فاروق سلہریا
جہالت کی نفسیات جانور والی ہوتی ہیں۔ جانور کا زمان و مکان اسی حد تک محدود (یا وسیع) ہوتا ہے جس حد تک اس کی نظر جاتی ہے۔ اس کے برعکس،انسان اپنے سماجی تعلقات کی بنیاد پر۔۔۔جس میں زبان بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔۔۔انسان اپنے وقت (حاضر) کے علاوہ دیگر وقتوں (ماضی و حال) بارے بھی جانتا یا سوچتا ہے۔
یوں وہ زمان و مکان سے وہ تعلق نہیں رکھتا جو جانور رکھتا ہے۔ یہ عمل بچپن میں ہی شروع ہو جاتا ہے۔ بچے کے طور پر جب ہم کوئی خواہش پوری نہیں کر پاتے،یا مسئلہ حل نہیں کر پاتے، تو کسی بڑے کی مدد مانگتے ہیں۔
یوں ہم بڑے کے علم سے مستفید ہو کر ماضی میں چلے جاتے ہیں۔ جب گھر کا بڑا بھی ہمارا مسئلہ حل نہیں کر پاتا تو ہم سوچ کے عمل میں مشغول ہوتے ہیں۔ یوں ہم پر مستقبل کے در وا ہوتے ہیں۔ گویا اگر ہم نے مسائل کا حل نکالنا ہے،مستقبل میں جانا ہے، تو ہمارا زمان و مکان کا دائرہ بہت بہت بہت وسیع ہونا چاہئے۔
ایسا تب ہی ممکن ہے جب ہمارا علم بہت وسیع ہوگا۔ سو، علم کی وسعت ہماری نفسیات بدل دے گی۔ہم کنوئیں کے مینڈک نہیں رہیں گے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ با علم انسان بار بار ایک ہی حرکت کر کے مطلوبہ نتیجہ حاصل نہیں کرے گا جیسا کہ بعض جانور کرتے ہیں۔
اگر ایک بھوکے کتے اور روٹی کے بیچ میں ایک سلاخوں پر مبنی ایسی دیوار کھڑی کر دی جائے جس میں سے کتے کا منہ نہ گزر سکے تو ہم دیکھیں گے کہ کتا غصے سے بھونکے گا، بار بار سلاخوں میں منہ ڈالے گا۔اضطراری حرکتیں کرے گا۔
وہ کسی ایسے ’Tool‘ بارے نہیں سوچے گا جس کی مدد سے روٹی تک پہنچ سکے۔ یہ ساری نفسیات جہالت کے مارے معاشرے میں بھی دکھائی دیں گی۔