کرشن چندر
میں بہت عدیم الفرصت ہوں، اس کی وجہ خدانخواستہ یہ نہیں کہ مجھے دفتر جانا ہوتا ہے۔ میں نے اب دفتر کو ہمیشہ کیلئے خیر باد کہہ دیا ہے۔ اب میں صرف ریس کا کام کرتا ہوں، اور گھوڑ دوڑ کے لوگوں کے لگائے ہوئے ٹپ ہی میری معاشی و اقتصادی ضروریات کے کفیل ہو جاتے ہیں۔ ریس میں زیادہ محنت کی ضرورت نہیں، اور سچ تو یہ ہے کہ زیادہ قتل کی بھی ضرورت نہیں (اسی لئے تو میں ریس کھیلتا ہوں)۔ بس ریس میں یہ چاہیے کہ آنکھ بند کر کے جاکی کے ٹپ پر روپیہ لگا دیا جائے۔ تھوڑی دیر میں روپیہ ہن کی طرح برسنے لگتا ہے۔ میں سال میں صرف تین ماہ ریس کھیلتا ہوں اور اتنا روپیہ کما لیتا ہوں کہ یہ رقم نہ صرف اس سال کیلئے بلکہ اگلے دو سالوں کیلئے بھی کافی ہوتی ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ اگر میں ریس میں اسی طرح جیتتا رہا تو اپنی زندگی کے آخر میں اگلی دو زندگیوں کے آرام و آسائش کا سامان بھی بہم پہنچا لوں گا۔ عجیب شے ہے یہ ریس بھی! اس میں لگایا ہوا روپیہ پشتہا پشت کام دیتا ہے۔
ہاں تو میں اپنی عدیم الفرصتی کا ذکر کر رہا تھا۔ یوں دیکھا جائے تو مجھے باہر تین ماہ کی ریس کے علاوہ اور کوئی کام نہیں۔ وقت وافر ہوتا ہے اور بڑی مشکل سے کٹتا نظر آتا ہے، لیکن بھلا ہو میری بری صحت کا کہ مجھے ان دنوں کوئی نہ کوئی بیماری ضرور لاحق ہو جاتی ہے۔ دراصل میری عدیم الفرصتی کی سب سے بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ میں اکثر کیا عموماََبیمار رہتا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے، اپنے آپ کو ہمیشہ بیمار پایا ہے۔ یہ بیماری کبھی دم نہیں لینے دیتی، اس سے کبھی فرصت حاصل نہیں ہوتی۔ اگر فرصت ملتی تو خدا گواہ ہے کہ میں دنیا میں ضرور کوئی بڑا کام کرتا۔ سرکس کھولتا، اینٹوں کا بھٹا بناتا، بینک کھڑا کرتا، غریب بیواؤں کے زیور گروی رکھتا، بنگال کے قحط زدگان کیلئے ایک لاکھ روپیہ اکٹھا کرتا اور پھر اس رقم میں سے دس ہزار روپیہ قحط زدگان کی مدد کیلئے بھیج بھی دیتا۔ الغرض کوئی ایک ایسا بڑا کام ضرور کرتا، جو ایک آدمی کو دوسرے آدمی کی نظروں میں بڑا آدمی بنا دیتا ہے!
لیکن براہو بیماری کا کہ اس نے کہیں کا نہ رکھا، اور کوئی ایک بیماری ہو تو بتاؤں۔ جب پیدا ہوئے تو تین ماہ بعد ہی اس روز سے چیچک نکلی کے چہرہ شہد کی مکھیوں کا خالی چھتہ بن گیا۔ پھر جوں جوں بڑے ہوتے گئے بیماریاں بھی بڑھتی گئیں۔ خسرہ، نمونیا، ٹائیفائیڈ، یرقان، عشق، اختلاج قلب، ملیریا، درد جگر، جوڑی کا تاپ، کالی کھانسی، سفید کھانسی، پیلی کھانسی، خونی کھانسی، قوس و قزحی کھانسی، ہر رنگ کی کھانسی ہوئی۔ جو آنکھیں دکھنے پر آئیں نہ صرف آنکھیں دکھنے لگیں، بلکہ ہاتھ، پاؤں، دل، جگر، سینہ سب دکھنے لگے۔ جب پاؤں میں آبلے پڑے تو کلیجے میں بھی چھالے پڑ گئے، اور جگر میں تو ناسور تک ہو گئے۔ پریشان کر دیا اس بیماری نے! یہ کمبخت کوئی کام نہیں کرنے دیتی۔ آخر جب میں اس بیماری کے ہاتھوں بالکل عاجز آگیا، اور جب ماں کی گھٹیوں اور محلے والیوں کی جڑی بوٹیوں سے کچھ افاقہ نہ ہوا تو مجھے ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا۔ یہ ایک ایلوپیتھک ڈاکٹر تھا۔
اس ڈاکٹر نے پہلے میری نبض دیکھی، پھر زبان، پھر پیشاب، پھر خون، پھر آنکھیں، پھر سینہ، پھر بلغم اور پھر میرے والد سے کہا، ’اس لڑکے کو پرسوں پھر لاؤ۔ جب تک میں خوردبین سے سب بیماری دیکھ لوں گا۔‘
اس روز جب ہم وقت مقررہ پر پہنچے تو ڈاکٹر نے بتایا کہ مجھے کوئی بیماری نہیں ہے۔ صرف پیشاب میں کیلسیم آتا ہے۔
کیلسیم کیا ہوتا ہے، میرے والد نے پوچھا۔
چونا! ڈاکٹر نے جواب دیا۔
لاحول ولا۔ میرے والد نے جواب دیا۔ ریل کے انجن اور ہوائی جہاز کے زمانے میں کیسی کیسی بیماریاں پیدا ہو گئی ہیں۔ چونا؟ پھر میرا کان مروڑ کر بولے۔ کیوں بے! کیا تو دن بھر چونا کھاتا رہتا ہے۔ خبردار جو آئندہ سے تو نے پاندان کو ہاتھ بھی لگایا۔
لیکن پان نہ کھانے پر بھی بیماری میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی۔ بعد میں جب بڑے بڑے ماہر ڈاکٹروں نے میرا معائنہ کیا تو پتہ چلا کہ مجھے ایک دم بہت سی بیماریاں لاحق ہو گئی ہیں۔ پیشاب میں کیلسیم آتا ہے، تو خون میں لوہا۔ سانس میں کاربن، آنسو میں نمک، بلغم میں سوڈا ہے، تو سینے میں گندھک۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سارا عالم جمادات میرے جسم میں آکر اکٹھا ہو گیا ہے اور دنیا کا طاقتور سے طاقتور انجکشن بھی میرے لئے کچھ نہیں کر سکتا۔ ایلوپیتھک ڈاکٹر نے،کہ جس کا سب سے بڑا حربہ انجکشن ہے، میرے والد کو صاف جواب دے دیا۔ ’مجھے افسوس ہے میں آپ کے لڑکے کی کوئی مدد نہیں کر سکتا!‘
میں روتا ہوا کمرے سے واپس نکل آیا۔ میرے والد میرے آنسو پونچھتے ہوئے کہنے لگے، ’نہ رو بیٹا۔ ان آنسوؤں کو سنبھال کر رکھ، ان آنسوؤں میں نمک ہے۔‘
میں نے اپنی صحت کو بہتر بنانے کیلئے اور بیماری سے پیچھا چھڑانے کیلئے کیا کیا جتن نہیں کئے۔ ہومیو پیتھک ڈاکٹروں کے پاس گیا اور بائیو کیمسٹری والوں کے پاس جو صرف بارہ دواؤں سے جہان بھر کی بیماریوں کا علاج کرتے ہیں۔ لیکن ان بارہ دواؤں کے کھانے سے بھی کوئی افاقہ نہیں ہوا۔ پھر میں نے ویدک اور یونانی دواخانہ کی طرف رجوع کیا، اور ہر اس جھاڑی کے پتھے، پھل، پھول، جڑیں تک کھاڈالیں، جنہیں دیکھنے ہی سے متلی ہو جاتی ہے، اور جنہیں انسان تو کیا بھیڑ بکریاں تک بھی سونگھنا پسند نہیں کرتیں، لیکن بیماری نے پھر بھی پیچھا نہ چھوڑا۔ جوں جوں میں بڑا ہوتا گیا، بیماری بھی بڑی ہوتی گئی حتیٰ کہ میں بالکل جوان ہو گیا۔ اب ڈاکٹروں نے پینترا بدلا۔
ڈاکٹروں نے مشورہ دیا۔ یہ لونڈا اس لئے بیمار رہتا ہے کہ ابھی تک اس کی شادی نہیں ہوئی۔ فوراً اس کا بیاہ کر دو!
چنانچہ میری شادی بھی ہو گئی۔
لیکن میری بیوی کے غلبے سے بیماری کا غلبہ کم نہ ہوا۔ پہلے صرف ایک چیز کا غلبہ تھا۔ اب دو کا۔ بعد میں جب بچے پیداہوئے تو غلبوں کی تعداد چھ سات تک پہنچ گئی،حتیٰ کہ مجھے انشورس ایجنٹ کے پاس جانا پڑا۔
لیکن انشورنس سے بھی بیماری کم نہ ہوئی۔ البتہ کبھی کبھی منہ پر رونق آجاتی تھا، جس سے لوگ سمجھتے تھے کہ مریض کا حال اچھا ہے۔
پھر ایک دن مجھے ایک حکیم نے بتایا کہ مجھے تلی ہے!
میں اچھل پڑا۔ تلی ہے؟ سچ کہتے ہوں حکیم صاحب مجھے تلی ہے؟
’ہاں!‘
اور جگر بھی، میں نے پوچھا۔
ہاں جگر بھی ہے، حکیم نے میرے سوال کو اچھی طرح سے نہ سمجھتے ہوئے جواب دیا۔
بعد میں جب میں دوسرے حکیموں کے پاس گیا، تو ان سے پتہ چلا کہ میرے نہ صرف تلی ہے، بلکہ جگر بھی ہے، دل ہے، دو آنکھیں ہیں، دو بازو ہیں، دو ٹانگیں ہیں، ایک سر ہے، دوکان ہیں، غرضیکہ جہان بھر کی بیماریاں میرے جسم میں آکر اکٹھی ہو گئی ہیں۔ اب آپ ہی بتائیے جب صورت حالات یہ ہوں تو انسان بیچارہ کیا کرے۔ جنگ نہ کرے تو کیا کرے، کیونکہ انسان کے نہ صر ف تلی ہے، بلکہ معدہ بھی ہے اور یہ معدہ اسے ہمیشہ لڑنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ دنیا میں سب جنگیں معدے کی وجہ ہی سے ہوتی ہیں اور اگر اپنڈے سائٹس کی فالتو آنت کی طرح معدے کو بھی آپریشن کر کے انسانی جسم سے خارج کر دیا جائے، تو انسانوں کے درمیان کبھی جنگ نہ ہو۔ کئی بار مغربی جراحوں نے آپریشن کے ذریعے اپنی سکیم کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی ہے، لیکن وہ ہر بار ناکام ہوئے ہیں کیونکہ انسانی جسم معدے کے بغیر بیکار ہو جاتا ہے اور اسی بیکاری کو موت کہتے ہیں۔ مغربی جراحی اس درجہ کمال کو پہنچ گئی ہے کہ اب بہ آسانی آدمی کی ٹانگ کاٹ دیجاتی ہے اور اسے ایک لکڑی کی ٹانگ دے دی جاتی ہے۔ اس لکڑی کی ٹانگ سے آدمی وہی کام لے سکتا ہے، جو اصلی ٹانگ سے۔ اور ابھی حال ہی میں میں نے ایک امریکی پرچے میں ایک سپاہی کی تصویر دیکھی تھی، جو اپنے شہر میں رقص کے سالانہ مقابلے میں اول رہا تھا۔ اس سپاہی کی ٹانگ لکڑی کی تھی۔ یہ سپاہی خوبصورت امریکی دوشیزاؤں کے جھرمٹ میں کھڑا مسکرا رہا تھا۔ اسے دیکھ کر میرا جی چاہا کہ میں ایک کیا اپنی دونوں ٹانگیں کٹوا کر لکڑی کی ٹانگیں لگوا لوں، اور۔۔۔۔۔ خیر جانے دیجئے۔
ٹانگ کے علاوہ اور بھی بہت سے انسانی اعضاء مصنوعی تیار کئے جاتے ہیں اور انسانی جسم میں ریڈیو ویو کی طرح لگا دیئے جاتے ہیں اور خوبی یہ کہ انسانی جسم کے افعال میں کوئی فرق نہیں آتا چنانچہ آج کل بیماری کے ذرا سے شبہ پر گردہ نکال لیا جاتا ہے، آنت کاٹ دی جاتی ہے، پھیپھڑا تبدیل کر دیا جاتاہے۔ لارڈ نوفیلڈ کی مہربانی سے آج کل لوہے کے پھیپھڑے بننے لگے ہیں کہ جن کے استعمال سے انسانی تنفس کے دورے میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوتی، ور پھر ان مصنوعی اعضاء میں ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ انسانی نشونما کیلئے انسانی خون اور خوراک کی ضرورت نہیں۔
لیکن ان تمام باتوں کے باوجود عملِ جراحی میں ابھی یہ خوبی نہیں پیدا ہوئی کہ وہ ایک ایسا معدہ ایجاد کر سکے، جو کھانا نہ طلب کرے۔ میں نے بڑے بڑے مغربی جراحوں سے نہایت صراحت کے ساتھ پوچھا کہ مجھے کیا بیماری ہے۔ سب کی ایک ہی رائے ہے۔ مجھے معدے کی بیماری ہے۔
لیکن یہ کیا بیماری ہے۔
تمہارے معدے کو بھوک لگتی ہے۔
پھر کیا کیا جائے۔ میں نے ملتجیانہ انداز میں ان سے کہا۔ کیا کہیں سے کوئی ایسا معدہ نہیں تیار ہو سکتا، جسے بالکل بھوک نہ لگے۔ لوہے کے پھیپھڑے یا لکڑی کی ٹانگ کی طرح۔
جراحوں نے انکار میں سرہلا دیا اور میں آپریشن روم سے باہر چلا آیا۔ اس کے بعد میں نے ڈونگرے کا بال امرت سے لے کر امرت دھارا تک سب پیٹنٹ ادویہ آزما کر دیکھ لیں۔ مرض میں کوئی افاقہ نہ ہوا۔ بیسیوں فقیروں کے منتر جنتر، تعویذ، گنڈے بھی پرکھ لئے، بیماری جوں کی توں رہی۔ سنیاسیوں اور کایاکلپ والوں کے پاس گیا اور شنگرف کے کشتے سے لے کر اکسیر سنکھیا تک کھا ڈالی، لیکن نہ موت آئی، نہ بیماری ٹلی۔ ایک پڑھے لکھے آدمی نے جو تازہ تازہ ولایت سے آیا تھا،ا ور ابھی تک چھری کانٹے سے کھانا کھاتا تھا، نے کہا،میرا خیال ہے کہ تمہیں کوئی جسمانی بیماری نہیں ہے، یہ ضرور کوئی ذہنی بیماری ہے۔
ذہنی بیماری؟ میں نے حیران ہو کر پوچھا۔
ہاں! ذہنی بیماری، تم اپنا علاج کسی سے کراؤ۔
وہ کون بلا ہے؟
ماہر علمِ نفسیاتً ڈاکٹر حمید سے ملو۔ وہ حال ہی میں امریکہ سے یہ علم سیکھ کر آئے ہیں۔ جہاز پر وہ میرے ساتھ تھے۔ یہ لو ان کا پتہ!
چنانچہ میں ڈاکٹر حمید کے ہاں پہنچا۔ ڈاکٹر حمید نے کہا، ’میں جو کچھ پوچھوں صاف صاف کہتے جائیے۔ فوراً کہتے جائیے۔‘
سوچے بغیر میں نے کہا۔ بہت اچھا۔
ڈاکٹر حمید نے پوچھا۔ آپ کا نام!
میں نے کہا۔ جگتی لال۔
باپ کا نام؟
بھگتی لال
دادا کا نام؟
ٹھگتی لال۔
پردادا کا نام؟
اُلو کی دم فاختہ۔ میں نے جواب دیا۔
ہم۔ ڈاکٹر حمید کسی گہری سوچ میں پڑ گئے۔ پھر انہوں نے میرا جواب کاغذ کے ایک ورق پر نوٹ کر لیا۔
پھر بولے۔ آپ کتنے بھائی ہیں۔
’چار‘
کتنی بہنیں؟
دو
کتنی بیویاں ہیں۔
ایک۔ اور اگر آپ نوکرانی کو بھی شامل کر لیں تو دو! میرا مطلب ہے کہ آپ نے صاف صاف جواب۔۔۔۔
میں سمجھ گیا۔ ڈاکٹر نے ورق پر نوٹ کرتے ہوئے کہا۔
اب تیسرا دور شروع ہوا۔ کہنے لگے، اب میں ایک لفظ کہوں گا، آپ اس کے جواب میں جو آپ کے دل میں آئے، فوراً کہیے۔
میں نے کہا، بہت اچھا۔ میری جان!
مسکرائے۔ کہنے لگے۔ ابھی نہیں۔ دیکھئے۔ پہلے میں ایک لفظ کہتا ہوں، آپ اس کا جواب دیجئے۔
ڈاکٹر حمید کچھ عرصہ خاموش سے اپنی گھڑی کی طرف تکتے رہے۔
پھر اچانک بولے۔
گدھا!
آلو بخارا۔ میں نے کہا۔
ٹوپی!
پھندنا۔ میں نے جواب دیا۔
رام راجیہ!
’چل چل چمیلی باغ میں۔‘ میں نے جواب دیا۔ ڈاکٹر حمید نے اسے فوراً نوٹ کر لیا۔ پھر بولے۔ اب میں ایک لفظ بولوں گا۔ آپ کچھ کہیں گے۔ میں پھر اسے دہراؤں گا۔ آپ پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یا اللہ یہ کیسا تماشا ہے۔
چلئے میں نے کہا۔
وہ بولے۔ صابن!
میں نے کہا۔ دھوبن۔
وہ بولے۔ دھوبن۔
میں نے کہا۔ فیڈی واس۔
وہ بولے۔ فیڈی واس۔
میں نے کہا۔ بکواس!
وہ بولے۔ بکواس۔
میں نے کہا۔ چپ!
وہ بولے چپ!
میں نے کہا۔ کہہ، کہہ، کہہ، کہہ، یکایک میں طوطے کی آواز نکال کر ہکلانے لگا۔
ہم! ڈاکٹر حمید نے زور سے میری گدی پر ہاتھ مارا۔ پکڑ لیا آخر۔ آپ کو ہکلانے کا مرض ہے۔
لیکن ڈاکٹر صاحب میں تو کبھی نہیں ہکلاتا۔
آپ نہ ہکلائیے، اس سے کیا ہوتا ہے۔ یہ مرض آپ کے لاشعور میں ہے!
لاشعور میں؟
ہاں۔ لاشعور کی لہروں میں تیر رہا ہے۔ اور یہ مرض آپ نے ورثہ میں پایا ہے۔ اپنے باپ سے یا اپنی ماں سے۔
لیکن میرے ماں باپ بالکل نہیں ہکلاتے۔ غالباً یہ مرض ان کے لاشعور میں بھی۔۔۔۔ میں نے فقرہ ناکام رہنے دیا۔
’ہاں ٹھیک ہے۔ وہاں بھی تیر رہا ہے۔ انہوں نے غالباً اپنے ماں باپ سے۔‘ ڈاکٹر نے پوچھا۔
’میں نے اپنے دادا دادی اور نانا نانی کو اچھی طرح دیکھا ہے۔ ڈاکٹر صاحب وہ بالکل صاف رواں بولتے تھے۔ میری طرح۔‘ میں نے کہا۔
آہ۔ آپ لاشعور کی لہروں سے واقف نہیں۔ ہزاروں امراض یہاں تیرتے رہتے ہیں۔
تو پھر یہ مرض کس طرح دفع ہو گا۔ میں نے پوچھا۔
دفع ہو گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے مسکرا کر کہا۔ ’لائیے میری فیس‘۔ اور انہوں نے ہاتھ بڑھایا۔
دفع بھی ہو گیا؟ میں نے حیرانی سے پوچھا۔ یہ کیوں کر؟
ڈاکٹر صاحب بولے، یہ علم نفسیات کا ایک تحلیلی عملیہ ہے کہ جب کسی مرض کی صحیح تشخیص ہو جائے۔ اور مریض کو پتہ چل جائے کہ اسے کیا بیماری لاحق ہے تو وہ مرض اسی دم تحلیل ہو جاتا ہے۔سمجھے آپ۔ لائیے۔ ساٹھ روپے۔
اور پھر میں نے اپنے ساٹھ روپوں کو ڈاکٹر کی میز کی دراز میں تحلیل ہوتے ہوئے دیکھا۔
اور لاشعور کی لہریں فضا میں تیر رہی تھیں۔
علمِ نفسیات کے تحلیلی عملئے نے مجھے دوچار دن جکڑے رکھا۔ یہ تو ظاہر ہے کہ وہ ہکلاپن جو مجھے کبھی نہ ہوا تھا، اب دور ہو گیا تھا۔ اس سے بیمار جسم کو اور کوئی فائدہ نہ پہنچا ہے چنانچہ میں نے پلاسٹک سرجری کے ماہروں سے مشورہ کیا کہ مجھے اس بارے میں کیا کرنا چاہیے۔ پلاسٹک سرجری آپ جانتے ہیں۔ ان دنوں اپنے عروج کے انتہائی نقطے پر ہے۔ مثال کے طو ر پر عرض کرتا ہوں کہ آپ کی ناک آتشک کی وجہ سے بیٹھ گئی ہو، یا خدا نہ کرے کسی نے آپ کی ناک کاٹ ڈالی ہو تو پلاسٹک سرجری کے ذریعے سے فوراً نئی ناک لگائی جا سکتی ہے۔ اگر آپ کے ہونٹ پھٹے ہوئے انجیر کی طرح بدصورت اور بدنما ہیں تو انہیں پلاسٹک سرجری سے گلاب کی پتی کی طرح حسین و جمیل بنایا جا سکتا ہے۔ اگر آپ کی ٹھوڑی کے نیچے گوشت لٹک گیا ہے تو اسے چٹکیوں میں یوں غائب کیا جا سکتا ہے۔ موجودہ جنگ عظیم میں تو اس صنف کے ڈاکٹرں نے کمال کر دکھایا ہے۔ یہ لوگ جلی ہوئی انسانی کھال کی جگہ نئی جلد لگا دیتے ہیں۔ نئے کان عطا کرتے ہیں، نئے پپوٹے، نئی آنکھیں، نئی بھویں، سرگنجا ہو تو کھوپڑی کے اوپر بال بھی لگا دیتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اگر کھوپری کے اندر دماغ نہ ہو تو وہ بھی ڈال دیتے ہیں! اسی لئے میں نے سوچا کہ پلاسٹک سرجری کے ماہروں سے مشورہ کیاجائے۔
مجھے ایک نیا جسم چاہیے۔ بالکل نیا جسم، میں اس جسم کو تبدیل کرنا چاہتا ہوں۔ یہ ہمیشہ بیمار رہتا ہے۔
پلاسٹک سرجری کے ماہروں نے کہا، ”ہمیں بہت افسوس ہے کہ ہم آپ کو نیا جسم نہیں عطا کر سکتے۔ ہم تو مرمت کرنے والے موچی ہیں۔ نیا بوٹ نہیں بناتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہتے ہیں جب چاروں طرف اندھیرا چھا جاتا ہے۔ جب تاریکی اس قدر مہیب اور خوفناک ہو جاتی ہے کہ دل لرزنے لگتا ہے، تو اسی تاریکی کے سینے میں خوبخود روشنی کی کرن پھوٹتی ہے اور اندھیرے کو اپنی ضوسے چکا چوند کر دیتی ہے۔
میری اندھیری زندگی میں یکایک روشنی کی کرن جگمگا اٹھی۔
ایک یوگی نے میری تاریک قسمت کو روشن کر دیا۔
یوگی نے کہا، بیٹا۔ یوگ کا پالن کرو، یوگ کی راہ پر چلو، تمہاری سب بیماریاں دور ہو جائیں، اور تمہاری روح کو بھی سکون حاصل ہوگا۔
شانتی چاروں طرف شانتی۔
یوگی نے مجھے یوگ کے اصول بتائے، اور اب میں آپ کو بتاتا ہوں تاکہ جس طرح میری بیماری دور ہو گئی ہے۔ خدا کرے آپ کو بھی اسی طرح فائدہ پہنچے!
یوگ کے ایک سو بیس آسن ہیں۔
پہلا آسن:
سیدھے کھڑے ہو جاؤ اور چھاتی پھُلا کر اندر سانس کھینچو۔ اندر سانس روکو حتیٰ کہ پھیپھڑا پھٹ جائے، لیکن پھیپھڑا پھٹنے کی مطلق پروا نہ کرو جب تک پھیپھڑا نہ پھٹے یوگ کا پہلا آسن مکمل نہ ہوگا۔
دوسرا آسن:
چت لیٹ جاؤ، اور اپنے پاؤں کی انگلیوں سے اپنے سر کو چھونے کی کوشش کرو۔ اگر ناکامیاب رہو تو پھر کوشش، اور کوشش کرو حتیٰ کہ ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جائے اور تمہارے پاؤں کی انگلیاں سر سے جا لگیں۔ ریڑھ کی ہڈی ٹوٹنے کی مطلق پروا نہ کرو، کیونکہ یہ یوگ کا دوسرا آسن ہے۔
تیسرا آسن:
اسے شیر شک آسن بھی کہتے ہیں، یعنی سرکا آسن۔ اس آسن میں مبتدی سر کے بل کھڑا ہوتا ہے۔ ٹانگیں اوپر سر نیچے۔ ہر روز دس منٹ تک اپنے کمرے میں اس طرح کھڑے رہو، پھر آہستہ آہستہ سے کمرے میں اسی طرح چلنے کی کوشش کرو، پھر کمرے کے باہر سڑک پر چلو، پھر بازار میں ٹرام کے سامنے اس طرح چلوحتیٰ کہ ٹریم سے ٹکرا کر تمہارا سر چکنا چور ہو جائے، لیکن اس کی بھی مطلق پروا نہ کرو۔ یوگ کا آسن تمہاری روح کو سچی خوشی عطا کرے گا۔
چوتھا آسن:
آلتی پالتی مار کر بیٹھو(دیکھو مہاتما بدھ کی تصویر) اور دو برس تک اسی طرح بیٹھے رہو حتیٰ کہ تمہارا جسم پتھر کی طرح سخت ہو جائے، اور تمہیں کسی عجائب خانہ میں رکھ دیا جائے، لیکن اس کی بھی مطلق پروانہ کرو۔ عجائب خانہ میں تمہاری وہ عزت و تکریم ہو گی، جو تمہیں اس زندگی میں کبھی حاصل نہیں ہو سکتی۔
پانچواں آسن:
اپنے ہاتھ پیٹھ پر باندھ کر اپنے سر کو اپنی ٹانگوں میں پھنسا لو اور ایک گیند کی طرح فرش زمین پر لڑھکو، حتیٰ کہ محلے کے لڑکے تمہیں فٹ بال سمجھ کر تم سے کھیلنے لگیں۔ اس طرح کھیلتے کھیلتے تمہارا جسم ربڑ کی طرح لچکدار ہو جائے گا۔
چھٹا آسن:
کھڑے ہو جاؤ۔ دایاں بازو اوپر اٹھاؤ، اور اوپر اٹھائے رکھو جب تک کہ وہ لکڑی کی طرح سوکھ نہ جائے۔
ساتواں آسن:
اب بایاں بازو بھی اوپر اٹھاؤ، اور اسے بھی لکڑی کی طرح سوکھ جانے دو۔
آٹھوا آسن:
اب دائیں طرف کی ٹانگ اوپر اٹھا لو۔ اور صرف ایک ٹانگ کے سہارے تین سال تک اسی حالت میں کھڑے رہو۔
نواں آسن:
اب دوسری ٹانگ بھی اٹھا لو۔ اب تم فضا میں بالکل معلق ہو۔ دیکھا تم نے یوگا کا اعجاز!
دسواں آسن:
لکڑی کا ایک تختہ لو، جس پر لوہے کی بڑی بڑی کیلیں باہر کی طرف ابھری ہوں۔ اب ان میخوں کے بستر پر لیٹ جاؤ، اور بازار میں بھیک مانگنا شروع کر دو۔
یوگ آسن کا پہلا حصہ ختم ہوا۔
میں ابھی تک پہلے دس آسنوں کی تکمیل کر سکا ہوں۔ ابھی پچھلے سال اپنے کیلوں کے بستر پر لیٹا لیٹا کوروکشیتر کی سیر بھی کر آیا ہوں۔ میرا تن ہر طرح کی جسمانی بیماریوں سے پاک ہے۔ میری روح ہر قسم کی زمینی آلائشوں سے مبرا ہے۔ کوروکشیتر کے میلے پر لاکھوں جاتریوں نے میرے درشن کئے، اور کئی امریکنوں نے میرے فوٹو لئے اور لاکھ روپہیہ چڑھاوا وصول ہوا۔
اور یہ سب کچھ یوگائی برکت سے ہوا۔
آپ بھی یوگ کے آسن سیکھئے۔ اس پر عمل کیجئے۔ پورے ایک سو بیس آسنوں کا حال میری کتاب’یوگ! کیوں اور کیسے‘ میں درج ہے۔ قیمت پانچ روپے۔ ملنے کا پتہ۔ آوارہ یوگی۔ پوسٹ بکس نمبر420شکار پور۔ سندھ۔