خبریں/تبصرے

ایران: 82 بلوچ ریاست کے ہاتھوں ہلاک

لاہور (جدوجہد رپورٹ) ایمنسٹی انٹرنیشنل نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران میں جاری تحریک کو ریاستی طاقت کے ذریعے کچلنے کے عمل کے دوران جنوب مشرقی صوبے سیستان بلوچستان میں بچوں سمیت 82 بلوچوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔ تاہم آزاد ذرائع ہلاکتوں کی تعداد 100 سے زائدبتا رہے ہیں۔

سب سے زیادہ ہلاکتیں سیستان بلوچستان کے شہر زاہدان میں 30 ستمبر کو جمعہ کے روز ہونے والے احتجاج پر فائرنگ کے نتیجے میں رپورٹ کی گئی ہیں۔ تاہم ایرانی میڈیا نے 30 ستمبر سے شروع ہونے والی اس بدامنی کو پولیس اسٹیشنوں پر انتہا پسندوں کے حملے کے طور پر بیان کیا، جس میں پاسداران انقلاب کے 5 اہلکار ہلاک ہو گئے۔

تاہم انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق گولیوں سے چھلنی خون آلود لاشوں کی خوفناک تصاویر ایک غریب نسلی اقلیتی علاقے کی طرف تہران کی جابرانہ پالیسیوں کی علامت ہیں۔

واضح رہے کہ زاہدان پاکستان کی سرحد پر واقع ایران کے غریب ترین علاقے سیستان بلوچستان کا مرکزی شہر ہے۔ یہ ایران کے چند سنی اکثریتی شہروں میں سے ایک ہے، اس خطہ میں بلوچ نسلی اقلیت آباد ہے۔ ایرانی ریاست کی جانب سے اس خطے کو ہمیشہ امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا گیا ہے، ہر سال بلوچ مختلف جھڑپوں میں مارے جاتے ہیں اور سب سے زیادہ پھانسیاں بھی اسی علاقے کے بلوچ افراد کو دی جاتی ہیں۔

یہ خطہ ایرانی سکیورٹی فورسز پر حملوں کا بھی مرکز رہا ہے، جس کا الزم ایرانی حکومت سنی انتہا پسند گروپوں پر عائد کرتی ہے، جبکہ سرحدی علاقے کو مسلح گروہوں کی جانب سے منشیات کی سمگلنگ کے مرکز کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

ایرانی حکام بلوچ مسلح تنظیم ’جیش العدل‘ پر ان مسلح سرگرمیوں کا الزام عائد کرتی ہے اور اس کا تعلق القاعدہ اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کیساتھ ظاہر کرتے ہیں۔ تاہم بلوچ عوام کے مطابق جیش العدل آزاد بلوچستان کیلئے لڑائی لڑ رہی ہے۔

سنی مسلح گروہوں کی مدد کرنے اور تعلقات رکھنے کے الزامات پاکستانی ریاست پر بھی عائد کئے جاتے رہے ہیں۔

بلوچ لبریشن موومنٹ اور کردش فریڈم پارٹی کے بھی دیرینہ تعلقات رہے ہیں۔ یہ دونوں قومیتیں آزادی کی جدوجہد میں ایک دوسرے کے ساتھ یکجہتی کرتی آئی ہیں اور تاریخی طور پر ایک دوسرے کے نزدیک سمجھی جاتی ہیں۔

کرد خاتون مہسا امینی کے قتل کے بعد سیستان بلوچستان میں ہونے والے احتجاج کے دوران ’کرد کی عزت، بلوچ کی عزت‘ جیسے نعرے بھی بلند ہوئے ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق 2021ء میں کم از کم 19 فیصد موت کی سزائیں بلوچ نسلی اقلیت کے اراکین کو دی گئیں، جن کا مجموعی ایرانی آبادی میں کل 5 فیصد حصہ ہے۔

’اے ایف پی‘ کے مطابق زاہدان میں احتجاج مہسا امینی کی موت پر ایران میں ملک گیر مظاہروں کا ہی تسلسل تھا۔ تاہم دو ہفتوں بعد یہاں اس وقت بدامنی پھوٹ پڑی، جب بندرگاہی شہر چابہار میں ایک 15 سالہ لڑکی کو حراست میں لے کر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ واضح نہیں کہ اسے کیوں حراست میں لیا گیا۔ تاہم کچھ گروپوں کا کہنا ہے کہ وہ حجاب کے خلاف خواتین کے احتجاج میں شریک تھی اور حجاب جلا کر اس نے احتجاج ریکارڈ کروایا تھا۔

اس واقعہ کے خلاف 30 ستمبر کو احتجاجی مظاہرے کا منصوبہ بنایا گیا، مظاہرین نعرے بازی کرتے ہوئے پولیس اسٹیشن کی طرف جا رہے تھے، جن پر سکیورٹی فورسز نے فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں کم از کم 63 افراد موقع پر ہلاک ہو گئے۔

تاہم کچھ حقوق گروپوں نے یہ تعداد 88 بتائی ہے، بلوچ مظاہرین نے یہ تعداد 100 سے زائد بتائی ہے، جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے یہ تعداد 82 بتائی ہے۔

سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والی تصاویر میں روایتی بلوچ شلوار قمیض میں ملبوس زخمی مردوں کی قطاریں دکھائی دے رہی تھیں، جو گولیا ں لگنے سے خون میں لت پت تھے۔

فورسز نے مظاہروں میں حصہ لینے والے درجنوں لوگوں کو گرفتار کیا ہے، تاہم درست اعداد و شمار واضح نہیں ہیں۔ فورسز نے مظاہرین کی شناخت اور گرفتاری کیلئے ڈرون اور چہرے کی شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا۔

ایران اور پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے درمیان زاہدان کے مشرق میں واقع اہم سرحدی گزرگاہ تفتان کو دو، تین روز کیلئے بند کیا گیا تھا، جس کے بعد دوبارہ کھول دیا گیا۔

ایران ہیومن رائٹس گروپ کے مطابق بلوچوں کو پھانسیاں دینے کا سلسلہ اس وقت بھی جاری ہے۔ رواں سال ایران میں 251 لوگوں کو پھانسی دی گئی، جن میں سے 67 بلوچ تھے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts