لاہور(جدوجہد رپورٹ) ہر سال کی طرح محنت کش خواتین کے عالم دن کے موقع پر 8مارچ کو رواں سال بھی پاکستان بھر میں مختلف پروگرامات کے ساتھ ساتھ عورت مارچ کے انعقاد کی تیاریاں بھی شروع ہو چکی ہیں۔
پاکستان بھر میں ترقی پسند کارکن خواتین اور دیگر پسماندہ کمیونٹیز کے حقوق کے مطالبات کیلئے احتجاج کرنے کیلئے کمر بستہ ہیں۔
’ڈان‘ نے کراچی، اسلام آباد اور لاہور میں عورت مارچ کے شیڈول اور منشور کی تفصیلات جاری کی ہیں، جو ذیل میں پیش کی جا رہی ہیں:
کراچی
کراچی میں فریئر ہال میں عورت احتجاجی میلہ اور مارچ کا انعقاد کیا جا رہا ہے، جو 2:30بجے شروع ہو گا۔ رواں سال اس مارچ کے کسی تھیم کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔
عورت مارچ کے کراچی ڈویژن نے اپنے منشور میں 6مطالبات درج کئے ہیں:
1)۔ سندھ حکومت سندھ ہوم بیسڈ ورکرز ایکٹ2018کو فوری طور پر نافذ کرے اور ہوم بیسٹ ورکرز کیلئے سوشل سکیورٹی، ہیلتھ اور ای او بی آئی فوائد مرتب کئے جائیں۔
2)۔ ریاستی حمایت یافتہ جبری مذہب کی تبدیلی جیسے گھناؤنے صنفی تشدد کو ختم کیا جائے، جس سے مذہبی اقلیتی برادریوں کی لڑکیوں اور خواتین کو گزرنا پڑتا ہے۔
3)۔ جمہوریت کو بحال کیا جائے اور غیر جمہوری اقدامات کا تدارک کیا جائے۔
4)۔ خواتین، ٹرانس جینڈر، خواجہ سرا اور نان بائنری لوگوں کیلئے سیف ہاؤسز اور ہاسٹلز قائم کئے جائیں، تاکہ وہ پدرانہ تشدد سے بچ سکیں، جس کا انہیں اکثر گھر میں نشانہ بنایا جاتا ہے۔ طلبہ اور تنخواہ دار پیشہ ور افراد کیلئے محفوظ ہاسٹلز کی سہولیات فراہم کی جائیں۔
5)۔ خواجہ سرا برادری کے خلاف نفرت انگیز مہم کو روکا جائے۔ ٹرانس جینڈر پرسنز (تحفظ حقوق) ایکٹ2018کو اصل شکل میں برقرار رکھا جائے۔ آن لائن بڑھتی ہوئی نفرت انگیز مہم کے خلاف کارروائی کی جائے اور پسماندہ کمیونٹی کے ارکان کو ڈرانے اور قتل کرنے کیلئے استعمال ہونے والے انتہائی تشدد کا راستہ روکا جائے۔
6)۔ بلوچ نسل کشی اور جبری گمشدگیوں کے خاتمے کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں تمام کارکنوں، صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کی سنسرشپ، نگرانی، اغواء اور قتل کا سلسلہ ختم کیا جائے۔
لاہور
لاہور میں عورت مارچ لاہور پریس کلب میں منعقد ہوگا اور دوپہر 2بجے شروع ہو گیا۔ اس سال کا تھیم سیاست، مزاحمت اور آزادی ہے۔
منتظمین نے یہ بھی درخواست کی ہے کہ مارچ میں شرکت کرنے والے لوگ سیاہ اور سرخ لباس پہنیں، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ امید اور غم ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔
انہوں نے اعلان کیا کہ ہم اپنے یقین اور استقامت کا اشارہ دینے کیلئے سرخ رنگ کا لباس پہنتے ہیں۔ ہم سیاہ لباس پہنتے ہیں کہ فلسطینیوں کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے، وہ بھوک سے مارے جا رہے ہیں، بلوچ اور پشتون خاندانوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا جا رہا ہے، تشدد کیا جا رہا ہے اور اس تشدد کو برداشت کرنے کیلئے جس کا مسلسل سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
انکا چارٹر مطالبہ کرتا ہے کہ فیمینسٹ لبریشن کے حصول کیلئے مزاحمت کی سیاست کے ذریعے پاکستان کے سیاسی، انتخابی اور حکمرانی کے نظام میں ٹھوس اور نظامی تبدیلیاں لائی جائیں۔
1)۔ انتخابی عمل میں اعتماد بحال کرنے کیلئے2024کے عام انتخابات کے حتمی نتائج کے اعلان میں شفافیت کو یقینی بنایا جائے۔ عوام کی قیادت میں سچائی اور مفاہمتی عمل سے کم کوئی چیز قابل قبول نہیں ہے۔
2)۔ تمام سیاسی جماعتیں عام نشستوں پر خواتین کی نامزدگی کے کم از کم 5فیصد کی شرط کو نافذ کریں اور اس ضرورت کو 30فیصد یا اس سے زیادہ کیا جائے، خواجہ سراؤں کیلئے کوٹہ متعارف کیا جائے۔ مساوی نظام کے ذریعے حکمرانی کی ہر سطح پر پسماندہ کمیونٹیز کی نمائندگی میں اضافہ کیا جائے، جو تمام جنسوں، طبقات، صلاحیتوں، ذاتوں اور عقائد کیلئے خودمختاری، وقار اور شمولیت کی ضمانت دیتے ہیں۔
3)۔ انتخابی سیاست کو تمام طبقات کی نمائندہ بنانے کیلئے سیاسی جماعتوں کے اندر شفافیت، اخراجات کی معقول حد اور حقیقی جمہوریت کو یقینی بنانے کیلئے مہم کے مالیاتی قوانین کو مضبوط کیا جائے۔
4)۔ تمام وفاقی اکائیوں کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان کیلئے وسائل کی منصفانہ تقسیم اور نمائندگی فراہم کی جائے۔ نچلی سطح پر سیاسی اختیارات کو منتقل کرنے کیلئے مقامی حکومتی اداروں کو ترجیح دی جائے اور مضبوط بنایا جائے۔
5)۔ خواجہ سرا برادری کے وقار اور راز داری کی خلاف ورزی کرنے والے تمام مجوزہ بلوں کو مسترد کیا جائے اور تمام نظاموں اور اداروں میں ادارہ جاتی غلط فہمی اور امتیازی سلوک کو ختم کرنے کیلئے وسائل مختص کئے جائیں۔
6)۔ ہتک عزت، بغاوت اور اختلافات کو جرم قرار دینے والے قوانین بشمول دفعہ144، جو کہ اسمبلی اور تقریر کے حق کی خلاف ورزی ہے، کو ختم کیا جائے۔
7)۔ طلبہ یونین کو بحال کیا جائے۔
8)۔ جبری گمشدگیوں کا خاتمہ کیا جائے، جبری طور پر لاپتہ کئے گئے تمام افراد کو رہا کیا جائے اور غیر قانونی طور پر لاپتہ ہونے والوں کو انصاف فراہم کرنے والی آزاد اور شفاف تحقیقات کے ذریعے احتساب یقینی بنایا جائے۔ ہم نسل کشی کے خلاف بلوچ مارچ اور لاپتہ افراد کے خاندانوں کی نمائندگی کرنے والی دیگر تحریکوں کو مطالبات کی حمایت کرتے ہیں۔
9)۔ ریاست نگرانی کے ایسے نظاموں کا خاتمہ کرے جو خواتین کی حفاظت کے بارے میں پدرانہ نظریہ کو برقرار رکھتے ہیں، اس کی بجائے پدرانہ تشدد سے متاثر ہونے والوں کی مدد کیلئے فنڈنگ کو ری ڈائریکٹ کیا جائے۔
10)۔ آئی ایم ایف کی لازمی، کفایت شعاری پر مبنی پالیسیوں کو ختم کیا جائے اور ضروری عوامی خدمات اور فلاحی اداروں کیلئے فنڈنگ بحال کی جائے۔
11)۔ یونیورسل پروٹیکشن اور رسمی اور غیر رسمی شعبوں میں کام کے معقول حالات اور اجرت کی ضمانت دینے والی ریگولرائزیشن کی جائے۔ بلامعاوضہ اور نگہداشت کے کام کی قدر اور پہچان بھی معیشت کے اٹوٹ انگ کے طور پرتسلیم کی جائے۔
12)۔ کمزور کمیونٹیز کیلئے آفات سے بچنے والے اقدامات کے ذریعے موسمیاتی موافقت کی امداد فراہم کی جائے۔ موسمیاتی آفات سے متاثرہ اور اندرونی طور پر بے گھر ہونے والوں کی بحالی کیلئے اقدامات کئے جائیں۔
اسلام آباد
عورت مارچ اسلام آباد دوپہر 2بجے دارالحکومت کے پریس کلب میں منعقد ہوگا اور اس کا موضوع مزاحمت اور امید ہے۔
ان کے مطالبات درج ذیل ہیں:
1)۔ جبری گمشدگیوں کا خاتمہ کیا جائے۔ ریاست مہرنگ بلوچ اور اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے والی دیگر بلوچ خواتین کی طرف سے اٹھائے گئے تمام مطالبات کو تسلیم اور پورا کرے۔ غیر قانونی طور پر حراست میں لئے گئے تمام بے گناہ قیدیوں کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔
2)۔ حکومت غزہ میں نسل کشی کی جنگ کے خاتمے کیلئے فعال کردار ادا کرے اور تمام بین الاقوامی اور سفارتی فورمز پر فلسطین کی آزادی کی وکالت کرے۔
3)۔ پدرانہ جرائم میں استثنیٰ کے کلچر کا خاتمہ کیا جائے۔ عدلیہ کو ایسے معاملات میں کم از کم وقت یعنی 6ماہ میں انصاف فراہم کرنا چاہیے۔
4)۔ سائبر کرائم سے نمٹنے کیلئے موثر قانون سازی کی جائے جو خواتین، اقلیتوں اور بچوں کو چوبیس گھنٹے خدمات فراہم کریں، تاکہ شکایت کا فوری جواب دیا جا سکے۔
5)۔ ماہواری کی مصنوعات تمام خواتین کیلئے قابل رسائی بنائی جائیں۔
6)۔ ریاست ملک کی مجموعی گھریلو پیداوار میں خواتین کی تولیدی مزدوری کے معاشی شراکت کو تسلیم کرے اور اسے شامل کرے۔
7)۔ تمام خواتین، معذور افراد، ٹرانس جینڈر کمیونٹی اور دیہی اور کم آمدنی والے طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کیلئے عالمگیر تعلیم اور صحت کی خدمات فراہم کی جائیں۔
8)۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو 2024میں خواتین امیدواروں کو عام انتخابات کے 5فیصد ٹکٹیں الاٹ کرنے میں ناکام سیاسی جماعتوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔
9)۔ ریاست مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے، انہیں باوقار زندگی کیلئے روزگار، تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال کے مساوی مواقع فراہم کئے جائیں۔
اس کے علاوہ پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کے مختلف اضلاع سمیت ملک کے دیگر مقامات پر بھی خواتین کے اجتماعات منعقد کئے جائیں گے۔