جامشورو (انقلابی طلبہ محاذ) 31 اکتوبر 2019ء کو سندھ یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات نے بوائز ہاسٹل کے سامنے سہولیات کی عدم موجودگی، ٹرانسپورٹ اور صاف پانی کی فراہمی کیلئے احتجاج کیا تھا جو بعد ازاں 4 گھنٹے کے دھرنے میں تبدیل ہوگیا۔ انتظامیہ کی جانب سے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے پولیس کی بھاری نفری کو طلب کیا گیا۔جس کے لئے پولیس نے روایتی ہتھکنڈے آزمائے جو پولیس اور مظاہرین کے مابین کشیدگی کا باعث بنے لیکن طلبہ کا بھرپور احتجاج جاری رہا۔ انتظامیہ کی یقین دہانی کہ ہاسٹل کے تمام مسائل کو حل کیا جائے گا، پر طلبہ نے مظاہرے کے خاتمہ کا اعلان کیا۔
لیکن مسائل حل نہ ہونے کی وجہ سے طلبہ تنظیموں کا اتحاد تشکیل پایا اور منظم جدوجہد کرنے کا اعلان کیا گیا اور اسی سلسلے میں 29 نومبرکوملک بھر میں ہونے والے ”طلبہ یکجہتی مارچ“ کو حیدرآباد میں بھی منظم کرنے کا اعادہ کیا گیالیکن کل رات کی تاریکی میں ترقی پسند طلبہ تنظیموں کے سرگرم کارکنان اور رہنماؤں پر بغاوت کے مقدمے درج کئے گئے اور ان مقدمات میں 120A،120B،123A،124 اور 153 سمیت دیگر دفعات شامل کی گئیں اور مقدمات میں امیر شاہ، ہالار یاسین، انصار، لکھمیر زرداری، رْوپلو فراز، راشد زرداری، سلامت زئنور، زیب جتوئی، فہد اور فراز کو نامزد کیا گیا جبکہ مستقبل میں کسی بھی طالب علم رہنما کوگرفتار کرنے کے لیے 4 نامعلوم نوجوانوں کا بھی ذکر گیا۔
انقلابی طلبہ محاذ (RSF) اور سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی اس گھٹیا ریاستی ہتھکنڈے کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور انتظامیہ کو باور کرواتے ہیں کہ اگر کسی ایک طالب علم کو بھی ان بوگس مقدمات کی زد میں لایا گیا تو ہم ملک گیر تحریک بھی چلائیں گے اور کلاسوں کے مکمل بائیکاٹ کی طرف بڑہیں گے۔