خبریں/تبصرے

ایک فیصد افراد 63 فیصد دولت کے مالک، 5 افراد کی فی گھنٹہ آمدن 14 ملین ڈالر

لاہور(جدوجہد رپورٹ) غیر سرکاری تنظیم آکسفیم کی تازہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں عدم مساوات مسلسل بڑھ رہی ہے۔ غریب مزید غربت میں دھنستے چلے جا رہے ہیں، جبکہ امیروں کی دولت میں مسلسل کئی گنا اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے پانچ امیر ترین افراد نے 2020میں اپنی دولت میں دوگنا سے زائد اضافہ دیکھا۔ برنارڈ آرنولٹ، جیف بیزوس، وارن بفیٹ، لیری ایلیسن اور ایلون مسک فی گھنٹہ14ملین ڈالر دولت کما رہے ہیں۔ دوسری طرف دنیا میں غربت تقریباً تین دہائیوں بعد پہلی بار بڑھی ہے۔ اس کے علاوہ غریب افراد مزید غربت میں دھنستے چلے جارہے ہیں۔

’الجزیرہ‘ کے مطابق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کورونا وبا کے بعد لاک ڈاؤن کی رکاٹوں اور یوکرین جنگ کے نتیجے میں سپلائی چین متاثر ہوئی اور2022میں دنیا کے بہت سے حصوں کو متاثر کرنے والی افراط زر نے دنیابھر میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو غربت میں دھکیلنے میں کردار ادا کیا۔

رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر کم از کم 1.7ارب محنت کشوں نے 2022میں اپنی اجرتوں کے مقابلے میں مہنگائی میں تیزی سے اضافہ دیکھا، جس کی وجہ سے خوراک خریدنے اور توانائی کے بل ادا کرنے کی ان کی صلاحیتیں محدود ہو گئیں۔

اس بحران کے نتیجے میں دوسری طرف دنیا کے امیر ترین لوگوں کی دولت میں مزید اور بہت تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

گزشتہ 10سالوں میں عالمی سطح پر پیدا ہونے والی نئی دولت کا نصف سے زیادہ حصہ انسانیت کے ایک فیصد امیر ترین افراد کی جیبوں میں چلا گیا ہے۔ تاہم صرف2020اور2021کے دوران اس شرح میں مزید تیزی آئی ہے۔ امیر ترین ایک فیصد نے نئی پیدا ہونے والی تمام دولت کا 63فیصد حاصل کیا، جبکہ 99فیصد آبادی کا عالمی آمدن میں حصہ صرف37فیصد ہی حاصل کر پائی ہے۔

رپورٹ کے مطابق عدم مساوات میں صنفی اور نسلی تعلق بھی موجود ہے۔ مردوں کے پاس خواتین کے مقابلے میں 105ہزار ارب ڈالر زیادہ دولت تھی، جبکہ امریکہ میں سیاہ فام خاندانوں کے پاس ایک عام سفید فام گھرانے کی دولت کا صرف15.8فیصد تھا۔

رپورٹ کے مطابق ارب پتیوں نے وبائی مرض سے بہت زیادہ فائدہ اٹھایا۔ امیر ملکوں نے اپنی معیشتوں میں خاندانوں اور ان لوگوں کی کفالت کے لئے پیسہ لگایا، جو ملازمتوں سے باہر تھے یا کم اجرت حاصل کرتے تھے، انہوں نے پہلے سے امیروں کے پاس موجود اثاثوں اور دولت کی قدر کو مزید بڑھا دیا۔

آکسفیم کے مطابق دنیا کے سب سے بڑے فوڈ اینڈ انرجی کارپوریشنز میں شیئرز رکھنے والے امیر لوگوں نے 2022میں ڈرامائی منافع کمایا۔

رپورٹ کے مطابق عدم مساوات کے فرق کو مزید آگے بڑھانے والے سب سے اہم عوامل میں سے ایک نئی پیدا ہونے والی دولت پر ترقی پسند ٹیکس کی عدم موجودگی تھی۔ کئی ملکوں میں امیر لوگ ایک دہائی پہلے کے مقابلے میں بہت کم ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ دنیا کے ارب پتی افراد میں سے نصف ایسے ملکوں میں رہتے ہیں، جہاں انہیں وراثت میں ملنے والی دولت پر کوئی ٹیکس ادا نہیں کرنا پڑتا، یعنی 5ہزار ارب ڈالر کی دولت ٹیکس سے پاک ہے۔

رپورٹ کے مطابق ان تمام عناصر نے دیکھا کہ دنیا کے ارب پتیوں کے پاس 2012میں 6ہزار ارب ڈالر کی مشترکہ ملکیت 2022میں تقریباً14ہزار ارب ڈالر تک جا پہنچی ہے۔

آکسفیم نے متنبہ کیا کہ چند لوگوں کے ہاتھوں میں دولت کا مسلسل جمع ہونا ملکوں کی اقتصادی ترقی میں تاخیر، سیاسی تقسیم اور شعبوں میں بدعنوانی کا باعث بن سکتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق یہ آب و ہوا کیلئے مزید آلودگی کا باعث بھی بن سکتا ہے، کیونکہ ارب پتی افراد فوسل فیول میں سرمایہ کاری کرنے کا زیادہ امکان رکھتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زیادہ ٹیکس اور مرتکز شدہ دولت کی دوبارہ تقسیم عدم مساوات کے فرق کو ختم کرنے کا ایک طریقہ ہے۔

بہت سے ملکوں میں امیروں کو حالیہ دہائیوں میں ان کی دولت پر کم ٹیکس لگا ہوا نظر آرہا ہے۔ سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ کم ٹیکس لگانے سے کارپوریشنز کو زیادہ ملازمین کی خدمات حاصل کرنے، زیادہ مزدوروں کے مقابلے اور اوسط اجرتوں میں اضافے کی اجازت ملے گی اور آکر کار زیادہ دولت کو عام شخص تک پہنچنے کی اجازت ملے گی۔

تاہم اس کے نتائج الٹ نظر آرہے ہیں اور امیر ترین افراد پر ٹیکس کی شرح بھی مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے۔ اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم (اوای سی ڈی) سے تعلق رکھنے والے ملکوں کے اعداد و شمار کے مطابق امیر ترین افراد پر ٹیکس کی اوسط شرح 1980میں 58فیصد تھی، جو اب کم ہو کر اس وقت42فیصد پر آگئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق ایلون مسلک نے 2014اور2018کے درمیان تقریباً3فیصد کی حقیقی ٹیکس کی شرح ادا کی ہے۔ متعدد رپورٹس نے یہ واضع کیا ہے کہ امریکہ میں امیر کارپوریشنوں کیلئے ٹیکس کتوتیوں نے عدم مساوات کی سطح کو مزید بڑھایا ہے۔

2017میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکیوں سے وعدہ کیا تھا کہ ان کا ٹیکس کٹوتی اور ملازمتوں کا قانون محنت کش طبقے کیلئے فوائد فراہم کرے گا۔ اس ایکٹ کا مقصد بڑی تنظیموں کیلئے کارپوریٹ ٹیکس کو 35فیصد سے کم کر کے تقریباً20فیصد کرنا ہے۔ ٹرمپ نے ٹیکس میں 1.5ملین ڈالر کی کٹوتی کی، جو کہ امریکی تاریخ کی سب سے بڑی کارپوریٹ ٹیکس کٹوتی ہے۔

تاہم ماہرین اقتصادیات ایمانوئل سیز اور گیبریل زوکمین نے اپنی تصنیف میں انکشاف کیا کہ 2018میں امریکہ کے 400امیر ترین خاندانوں نے اوسطاً23فیصد ٹیکس ادا کیا، جبکہ اسی سال غریب ترین گھرانوں نے 24.2فیصد کی شرح سے ٹیکس ادا کیا، جو امیر ترین لوگوں سے زیادہ ہے۔

رپورٹ میں آکسفیم نے کہا کہ سالانہ 5فیصد ویلتھ ٹیکس دنیا بھر میں انسانی بحرانوں سے نمٹنے کیلئے1.7ہزار ارب ڈالر جمع کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔ اس طرح موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ملکوں کی مدد کی جا سکتی ہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts