سہیل چانڈیو
گذشتہ دو ماہ سے سندھ کی فضا پر بادلوں کا راج برپا ہے اور تا حال برسات جاری ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ سندھ کے اقتدار پر 14 سالوں سے براجمان پیپلز پارٹی کی حکومت لاپتہ ہے اور ڈوبتے عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ دو روز قبل بلاول بھٹو زرداری نے بیان دیا ہے کہ وہ اپنے یورپ کا دورہ کینسل کر رہا ہے کیوں کہ بارشوں کی وجہ سے لوگ مشکل میں ہیں مگر بلاول بھی وہاں جا کے دورہ کرتا ہے جہاں نہ متاثرین ہیں نہ کوئی نقصان دکھتا ہے۔ بارشوں کی وجہ سے سندھ کے سارے اضلاع بری طرح متاثر ہوئے ہیں، جس میں ایک لاکھ کے قریب گھر زمین بوس ہو گئے، ایک ہزار سے زائد لوگ ہلاک ہو گئے، لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصل تباہ ہو گئی، مال مویشی یا تو پانی میں بہہ گئے یا بھوک سے مر گئے، جو کے غریبوں کے روزگار کا اہم ذریعہ تھے۔ آگے بھی بہت نقصان ہونے کا خدشہ ہے مگر حکومت اور انتظامیہ لاپتہ ہے، گھر مسمار ہوتے جا رہے ہیں۔
سندھ حکومت نے اعلامیہ جاری کیا ہے کہ اس نے اب تک آٹھ ارب روپے ریلیف کے نام پر عوام پر خرچ کر ڈالے ہیں اور ایک لاکھ ٹینٹ عارضی رہائش کے لئے لوگوں کو فراہم کئے ہیں، جو صرف ایک خوبصورت جھوٹ کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ پیپلز پارٹی سرکار نے تو ہر ضلع پر فلڈ ریلیف کا فوکل پرسن مقرر کیا ہے اور وہ سب کے سب وہی پرانے چھرے ہیں جو اوپر تک اچھا خاصا بھتے کے طور پر دیتے ہیں، جس کے بدلے میں ان کو وزارتیں بھی ملتی ہیں اور آفتوں کے وقت مقرریاں بھی ہوتی ہیں۔
بارشوں کی وجہ سے دھاڑی کمانے والا مزدور ہو، ٹھیلا لگانے والا ہو یا چھوٹا کاروبار کرنے والا، سب کے سب بیروزگاری اور تنگ دستی کا سامنا کر رہے ہیں۔ جہاں عوام کا لاکھوں کا نقصان ہو گیا وہاں حکومت نے فی خاندان کو پچیس ہزار دینے کا اعلان کیا ہے جو رقم صرف پندرہ دن کے راشن کی بنتی ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ وہ شاید سب کو مل بھی نہ پائے۔
دو ماہ پہلے سندھو ندی پر مٹی اور ریت کا راج تھا آج پانی کا ٹھاٹیں مارتا سمندر ہے۔ غیر منصفانہ تقسیم کا ہر وقت سندھ کو نقصان ہوتا رہا ہے کبھی باڑ تو کبھی تغیانی، تباہی کا سبب بن رہا ہے جس کے نتیجے میں نفرتیں جنم لیتی ہیں اور ریاست ان کا بھرپور فائدہ لیتی رہتی ہے۔
جہاں ایک طرف لاکھوں لوگ زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں وہاں نام نہاد قومی بورژوا میڈیا شہباز گل کے کمرے سے برآمد ہونے والی لال ڈائری پر ٹاک شوز کر رہا ہے اور یہ خبر ہر چینل کی ہیڈ لائین پر ہے جس کا عوام کے حقیقی مسائل سے دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے۔ سندھی زبان کے خوبصورت شاعر وفا ناتھن شاہی نے کیا خوب کہا تھا:
چڑیوں کے خدا بازوں کو پر نہ دے
یا تو برسات بند کرو یا ہمیں کچے گھر نہ دے
چڑیوں کے مانند ذلتوں کے مارے عوام بازوں کے چھپٹنے سے بار بار زخم کھا رہے ہیں اور گھائل ہو گئے ہیں۔ مکمل پانی نکالنے کا انتظام نہ کرنے کی وجہ سے حکومتی نمائندے اور انتظامیہ شہروں کو ڈوبونا چاہتے ہیں تا کہ شہروں میں سیلاب آئے اور ان کے نام پر فنڈز لے کے اپنی جیبیں بھری جائیں۔ اس بات کی ایک مثال تحصیل کے این ہے جہاں گذشتہ دن ایریگیشن کا صوبائی منسٹر جام خان شورو دورہ کرنے آیا اور ایم این اے دادو رفیق جمالی نے خفیہ طور منصوبہ بنایا کہ، کے این شاہ شہر کو 2010ء کی طرح ڈوبویا جائے مگر یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی اور مقامی لوگوں نے فوری طور پر عوامی جدوجہد کا راستہ اختیار کر کے چار مختلف علاقوں میں اکٹھے ہو کر دھرنے دیے جس کے رد عمل میں انتظامیہ کو مجبور ہو کے اپنے گھناؤنی حرکت سے دستبردار ہونا پڑا۔ ان دھرنوں میں طبقاتی جدوجہد اور آر ایس ایف کے ساتھیوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ مظاہرا کرتے ایک نوجوان نے کہا ہم ڈوبنا نہیں چاہتے ہیں ہمیں امداد بھی نہیں چاہئے ہم روزگار کے متلاشی ہیں، ہمیں روزگار دو، کیوں کہ دیہات سارے کے سارے تباہ ہو گئے ہیں اب پناہ صرف آدھے ڈوبے شہروں میں مل رہی ہے۔ ہو سکے تو آپ لوگ صرف یہ پڑھ کے درد مندوں کے دکھ جاننے کی کوشش کریں مگر ہم جو عملاً اس کرب سے گذر رہے ہیں اس کا کوئی اندازہ نہیں ہے۔ ان برساتوں کے دوران ہم خود بھی بہت متاثر ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں۔ سندھ کے ایک اور وارہ نامی شہر سے پولیٹکل ایکٹوسٹ مرک منان نے پوسٹ شیئر کی کہ ہمارے دیہات کے رشتے دار شہر میں پناہ لینے ہمارے پاس آئے اور وہاں مقیم تھے مگر ہمارا گھر بھی زمیں بوس ہو گیا اب کھلے آسمان کے نیچے آ گئے ہیں، پناہ دینے والے خود پناہ کی تلاش میں ہیں۔
آفتوں کے دنوں میں ’NDMA‘ بھی لاپتہ ہے جس کا کہیں بھی متاثرین کی بحالی کے لیے کردار نظر نہیں آ رہا اور سرمائے کے پجاری وزیر اعظم دورہ قطر پر چلے گئے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حکمران کبھی بھی عوام کے دکھوں کا مداوا نہیں کر سکتے سوائے اپنے طبقے کے۔
اس وقت بھی سندھ کے مغربی اضلاع دادو اور قمبر شہداد کوٹ میں بلوچستان کے پانی کی آمد جاری ہے جو کہ چھو کے علاقے میں لاکھوں ایکڑ زمین پر تاحال کھڑا ہے اور بڑھتا جا رہا ہے۔ شکار پور، سکھر، خیرپور، نوشہرو فیروز، لاڑکانہ، گھوٹکی، کشمور اور جیکب آباد سمیت تقریباً ہر شہر کے راستوں پر گاڑیاں نھیں مگر کشتیاں چل رہی ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ سرائیکی وسیب ہو، بلوچستان ہو یا ڈوبتا سندھ ہو، ان ساری جگہوں پر عذابوں کی وجہ یہ خونی سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے کرپٹ حواری ہیں جس کا حل فیصلہ کن طبقاتی لڑائی کے سوا کوئی بھی نہیں ہے۔ انسانیت کے دکھوں کا مداوا سوشلسٹ نظام میں ہی ممکن ہو سکتا ہے۔