عدنان فاروق
برطانوی شہزادی کی سبزقمیض اورسفید شلوار میں پاکستانیوں نے اپنے لیے اتنی عزت ڈھونڈ لی ہے کہ جو ان کو ان کا جھنڈا شایدرہتی دنیا تک نہ دلوا سکے۔ پاکستانی اس قوم کے فرد سے لباس کی تقدیس کو جوڑ رہے ہیں جہاں یونین جیک(برطانیہ کا قومی جھنڈا) کے بنے انڈرویئر اور دیگر زار جامے پہننا معمول کی بات ہے۔
لطف کی بات تو تب تھی جب شہزادی پاکستان کے کسی اسکول کا دورہ کر کے کہتی کہ واہ، مجھے اپنا بچہ یہاں داخل کروانا ہے۔ آپ نے سڑکوں پر سے غریب فقیر توغائب کر دیے مگر ان چہروں کو گردنوں سے غائب کیسے کریں گے جن پر دار خوف بھوک دیکھنے کے لیے کسی عینک کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔
پاکستان شاہی جوڑے کے لئے ایک سفاری سے کم نہیں جہاں شیر، ہاتھی اور جنگلی جانور آزاد گھوم رہے ہیں۔ یہ دورہ ان لوگوں کا دورہ ہے جو یہ سن سن کرجوان ہوئے ہیں کہ ان کے باپ دادا یہاں کے بادشاہ تھے۔
ویسے موج تو بڑے بڑے برانڈز کی ہونے والی ہے جو شہزادی کے نام سے مہنگے داموں سبز رنگ کی شلوار قمیض بیچیں گے۔ حلانکہ یہ سبز رنگ کی شلوار قمیض تو ہماری شہزادی بے نظیر نے بھی پہنی تھی جو سڑک پر اسی طرح مار دی گئی جیسے ادھ ننگا گاندھی۔ قومی لباس پہننے والوں کے ساتھ جو ہم نے کیا اورجو انھوں نے ہمارے ساتھ کیا، اس کے بعد تو قومی لباس کبھی بھی اس بات کی ضمانت نہیں رہا کہ پہننے والاقابل اعتبار ہے یا ملک دشمن۔
ویسے ہم کب تک مولویوں والی زبان بولیں گے، وہ بھی جب انسانیت کی فلاح و بہبود کی بات کرتا ہے تو مخاطب مرد اور نشانہ عورت ہوتی ہے۔ یہاں بھی ہم وہی کر رہے ہیں، شہزادی کے لباس کی بات تو کر رہے ہیں لیکن شہزادہ؟ توبہ توبہ، ننگے سر اور پتلون‘کیا بے حیائی ہے۔ لیکن کوئی بات ہی نہیں کرتا، مرد جو ٹھہرا اور اوپر سے رنگ بھی گورا، دودھ کی طرح شفاف۔ جو بھی پہن لے اس پرجچتا ہے۔ ڈاکٹرسلام کے شیروانی اور پنجابی پگڑی پہنے ہوئے وجود کے ساتھ جو ہم نے کیا اس کے بعد کون شیروانی پہنے گا اور کون قومی لباس کی تقدیس کی بحث میں جائے گا۔
مزہ تو تب ہے جب بریگزٹ کے بعد نئی منڈیاں ڈھونڈنے شہزادی اپنی سب سے بڑی کالونی انڈیا جائے گی اور تلک لگا کر ساڑھی پہنے گی، تب تیرا کیا ہو گا کالیا؟