خبریں/تبصرے

کراچی یونیورسٹی واقعہ کے بعد بلوچ طلبہ زیر عتاب

اویس قرنی

نمل اسلام آباد کے طالبعلم بیبگر امداد کو بدھ کی صبح پنجاب یونیورسٹی لاہور میں سے انتظامیہ کی موجودگی اغوا کیا گیا۔ اس بہیمانہ واردات کی ویڈیو ہر جگہ پھیل چکی ہے۔ ہم بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی پروفائلنگ اور ہراسانی کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ اور تمام جبری گمشدہ طلبہ کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔

کراچی خود کش حملے کے بعد ایسے نتائج کا برآمد ہونا اتنی اچنبے کی بات نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ بلوچستان میں ریاستی جبر اور قومی استحصال نے مسلسل شدت ہی اختیار کی ہے۔ وہاں کے وسائل کی لوٹ مار مسلسل جاری ہے اور اسی طرح سے مزاحمت بھی۔ وسائل کی اس عالمی لوٹ مار اور جغرافیائی خصوصیات نے اس خطے کو عالمی و علاقائی سامراجی طاقتوں کی پراکسی جنگوں کا میدان بنا دیا ہے۔

بلوچستان کی خصوصاً طلبہ تحریک گزشتہ چند برسوں میں بڑی جرأت کے ساتھ سیاسی طور پر آگے بڑھی ہے، جو بنیادی ایشوز کے گرد متحرک ہوئی اور اس نے سماج کی بیشتر پرتوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ خاص طور کورونا وبا کے دنوں کی آن لائن تعلیم اور امتحانات کے خلاف تحریک، پھر میڈیکل طلبہ کی جدوجہد وغیرہ میں بلوچستان کے طلبہ نے ملک بھر کے طلبہ کی طرف سے یکجہتی اور جڑت بھی اکٹھی کی۔ یہ بہت بڑی کامیابی تھی اور ریاست کے لیے دردِسر بھی، کیونکہ ان تحریکوں پر غداری اور ملک دشمنی کا ٹھپہ لگا کر ان کو کچلنا اور ملک گیر یکجہتی کو توڑنا اتنا آسان بھی نہ تھا۔

محرومیوں کے خلاف انفرادی اور گوریلا حملوں سے بعض اوقات بلوچستان میں موجود بنیادی ایشوز کے گرد ہونیوالی سیاسی جدوجہد کو بھی زِک پہنچتی ہے۔ جہاں ریاست کو ملکی سطح پر پروفائلنگ کا جواز ملتا ہے، وہیں خود بلوچستان کی اندر کی بنیادی مسئلوں کے گرد بننے والی تحریکوں کا بھی دم گھونٹ دیا جاتا ہے۔

کراچی یونیورسٹی کے حالیہ واقعہ میں پہلی بار بلوچ خاتون نے فدائی کردار ادا کیا، لیکن اس جواز کی بنیاد پر ریاست اب ہر بلوچ طالبعلم خصوصاً طالبات، ہر ماہ رنگ اور ماہ جنگ، کے لیے مصائب کھڑے کرنے کے درپے ہے۔ ہم طلبا و طالبات کی ہر قسم کی ہراسانی کی مذمت کرتے ہیں اور اس کے خلاف جدوجہد بھی کریں گے۔

Awais Qarni
Website | + posts

اویس قرنی ’ریولوشنری سٹوڈنٹس فرنٹ‘ کے مرکزی آرگنائزر ہیں اور ملک بھر میں طلبہ کو انقلابی نظریات پہ منظم اور متحرک کرنے میں سرگرم عمل ہیں۔