خبریں/تبصرے

ایلون مسک کا حکومت کے وسیع حصوں پر کنٹرول، آئینی ماہرین نے اسے ’کو‘ قرار دے دیا

لاہور(جدوجہد رپورٹ) ارب پتی ایلون مسک غیر معمولی رفتار سے امریکہ کی حکومت کے وسیع حصوں پر اپنا کنٹرول سخت کر رہے ہیں۔ ڈیموکریٹس اور آئینی ماہرین کی طرف سے اسے شدید خطرہ قرار دیا جا رہا ہے۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ ان کی ٹاسک فورس نے امریکی ٹریژری ادائیگیوں کے نظام کا کنٹرول سنبھال لیا ہے، جو پوری وفاقی حکومت کی جانب سے رقوم کی منتقلی کا انتظام کرتا ہے۔

’الجزیرہ‘ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے کے بعد سے دو ہفتوں میں ایلون مسک نے وفاقی بیوروکریسی کو پریشان کر دیا ہے، جس کے بعد ان کے اختیارات کے دائرہ کار کے بارے میں نہ صرف سوالات پیدا ہوئے ہیں، بلکہ اس اقدام کو آئینی بحران یا یہاں تک کے ’کو‘ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ایلون مسک کو ٹرمپ نے ایک نام نہاد ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی(DOGE) کا سربراہ مقرر کر رکھا ہے۔

امریکی کانگریس کی نگرانی کے بغیر کام کرتے ہوئے مسک کے لیفٹیننٹ نے امریکہ کی غیر ملکی امدادی ایجنسی کے کام کو روک دیا ہے، لاکھوں سرکاری ملازمین کو فالتو قرار دے کر بھر بھیج دیا، لاکھوں امریکیوں کے بارے میں خفیہ مواد اور حساس تفصیلات تک رسائی حاصل کی ہے اور کھربوں ڈالر کے سرکاری اخراجات کے بہاؤ کا انتظام دیکھنے والے ادائیگیوں کے نظام کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔

مسک کوپیر کے روز وائٹ ہاؤس نے ’خصوصی سرکاری ملازم‘ کے طور پر نامزد کیا تھا۔ وہ منتخب عہدہ نہیں رکھتے اور نہ ہی وہ ٹرمپ کی کابینہ کا حصہ ہیں، جس کے اراکین کو امریکی سینیٹ سے تصدیق کی ضرورت ہوتی ہے۔

سابق صدر جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ میں وائٹ ہاؤس کے اخلاقیات کے چیف وکیل کے طور پر کام کر چکے رچرڈ پینٹر کا کہنا ہے کہ ’میں نے کبھی ایسا کچھ ملک کی تاریخ میں نہیں دیکھا۔ ہمارے پاس ہمیشہ صدر، کابینہ اراکین اور ٹریژری سیکرٹری سینیٹ کے ذریعہ تصدیق شدہ ہوتے ہیں۔کابینہ کے ارکان کو صدر ہی مقرر کر سکتا ہے اور وہ پالیسی کو نافذ کرنے کے لیے وائٹ ہاؤس کے ساتھ رابطہ کرتے ہیں۔ آپ صرف کانگریس کے ذیرعے مختص رقم خرچ نہیں کر سکتے۔‘

ٹیسلا اور سپیس ایکس کے سی ای او کے طور پر مسک دنیا کے سب سے امیر آدمی ہیں، ان کے پاس اربوں ڈالر مالیت کے سرکاری معاہدے ہیں۔ یہ وہ حقائق ہیں جنہوں نے مفادات کے تصادم کے بارے میں خدشات کو جنم دیا ہے۔

امریکی محکمہ انصاف کی سمری کے مطابق ’خصوصی سرکاری ملازمین عام طور پر عارضی بنیادوں پر مقرر کیے جاتے ہیں، وہ زیادہ تر اخلاقی اصولوں کے تابع ہوتے ہیں جو عام سرکاری ملازمین پر لاگو ہوتے ہیں، لیکن بعض اوقات پابندیاں عام ملازم سے کم ہوتی ہیں۔‘

قانون کے مطابق ان معاملات میں حصہ لینے پر پابندی ہے، جو ان کے مالی مفادات کو متاثر کرتے ہیں اور سمری کے مطابق ممکنہ طور پر عہدہ سنبھالنے کے 30دنوں کے اندر فنانشل ڈسکلوژر رپورٹ جمع کروانے کی بھی ضرورت ہو سکتی ہے۔
ایلون مسک کے خلاف اخلاقی اصولوں کو نافذ کرنا محکمہ انصاف کی صوابدید پر ہے، جسے ٹرمپ نے دشمن قرار دے کر پاک پاک کرنے کی کوشش شروع کر رکھی ہے۔

واشنگٹن یونیورسٹی میں قانون کی پروفیسر کیتھلین کلارک کہتی ہیں کہ ’صرف محکمہ انصاف ہی اس قانون کو نافذ کر سکتا، اور یہ سوال کرنا مناسب ہے کہ کیا ٹرمپ کا محکمہ انصاف مسک جیسے ٹرمپ کے اتحاد کے خلاف قانون نافذ کرے گا۔‘

پیر کو امریکی وزیر خارجہ مارکوروبیو نے کہا کہ انہوں نے امریکہ کے ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی(یو ایس ایڈ) کے قائمقام ڈائریکٹر کا عہدہ سنبھال لیا ہے، جسے مسک نے مجرمانہ تنظیم کا نام دیا ہے۔

چند گھنٹوں بعد ہی مسک ان رپورٹس کی تصدیق کرتے ہوئے نظر آئے کہ ان کی ٹاسک فورس نے امریکی ٹریژری ادائیگیوں کے نظام کا کنٹرول سنبھال لیا ہے، جو پوری وفاقی حکومت کی جانب سے رقوم کی منتقلی کا انتظام کرتا ہے۔

مسک نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ ’دھوکہ دہی اور ٹیکس دہندگان کے پیسے کی ضیاع کو روکنے کا واحد طریقہ ادائیگی کے بہاؤ کی پیروی کرنا اور نظر ثانی کے لیے مشکوک لین دین کو روکنا ہے۔فطری طور پر اس کی وجہ سے مدد کرنے والے لوگ اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے والے اور دھوکہ دہی سے ادائیگیاں وصول کرنے والے بہت پریشان ہیں۔ ان کے ساتھ بہت برا ہوا۔‘

پیر کو حکومتی کارکنوں کی نمائندگی کرنے والی یونینوں کے ایک گروپ نے محکمہ خزانہ اور ٹریژری سیکرٹری سکاٹ بیسنٹ کے خلاف ایک مقدمہ دائر کیا، جس میں الزام عائد کیا گیا کہ ادائیگیوں کے نظام تک DOGEکی رسائی نے لاکھوں امریکیوں کی راز داری پر غیر قانونی طور پر سمجھوتا کیا ہے۔

شکایت میں کہا گیا ہے کہ‘DOGEسے وابستہ افراد کو غیر متعینہ مدت تک اس معلومات تک رسائی فراہم کرنے کا مطلب ہے کہ ریٹائر ہونے والے، ٹیکس دہندگان، وفاقی ملازمین، کمپنیوں اور زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے دیگر افراد کو کوئی یقین نہیں ہے کہ ان کی معلومات کو وہ تحفظ حاصل ہوگا، جو وفاقی قانون انہیں فراہم کرتا ہے۔ چونکہ فریقین کے اعمال اور فیصلہ کو راز میں رکھا جاتا ہے، اس لیے افراد کے پاس اس بارے میں بنیادی معلومات بھی نہیں ہوں گی کہ فریقین نے بیرونی فریقوں کے ساتھ مل کر کون سی ذاتی یا مالی معلومات کا اشتراک کیا ہے یا ان کی معلومات کو کس طرح سے استعمال کیا جا رہا ہے۔‘

ایک نیوز کانفرنس میں سینیٹ میں ڈیموکریٹک رہنما چک شومر نے کہا کہ امریکہ ایک غیر منتخب شیڈو حکومت کے ذریعے وفاقی حکومت کے مخالفانہ قبضے کا مشاہدہ کر رہا ہے۔

نیویارک ہاؤس کے نمائندے الیگزینڈریا اوکاسیوکورٹیز نے مسک پر الزام لگایا کہ انہوں ں ے ’پلوٹوکریٹک بغاوت‘ کا منصوبہ بنایا ہے۔

انہوں نے ایکس پر کہا کہ ’اگر آپ اقتدار چاہتے ہیں تو عہدے کے لیے حصہ لیں اور لوگوں کے ذریعے منتخب ہو کر آئیں۔‘

یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا سکول آف لاء میں آئینی قانون میں مہارت رکھنے والے پروفیسر مائیکل جے گیرہارٹ نے کہا کہ حکومت پر مسک کا اثرورسوخ غیر جمہوری اور ممکنہ طور پر غیر ٓائینی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’یہ شاید پہلی بار ہوا ہے کہ حکومت کے باہر سے کسی کو اتنی کھلے عام آزادانہ لگام دی گئی ہے۔ایلون مسک کو چیک میں رکھنے کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔‘

انکا مزید کہنا تھا کہ ’ان کے پاس جو بھی طاقت ہے وہ ٹرمپ کے پاس ہے۔ ان کی پوزیشن کو دیکھتے ہوئے ان کے اختیار کی واحد حد خود ٹرمپ ہیں۔‘

وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ مسک اپنی انتظامیہ کی منظوری کے بغیر کچھ بھی نہیں کر سکتے اور نہ ہی کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جہاں مناسب ہو گا ہم انہیں منظوری دیں گے۔ جہاں مناسب نہیں، ہم نہیں کریں گے۔ وہ رپورٹ کرتے ہیں۔ جہاں ہمیں لگتا ہے کہ کوئی تنازعہ یا مسئلہ ہے، ہم انہیں اس کے قریب بھی نہیں جانے دیں گے۔‘

پروفیسر گیرہارٹ نے کہا کہ اگرچہ امریکی سیاست میں ’تخت کے پیچھے طاقتوں‘ کی موجودگی کوئی نئی بات نہیں تھی، لیکن حکومت پر مسک کے اثرورسوخ نے قانون کو بے مثال طریقے سے نظر انداز کیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’امریکی تاریخ میں تقریباً ہر صدارت کیساتھ بدعنوانی کا تعلق رہا ہے، لیکن مسک ڈھٹائی کے ساتھ ان قوانین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور قوانین کو نظر انداز کر رہے ہیں، جو حکومت کے کام کرنے کے طریقہ کار کی وضاحت کرتے ہیں۔‘

Roznama Jeddojehad
+ posts