لاہور (جدوجہد رپورٹ) پاکستان دنیا میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں سرفہرست ملکوں میں سے ایک ہے، جہاں سالانہ تقریباً 5 لاکھ 50 ہزار بچے (لڑکے اور لڑکیاں) جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں۔ تاہم ماہرین کے مطابق جنسی زیادتی کے شاید ہی چند سو واقعات منظر عام پر آتے ہیں۔
’دی نیوز‘ کے مطابق پاکستان میں تقریباً 4.6 ملین بچوں کی شادی 15 سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی کر دی جاتی ہے، جبکہ 19 ملین بچوں کی شادیاں 18 سال کی عمر سے پہلے کر دی جاتی ہیں۔ ماہرین کا دعویٰ ہے کہ 88 فیصد متاثرہ بچے اپنے گھروں کے اندر تشدد اور جسمانی استحصال کا شکار بنتے ہیں۔
بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والے سرکردہ رکن پروفیسر نعیم ظفر نے کہا کہ ’بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے جو واقعات میڈیا کے ذریعے سامنے آتے ہیں، وہ صرف رائی کے دانے برابر ہیں۔ ہماری تحقیق کے مطابق 5 لاکھ 50 ہزار سے زائد بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں۔‘
انکا کہنا تھا کہ ’دنیا میں تقریباً ایک ارب بچے چائلڈ ابیوز (بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی)کا شکار ہوتے ہیں۔ ان میں سے 120ملین بچیوں کو جنسی زیادہ کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ دنیامیں 2سے 4سال کی عمر کے تقریباً300ملین بچے جسمانی سزا کا شکار ہیں۔ پاکستان میں تقریباً88فیصد بچوں کو جسمانی سزا دی جاتی ہے۔
بچوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والے ایک اور کارکن ڈاکٹر طفیل نے کہا کہ ’پاکستان میں زیادہ تر بچے
گھروں میں بدسلوکی کا شکار ہوتے ہیں، جن میں سے بہتسے اپنے ٹھکانوں سے بھاگنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ بھاگنے والے بچوں کو سڑکوں اور کام کی جگہوں پر زیادتی، تشدد اور استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘
انہوں نے افسوس کا اظہارکیا کہ 2006ء میں کابینہ کی منظوری کے باوجود ملک میں بچوں کو جنسی استحصال سے بچانے کیلئے ایکشن پلان پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔
ڈاکٹرکشور انعام کاکہنا تھا کہ ’پاکستان میں 6میں سے ایک بچے کی بچپن میں ہی شادی کر دی جاتی ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ سندھ میں نکاح نامے میں شناختی کارڈ کاکوئی خانہ ہی نہیں ہے۔‘
یہ گفتگو ماہرین کی جانب سے کراچی میں منعقدہ عالمی کانفرنس کے اختتامی سیشن کے دوران کی گئی۔ کانفرنس میں پاکستان اور بیرون ملک سے تقریباً300مندوبین نے شرکت کی۔
کانفرنس کے ایک سیشن میں دکھایا گیا کہ عالمی سطح پر غیرمتعدی امراض سے ہونے والی اموات کی حالیہ تعداد بڑھ کر41ملین ہو گئی ہے، جو کہ تمام اموات کا 74فیصد ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کم اوردرمیانی آمدنی والے ملکوں میں ہو رہی ہیں۔
اگرچہ یہ اموات بالغ عمر کے دوران ہوتی ہیں، تاہم ان کے نشان بچپن اورنوعمری کے سالوں میں قائم ہوتے ہیں، جیسا کہ ناقص غذائی عادات، موٹاپا،جسمانی سرگرمیوں کی کمی، نمک کا زیادہ استعمال، تمباکو نوشی وغیرہ۔
ایک حالیہ تحقیق میں 20فیصد بچوں میں موٹاپا، 60فیصدسے زیادہ میں ناکافی جسمانی سرگرمی، 85فیصد میں غلط خوراک اور20فیصد بچوں میں تمباکو کا استعمال پایا گیا ہے۔