تاریخ

کشمیر کا ہر باشعور نوجوان مقبول بٹ بن چکا ہے

راجہ مظفر

میری خواہش ہے کہ مقبول بٹ شہید کے سیاسی فلسفے سے متعلق آج کی نوجوان نسل کی معلومات میں اضافہ کیا جائے۔ مجھے چونکہ خوش قسمتی سے ان کے ساتھ بلا تکلف دوستانہ و مشفقانہ ماحول میں رہنے اور قریب سے دیکھنے سننے کا موقع ملا ہے اس کی بنیاد پر میں پورے وثوق کے ساتھ یہ دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہوں کہ بٹ صاحب ایک مدبر سیاسی رہنما، علم اور فہم و فراست کے حامل دانشور تھے۔

وہ تشدد کی سیاست پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ ہاں ان کا کہنا تھا کہ جب کسی قوم پر حصول آزادی کے پر امن راستے بند کر دئیے جائیں تو ایسی اقوام کو ’مزاحمت‘ کا حق حاصل ہے۔ وہ ریاست جموں کشمیر کی وحدت کی بحالی اور ریاست کو صحیح معنوں میں ایک آزاد ریاست کے طور دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ آزاد ریاست میں معاشی انصاف پر مشتمل ایسا نظام ہو جس میں انسان کی تمام بنیادی ضروریات (روزگار، تعلیم، علاج) کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہو۔ وہ ایک فلاحی سیکولر جمہوری ریاست کا تصور رکھتے تھے۔

مقبول بٹ جرات و بہادری میں اپنی مثال آپ تھے۔ ان کی عظیم قربانیاں کبھی فراموش نہیں کی جائیں گی۔ انھوں نے نوجوانوں میں بے خوف ہو کر آزادی کی جدوجہد جاری رکھنے کا جوش اور جذبہ پیدا کیا۔ مقبول بٹ ایسے انقلابی مفکر اور سیکولر انقلابیوں کی علامت تھے جو پامردی اور حوصلے کے ساتھ مادر وطن پر قبضے کے خلاف ڈٹے رہے۔ بھارتی حکومت نے کشمیر کے اس دلیر سپوت کی جان لے لی لیکن وہ ان کی فکر اور فلسفے کو ختم نہیں کر سکا جس نے کشمیریوں کو متاثر کیا اور ہزاروں مقبول پیدا ہو گئے۔ یوں ہماری جدوجہد نوجوانوں کیلئے عوامی تحریک بن گئی۔

مقبول بٹ نے آنے والی نسلوں کے لئے اپنی جان کی قربانی دی۔ وہ مادر وطن پر قبضے کے خلاف انتہائی ثابت قدمی کے ساتھ نبرد آزما رہے اور شدید تشدد اور اذیتوں کے باوجود انھوں نے اپنے عظیم انقلابی خیالات کو تبدیل نہیں کیا۔

ان کو سب سے زیادہ مزاحمت پاکستان میں مقیم وظیفہ خور کشمیری سیاستدانوں کے علاوہ مظفر آباد کی کرسی کے پجاریوں کی جانب سے اٹھانی پڑی۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں، سرینگر کی کرسی پر نظریں جمائے سیاستدانوں نے بھی مقبول بٹ اور عوام کے درمیان شکوک و شبہات پیدا کرنے میں عافیت جانی۔ اس کے باوجود آج کشمیر کا ہر باشعورنوجوان مقبول بٹ بن چکا ہے۔

Raja Muzaffar
+ posts

مصنف ساؤتھ ایشیا ڈیموکریسی واچ ڈیلاس، ٹیکساس اور کشمیر گلوبل کونسل نیو یارک ٹورنٹو کے بورڈ آ ف ڈائریکٹرز میں شامل ہیں۔