(بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ماہ رنگ بلوچ کی یہ تحریر روزنامہ ’ڈان‘ میں شائع ہوئی ہے۔ روزنامہ ’جدوجہد‘ کے قارئین کیلئے اس تحریر کا اردو ترجمہ شائع کیا جا رہا ہے۔)
29اکتوبر کو تربت سے اٹھائے گئے 24سالہ بالاچ مولابخش کے ماورائے عدالت کے خلاف 23نومبر سے بلوچستان میں بہت سے لوگ احتجاج کر رہے ہیں۔ بالاچ مولا بخش کو گرفتاری کے بعد عدالت میں پیش کیا گیا اور پھر مبینہ مقابلے میں قتل کر دیا گیا۔ بالاچ کے قتل کے بعد سے اس کا خاندان اور بلوچ یکجہتی کمیٹی احتجاج کر رہے ہیں اور ملزمان کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
مظاہرین جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل اور نجی ملیشیاؤں کے خاتمے کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں۔ ابتدائی طورپر بالاچ کی لاش کے ساتھ تربت احتجاج جاری رہا، لیکن حکومت نے مطالبات پر کوئی توجہ نہیں دی۔ ریلی کی شکل میں کوئٹہ کی طرف بڑھتے ہوئے مظاہرین کی بھی کوئی شنوائی نہیں ہوئی اور حکومت نے احتجاجی مارچ میں حصہ لینے والوں کی گرفتاریوں، من گھڑت مقدمات کے اندراج اور 44سرکاری ملازمین کو روزگار سے برطرف کر کے سخت رد عمل ظاہر کیا۔
صوبائی حکومت سے مایوسی کے بعدمظاہرین اسلام آباد منتقل ہو گئے، جہاں ان پر لاٹھی چارج کیا گیا اور راقم سمیت290 مظاہرین کو گرفتار کر لیا گیا۔ پولیس نے ہمیں وفاقی علاقے سے بے دخل کرنے کی کوشش کی لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ کی مداخلت پر یہ ارادہ ترک کیا گیا۔
تاہم ریاست کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور حکومت نے دراصل مظاہرین کو دہشت گرد وں کے حامی قرار دیا۔ یہاں تک کہ کچھ صحافی بھی لاپتہ افراد کے خلاف بدنیتی پر مبنی مہم چلانے میں مصروف ہیں۔
ایک اور اقدام: سابق نگراں صوبائی وزیر نے ایک درجن نامعلوم افراد کے ہمراہ اسلام آباد میں ایک کیمپ قائم کیا ہے اور ان کا خیال ہے کہ وہ بلوچستان میں سکیورٹی کے بگڑتے مسائل کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ لاپتہ افراد کے معاملے کو کمزور کرنے کیلئے اس نئے کیمپ کو پورے ملک میں میڈیا کی بھرپور توجہ مل رہی ہے۔
یہ غلط فہمی دور ہونی چاہیے کہ لاپتہ افراد کے اہل خانہ بلوچستان میں جاری بدامنی کے ذمہ دارہیں، نہ ہی وہ بیانیے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ریاست کو اپنے پیاروں کی رہائی کیلئے لوگوں کی پرامن جدوجہد کو سمجھنا چاہیے۔
حکومت ریلیوں اور میڈیا ٹاک کے ذریعے جدوجہد کو کمزور کرنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔ حکومت جبری گمشدگیوں کے نازک مسئلے کو حل کرنے کی بجائے ایسے افراد کے ذریعے دھرنے دے کر توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہی ہے، جن کا ریاستی مشینری سے کسی نہ کسی طرح گہرا تعلق موجود ہے۔
اگر ریاست لاپتہ افراد کی رہائی کے بنیادی مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ ہو جائے تو اسے نیا بیانیہ بنا کر وسائل اور توانائی ضائع نہیں کرنا پڑے گی۔
ان کی طرف سے مظاہرین کو اپنے بوڑھے والدین اور چھوٹے بچوں کے ساتھ سخت سرددرجہ حرارت میں سڑکوں پر رہنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
جو لوگ دھرنے کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور بلوچستان میں تشدد اور سکیورٹی کے بارے میں شکایت کر رہے ہیں، انہیں یہ سوالات مظاہرین کی بجائے ریاست اور اس کی ایجنسیوں کو بھیجنے چاہئیں۔ مظاہرین خود متاثرین ہیں، وہ نہ تو سٹیک ہولڈرز ہیں اور نہ ہی حکومت کا حصہ ہیں۔
(ترجمہ: حارث قدیر)