ڈک نکولس
’الٹرنیٹو ریڈیو‘(Alternative Radio) کے ڈیوڈ بارسامیان کے ساتھ انٹرویو میں جو’گرین لیفٹ کے شمارہ نمبر 1350‘میں دوبارہ شائع کیا گیا، نوم چومسکی کے پاس روسی حملے کو ختم کرنے کی کوئی تجویز نہیں ہے، سوائے ایک لفظ: ’سفارت کاری‘ کے۔
انہوں نے کہا: ’سفارت کاری ایک امکان ہے۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ یہ جنگ جاری رہے اور پھر ہم دیکھیں گے کہ فریقین کو کتنا نقصان ہوتا ہے، کتنے یوکرینی مریں گے، روس کو کتنا نقصان پہنچے گا، ایشیا اور افریقہ میں کتنے ملین لوگ بھوک سے مریں گے، عالمی حدت میں کتنا اضافہ ہو گاتا آنکہ زندہ رہنے کا کوئی امکان نہیں رہے گا‘۔
چومسکی کے نزدیک یہ المیہ امریکہ کے زیر انتظام نیٹو اتحاد کی غلطی ہو گا: ’امریکہ اور بیشتر یورپی ممالک تقریباً سو فیصد اتفاق رائے کے ساتھ سفارتکاری کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہتے۔ یہ تو واضح ہو گیا کہ ہمیں تو بس روس کو نقصان پہنچانا ہے“۔
چومسکی نے یوکرائنی آدرشوں سے متعلق کچھ نہیں کہا۔ شاید یہ ان کی نہیں بلکہ انٹرویو لینے والے کی غلطی تھی۔ یہ تشنگی انٹرویو کی ان پانچ تشنگیوں میں سے ایک ہے جو مؤرخ رونالڈ سنی کے اس قول کی تصدیق کرتی ہے کہ ”جنگ کا پہلا نشانہ صرف سچائی ہی نہیں بلکہ مرضی کی چیزوں کو منہا کرنا بھی ہے“۔
پہلی تشنگی: یوکرینی عوام
چومسکی کی جانب سے سفارت کاری کا مطالبہ فوری طور پر شرائط کا سوال کھڑا کر دیتا ہے۔ کیا مذاکرات اس وقت ہونے چاہئیں جب روسی فوج یوکرین کے 20 فیصد علاقے پر قابض ہو جائے اور اس کا توپ خانہ یوکرینی شہروں کو ملبے میں تبدیل کر دے۔ یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی سمیت کوئی بھی سفارت کاری سے انکاری نہیں۔ زیلنسکی نے کہا ہے کہ تنازعات کو بالآخر مذاکرات کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔ تاہم یوکرین کی کوئی بھی عوامی شخصیت روسی قابض فوج کے ساتھ جنگ بندی کا مطالبہ نہیں کر رہی، جو چومسکی کی سفارت کاری کی پیشگی شرط ہے۔
اس کے بعد مذاکرات کی صورت میں یوکرین کو جنگ کے خاتمے کی کیا قیمت ادا کرنا ہو گی، روس کتنے علاقے پر قبضہ تسلیم کرے گا، کن بین الاقوامی قوانین کو نظر انداز کرنا ہو گا؟ یوکرینی عوام میں ان سوالات پر زیادہ ابہام نہیں پایا جاتا، جیسا کہ او آر بی (ORB) اور انٹرنیشنل اور سینٹر فار انسائٹس ان سروے ریسرچ (CISR) کی حالیہ رپورٹ اس بات کی تصدیق کرتی ہے۔ جنگ کے خاتمے کے لیے 37 فیصد یوکرینی نیٹو میں شامل ہونے اور 28 فیصد کریمیا کو روس کا حصہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ایک فیصد سے بھی کم سمجھتے ہیں کہ یوکرین کا کچھ حصہ بجا طور پر روس سے تعلق رکھتا ہے، 80 فیصد یورپی یونین میں اور 57 فیصد نیٹو شامل ہونا چاہتے ہیں۔ 94 فیصد زیلنسکی کے بارے میں کسی حد تک حمایتی موقف رکھتے ہیں، 97 فیصد کا خیال ہے کہ یوکرین روسی حملے کو پسپا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس طرح کے شواہد اس رائے کی نفی کرتے ہیں کہ یوکرینی عوام مذاکرات چاہتے ہیں لیکن امریکی صدر جو بائیڈن اور برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن جیسے جنگجوؤں کے ذریعہ جنگ میں جھونکا گیا ہے۔
دوسری تشنگی: ہتھیار
جنگ کے دوران مذاکرات فریقین کے درمیان قوتوں کے توازن کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔’CISR‘ سروے کے مطابق یوکرینی عوام توازن کے حصول کے لیے جس چیز کا سب سے زیادہ مطالبہ کرتے ہیں وہ اسلحہ ہے، 65 فیصد یوکرینی ’جدید ہتھیار اور گولہ بارود کی فراہمی‘ کو بین الاقوامی حمایت کے طور پر سب سے بڑی ضرورت قرار دیتے ہیں۔
چومسکی نے اس پر پھر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ وہ 2014ء کے بعد سے یوکرین کو ’ہتھیار دینے‘کی پاداش میں امریکہ اور نیٹو پر تنقید کرتے ہیں مگر یہ تسلیم نہیں کرتے کہ اس کے بغیر یوکرینی فوج روسی حملے کو کیسے پسپا کر پاتی۔
درحقیقت اسلحے کا ’سیلاب‘ اتنا بڑا نہیں تھا۔ روسی حملے کے بعد، یوکرینی فوج کی مدد اور علاقائی دفاع کے لیے آنے والے ہزاروں رضاکاروں کو دینے کے لئے اسلحہ ہی نہیں تھا۔ یوکرائن کو جو ہتھیار آج تک حاصل ہوئے ہیں وہ اب بھی ناکافی ہیں، اس لیے اس ’سیلاب‘ میں اضافے کی مخالفت کرنا روسی حملے کی مدد کے مترادف ہو گا۔
تیسری تشنگی: نیٹو کی توسیع خوش آئند تھی
چومسکی کا انٹرویو بڑی حد تک اس بات کا جائزہ لیتا ہے کہ نیٹو کی مشرق کی طرف توسیع کیسے ہوئی حالانکہ امریکی خارجہ پالیسی کے تجزیہ کاروں اور سفارت کاروں کے مشورے یہ تھے کہ اس سے پرہیز برتا جائے۔ ان لوگوں میں سرد جنگ کے نظریاتی امریکی سفارت کار جارج ایف کینن بھی شامل تھے جو روسی حساسیت سے آگاہ تھے۔
یہاں ایک اور اہم سوال کے پوچھے جانے اور جواب دینے کی تشنگی محسوس کی گئی کہ: سیاسی طور پر نیٹو کی مشرق کی طرف توسیع کیسے ممکن ہوئی؟
پولینڈ کے بائیں بازو کے جان سمولینسکی اور جان ڈٹکیوچز اس کا جواب دیتے ہیں: ’روسی سامراج کے زیراثر ہونے کے باعث مشرقی یورپ کے ممالک اپنی خود مختاری کو محفوظ بنانے کے لیے نیٹو میں رکنیت کے منتظر تھے۔ نیٹو مشرقی یورپ میں ’توسیع‘ نہ کرتا اگر مشرقی یورپی ممالک یہ نہ چاہتے اور فعال طور پر اس کا تعاقب نہ کرتے۔ روس کی مشرقی یورپ پر قبضے کی تین سو سالہ تاریخ ایک مستقل حوالہ ہے اور اس کا اعتراف روسی انقلابی لیڈر ولادیمیر لینن نے 1920ء کی وارسا جنگ میں سرخ فوج کی شکست پر اپنے تاثرات میں بھی کیا۔ انہوں نے جرمن کمیونسٹ رہنما کلارا زیٹکن کو بتایا کہ ’سرخ فوج میں پولش سپاہیوں نے دشمنوں کو دیکھا نہ کہ اپنے بھائیوں اور لبریٹرز کو‘۔
اس تجربے نے لینن کو حال ہی میں زار ازم کے ’اقوام کے جیل خانہ‘ سے آزاد ہونے والے لوگوں کے تجربات اور حقوق بارے زیادہ حساس بنا دیا، یوکرین کے باشندے بھی اس میں شامل تھے۔
تاہم لینن کا 1922ء میں سوویت آئین میں خود ارادیت اور علیحدگی کے حق کو شامل کرنے کا نظریہ جوزف اسٹالن کے ہاتھوں تباہ ہو گیا۔ ایڈولف ہٹلر کے ساتھ 1939ء کے معاہدے کے بعد روسی توسیع کا ’سوویت‘ ورژن لٹویا، لیتھوانیا، ایسٹونیا، مشرقی پولینڈ کے کچھ حصوں اور فن لینڈ میں ظہور پذیر ہوا۔
ہنگری میں 1956ء اور چیکوسلوواکیا میں 1968ء پر حملوں اور 60ء کی دہائی میں لیننسٹ پالیسیوں کے نفاذ کی یوکرائنی تحریک کو دبانے سے روس سے آزادی اور تحفظ کی خواہش میں اضافہ ہوا جو 90ء کی دہائی میں تمام سوویت ریاستوں کی آزادی پر منتج ہوا۔ اس کے بعد نیٹو کی رکنیت کے لئے درخواستوں کا تانتا بندھ گیا۔
چوتھی تشنگی: روسی سامراجی عزائم
چومسکی نے روسی صدر ولادی میر پوٹن کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ”امریکہ اور نیٹو کی طرف سے سنگین اشتعال انگیزی اس حملے کا جواز فراہم نہیں کرتی“ اور اسے ”کریملن کی طرف سے مجرمانہ اور حماقت“ سے تعبیر کیا۔
لیکن اس طرح کا روسی رویہ کیا ظاہر کرتا ہے؟ یہاں پہیلی کا ایک اور ٹکڑا کہیں گم ہو جاتا ہے۔ بات یہ ہے کہ روسیوں کو اپنی عظیم طاقت کی بالادستی قائم رکھنے اور ’تاریخ میں ان کے لکھے گئے مقدر و مقصد‘ کے حصول کے لئے اکساتی ہے۔
اس لازمی امر نے مجرمانہ کارروائیوں کو جنم دیا جن کو خود واشنگٹن نے نظر انداز کیا بلکہ ایک طرح سے اس کی تعریف بھی کی بشرطیکہ وہ روس کے قبول شدہ اثر و رسوخ کے دائرے میں ہوں۔
چیچنیا میں کریملن کی جنگوں سے متعلق واشنگٹن کا رد عمل گھٹیا تھا، جارج ڈبلیو بش نے اسے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں تعاون کے طور پر دیکھا۔ پوتن کی اپنی تقاریر خاص طور پر 21 فروری کو ڈونیٹسک اور لوہانسک کی ’عوامی جمہوریہ‘ کو تسلیم کرنے کا اعلان، سامراجی نظریے کی ترجمانی کرتا ہے۔
لینن کے نقطہ نظر کو رد کرتے ہوئے پوتن نے کہا: ”جب روس اور اس کے لوگوں کے تاریخی مقدر کی بات آتی ہے، تو لینن کے ریاستی ترقی کے اصول نہ صرف ایک غلطی تھے بلکہ، وہ کہتے ہیں نہ، غلطی سے بھی بدتر تھے۔ یہ 1991ء میں سوویت یونین کی تحلیل کے بعد واضح طور پر عیاں ہو گیا۔ قوم پرستی کے عزائم کا وائرس اب بھی ہمارے ساتھ ہے اور اس بارودی سرنگ کو ابتدائی طور (1922ء کے سوویت آئین میں) بچھایا گیا تھا۔ اس بارودی سرنگ کی وجہ سے ریاست کا اختیار ہی ختم ہو گیا کہ وہ قوم پرستی کے وائرس پر قابو پا سکے۔ یہ بارودی سرنگ تھی: قوموں کو علیحدگی کا حق دینا اور یہ سرنگ۔“
سپین اور ترکی کی طرح، روس میں بھی پوتن کو بھی، حاوی قوم کے نمائندے کے طور پر، اس کے اقتدار کے خلاف لڑنے والے لوگوں کی قوم پرستی نظر آتی ہے مگر روسی قوم پرستی نظر نہیں آتی۔
پانچویں تشنگی: جنگ مخالف تحریک
چومسکی کا انٹرویو پڑھتے ہوئے کسی کو معلوم نہیں ہو گا کہ روس میں جنگ مخالف تحریک موجود ہے، جو شدید جبر کے حالات میں پوتن کے جنگی اقدامات کا سامنا کر رہی ہے۔ یہ تحریک جمہوری حقوق کے لئے جدوجہد کا بھی محور ہے اور روسی فیڈریشن کے اندر پسماندہ غیر روسی اقوام کے حقوق کی حمایت کرنے والے گروپوں کی بھی سرپرستی کرتی ہے۔ یہ روسی مسلح افواج کو یوکرین سے باہر نکالنے کو جمہوری، غیر بالادست، حقوق نسواں اور روادار روس کی جدوجہد کا ایک لازمی حصہ سمجھتی ہے۔ اسی وجہ سے یہ پوتن کی جنگ میں پسپائی کا نظریہ رکھتی ہے اور مذاکرات کا مطالبہ نہیں کرتی۔
اگر پوتن کسی بھی طرح جنگ کے نتائج کو اپنی جانب موڑنے میں کامیاب ہو گیا تو وہ جیت کا دعویٰ کرے گا، اس سے نہ صرف یوکرین کا ایک حصہ ختم ہو جائے گا بلکہ جمہوری حقوق اور نسل پرستی کے خلاف روسیوں کی جدوجہد، غیر روسی باشندوں کے خلاف امتیازی سلوک، خواتین اور ایل جی بی ٹی کے حقوق کی تحریک متاثر ہو گی۔
روس کا اپنا دفاع؟
کیا مندرجہ بالاپانچ عوامل کو اس بحث میں دوبارہ شامل کرنا چومسکی کی اس بنیادی دلیل کو رد کرنے کے لئے کافی ہیں کہ نیٹو کی توسیع اور نیٹو کا روسی سلامتی کے خدشات دور کرنے سے انکار، پوتن کے جنگ کے فیصلے کا باعث بنے؟
یوکرائنی سوشلسٹ تاراس بلوس نے اس سوال کاتفصیل سے جواب دیا ہے۔ تاراس بلوس کے مطابق: روس نے جنگ سے پہلے جو شرائط رکھیں (یوکرائن نیٹو رکنیت نہیں لے سکتا، امریکہ اور سابق سوویت ریاستوں کے مابین کوئی فوجی تعاون نہیں ہو سکتا) اس کے مطابق یورپ امریکہ اور روسی اثر و رسوخ کے بیچ تقسیم ہونا تھا۔ یوکرین کو روس کے زیر اثر حصے میں شامل کیا جانا تھا۔
روس کو اپنی سرحدوں کے اندر حفاظت کی ضمانت دینے کے لئے اس طرح کے انتظامات کی ضرورت نہیں۔ اس کے بجائے اسلحہ پر قابو پانے اور اسلحے میں کمی کے معاہدوں کے ذریعے ایسا کیا جا سکتا ہے۔ امریکا نے ایسے معاہدے کی پیشکش بھی کی مگر پوتن نے اسے ’ثانوی‘ قرار دے کر مسترد کر دیا۔ بلوس کے مطابق ”یوکرائن پر روس کے بھرپور حملے کے بعد مغربی ممالک نے جو انتباہ جاری کیا اس سے روسی سلامتی کے خدشات کا کھوکھلا پن ظاہر ہوتا ہے۔ روس کے پاس سکیورٹی کی بہترین گارنٹی موجود ہے…جوہری ہتھیار۔ کریملن خود کبھی بھی ہمیں یہ یاد دلانے کا تردد نہیں کرے گا“۔ پوتن کی مجوزہ ’سلامتی کی ضمانتیں‘ سکیورٹی کے بارے میں نہیں تھیں بلکہ ”یوکرین کی روسی کنٹرول میں واپسی کی خواہش یا کم از کم نئے یوکرائنی علاقوں کی فتح کیلئے تھیں“۔
اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ امریکہ اور نیٹو قصور وار نہیں اور 2008ء میں جارجیا اور یوکرین کو نیٹو کی رکنیت کے لئے درخواست دینے کے دعوت نامے اشتعال انگیز نہیں تھے، یہ جانتے ہوئے کہ کریملن کا رد عمل کیا ہو گا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ اور نیٹو کے اقدامات اور یوکرائنی فوج کے آپریشنز ہی پوتن کے حملے کا موجب نہیں تھے (جیسا کہ 24 فروری کے بعد کمیونسٹ پارٹی کے منحرف ہونے والے اراکین پارلیمنٹ کو پتہ چلا) پوتن پہلے سے اس حملے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔
اختتامیہ
عالمی سیاست میں تمام بڑے پاور بلاک منافقوں کی بغاوتوں کی سرپرستی کر کے اپنے ہاتھ خون سے رنگتے ہیں، کون ہے جو صرف اصولوں پر مبنی رہنمائی کا دعویٰ کر سکے۔
پوتن نے یوکرین پر حملہ کیا، موت، تباہی اور عصمت دری کو جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا، یہ سب ’نازی ازم‘ اور ’عسکریت پسندی‘ کے خاتمے اور روسی زبان کے دفاع کے نام پر ہوا۔
بائیڈن نے پوتن کو ’جنگی مجرم‘ قرار دیا ہے، تاہم کیوبا کے خلاف امریکی پابندیاں برقرار ہیں۔ صدر ٹرمپ نے صحراوی عوام کے خلاف مراکش کی مجرمانہ ناکہ بندی کی حمایت کی۔ ہسپانوی وزیر اعظم پیڈرو سنچیز نے یورپی کمیشن کی ایما پر یوکرینی شہریوں کے حق خود ارادیت کو اجاگر کیا ہے، لیکن وہ خود ہسپانوی ریاست کی اقوام کو یہ حق دینے سے انکاری ہیں۔ چین نے عالمگیر انسانی اقدار اور اقوام متحدہ کے اصولوں کی حمایت پر زور دیا حالانکہ خود ایغور باشندوں کی ’اصلاح‘ کے نام پر نسل کشی کی پالیسی پر گامزن ہے۔
ایک ایسی دنیا میں جہاں یوکرین پر روسی حملے نے حریف سرمایہ دارانہ بلاکس کو ایکدوسرے کے سامنے لا کھڑا کیا ہے، وہاں ترقی پسندوں پر بھی دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ کسی ایک فریق کا ساتھ دیں۔ کبھی یہ حوالہ دیا جاتا ہے کہ وہ’جمہوریت‘ کے نام پر پرانے سامراجی بلاک کی حمایت کریں، کبھی کہا جاتا ہے کہ وہ پرانے سامراجیوں کے خلاف ’کثیر الجہتی دنیا‘ کی تشکیل کی حمایت میں نئے سامراجی بلاک کی حمایت کریں۔
یہاں سوچنا اور اس بنیاد پر کام کرنا کہ ’بنیادی دشمن ہمیشہ گھر میں رہتا ہے‘ محض تعطل کا باعث بنتا ہے۔ لوگوں میں یکجہتی، امن، استحکام اور باہمی احترام کی دنیا کو حاصل کرنے کے لئے واحد راستہ جمہوری اور معاشرتی حقوق کی حمایت کرنا ہے، جس میں تمام مظلوم ممالک کے خود ارادیت کا کلیدی حق بھی شامل ہے، قطع نظر اس کے کہ وہ کس بلاک سے ہیں۔
اس کا مطلب ہے فوجی اتحادوں کو تحلیل کرنے اور تخفیف اسلحے کے لئے لڑنا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جابر ممالک کے محنت کشوں کو اس بات پر قائل کرنا کہ ان کے مفادات ان کے ملک کے ساتھ نہیں بلکہ ان لوگوں کے ساتھ جڑے ہیں جن کے حقوق ان کا ملک سلب کرتا ہے۔ یوکرین کے معاملے میں اس کا مطلب ہے روسی حملے کے خلاف یوکرائنی عوام کی مزاحمت، جنگ مخالف تحریک، پوتن کی نفرت انگیز اور جنگجوانہ بالادستی کے خلاف اظہار یکجہتی۔
بشکریہ: گرین لیفٹ