں جن کو سمجھنے کے بعد ہی مقبول بٹ کے طرز فکر و عمل کو سمجھنا آسان ہو گا۔
مقبول بٹ شہید کے ساتھ محبت، عشق اور عقیدت رکھنے والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ مقبول بٹ کی شخصیت کو عوام الناس کے سامنے پیش کرنے کے لئے ان کے فرمودات اور تحریروں کا مطالعہ کریں اور ان کے نام سے وہ جملے منسوب نہ کریں جو انہوں نے کبھی ادا ہی نہیں کئے نہ کہیں لکھے۔
مقبول بٹ کی فکر کے مخالفین شہید مقبول بٹ سے منسوب فرضی قصے کہانیاں گھڑ کر انہیں یا تو انڈیا کا ایجنٹ یا پاکستان کا ایجنٹ ثابت کرنے کی شعوری اور لا شعوری کوششیں کر رہے ہیں۔
آئیں مل کر ان کے مشن کی تکمیل کے لئے اپنی سیاسی، فکری اور سفارتی جدوجہد کو آگے بڑھایں۔