دنیا

یوکرائن جنگ کے دو سال

(نوٹ: طبقاتی جدوجہد کی 41ویں کانگریس کے سلسلہ میں عالمی صورتحال سے متعلق دستاویز’سوشلزم یا بربریت: عالمی صورتحال، پیش منظر اور لائحہ عمل‘ شائع کی گئی ہے۔ مذکورہ دستاویز کا ایک حصہ یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔)

2022ء میں شروع ہونے والی یوکرائن جنگ سامراجی کشیدگی کا مرکز (Epicenter) تھی۔ دو سال بعد آج یہ لڑائی تعطل کا شکار ہو چکی ہے۔ یوکرائنی دارالحکومت کیؤ پر قبضہ کرنے اور وہاں ایک کٹھ پتلی حکومت قائم کرنے کے ابتدائی منصوبے میں ناکامی کے بعد پیوٹن روس کی سرحد سے متصل یوکرائن کے 20 فیصد علاقے پر اپنی گرفت مضبوط کرنے میں مصروف ہے۔ یوکرائن کی مزاحمت، جو روسی پیش قدمی روکنے میں کامیاب رہی تھی، وقت گزرنے کے ساتھ اب کمزور پڑ رہی ہے اور زیلنسکی حکومت کی جانب سے بہت زیادہ تشہیر کردہ جوابی حملے میں بھی کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔

خوراک اور توانائی کی قیمتوں پر جنگ کے اثرات نیٹو کے اتحادیوں کے درمیان تناؤ کا باعث بن رہے تھے اور پہلے ہی یورپی حکومتیں کھلے عام یوکرائن پر (روس کے زیر قبضہ) علاقے سے دستبرداری اختیار کرنے اور تنازعہ ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہی تھیں۔ اب امریکہ، جسے مشرق وسطیٰ میں بحران پر قابو پانے کی کوشش کے لیے اپنی افواج اور وسائل کا رخ موڑنا پڑا ہے، کو یوکرائن کے لیے ساز و سامان کی فراہمی میں تعطل ڈالنا پڑ رہا ہے۔ یہ واضح ہو چکا ہے کہ مغربی سامراج کی پالیسی کا مقصد کبھی بھی یوکرائن کے ہاتھوں روس کی فوجی شکست نہیں تھا۔ کیونکہ اس سے پورے مشرقی یورپ میں عدم استحکام کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔ اس کی پالیسی روس کو کمزور کرنے پر مرکوز تھی تاکہ اسے سوویت یونین کے زمانے والے اپنے اثر و رسوخ کو بحال کرنے کے منصوبے میں آگے بڑھنے سے روکا جائے۔ کیونکہ اس صورت میں روس ایک سامراجی طاقت کے طور پر مستحکم ہو کر اپنا اثر و رسوخ خطے سے آگے یا باہر بڑھا سکتا ہے اور چین کے ساتھ مل کر عالمی توازن کو تبدیل کر سکتا ہے۔

یوکرائن میں صورتحال دن بدن نازک ہوتی جا رہی ہے۔ دسیوں ہزار متاثرین اور بے گھر افراد کے علاوہ ملک کے بنیادی ڈھانچے کا ایک اہم حصہ تباہ ہو چکا ہے۔ لاکھوں ملازمتیں ختم ہو چکی ہیں اور حکومت کی طرف سے محنت کشوں کے حقوق پر حملے بڑھ چکے ہیں۔ محاذ پر ناکامیوں اور عوام کی اکثریت کی مشکلات، جو کہ حکام اور اشرافیہ کی بدعنوانی اور مراعات کے بر عکس ہیں، کی وجہ سے زیلنسکی کی مزدور دشمن اور سامراج نواز حکومت کی ساکھ عوام کی نظروں میں گر رہی ہے۔

دوسری طرف جنگ اور اس کے جانی اور مالی نقصانات کے خلاف آبادی کے اہم حصوں کی تنقید کو خاموش کرنے کے لیے پیوٹن اور خطے میں اس کے اتحادیوں نے اپنے ملکوں میں انتہائی بنیادی جمہوری آزادیوں کو بھی ختم کر دیا ہے اور جبر بہت شدید ہو چکا ہے۔ جس نے تمام مخالف لیبر یونینوں اور سیاسی تنظیموں کو جلاوطنی یا زیر زمین جانے پر مجبور کر دیا ہے۔

اس تنازعے میں عالمی بائیں بازو کے ایک بڑے حصے کا کردار افسوسناک رہا ہے۔ ٹراٹسکی ازم کے دعویدار کئی رجحانات روایتی کیمپسٹ بائیں بازوکے ساتھ جا ملے ہیں اور مختلف قسم کے بھونڈے دلائل کی بنا پر روسی سامراج کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس نے نہ صرف روسی جارحیت کی مزاحمت کرنے والے یوکرائن کے محنت کش طبقے اور نوجوانوں بلکہ روس، بیلاروس اور دیگر مشرقی یورپی ممالک میں پیوٹن کی مخالفت اور اپنے یوکرائنی طبقاتی بہنوں بھائیوں کی حمایت کرنے والے محنت کشوں کے ساتھ بھی یکجہتی کو کمزور کیا ہے۔

بائیں بازو کی مٹھی بھر قوتوں نے ہی یوکرائن کے عوام کے حق خود ارادیت اور حق دفاع کی حمایت کی اور حملہ آور کا مسلح مقابلہ کرنے کی اصولی پالیسی اختیار کی۔ آئی ایس ایل اور ہماری تنظیم یوکرائنی سوشلسٹ لیگ نے اس پالیسی کو روسی فوج کے غیر مشروط انخلا، نیٹو کی تحلیل اور پورے مشرقی یورپ سے مغربی سامراج کے انخلا کے مطالبے کے ساتھ جوڑا ہے۔ مزید برآں ہم نے زیلنسکی حکومت سے آزادی اور اس پر تنقید کی پالیسی اختیار کی ہے اور مغربی سامراج پر اعتماد کرنے کے خلاف خبردار کیا ہے۔ اور ہم نے میدان میں موجود ہو کر ایسا کیا ہے۔ ہزاروں کلومیٹردور آرام دہ ماحول میں بیٹھ کر نہیں۔ ہم امن چاہتے ہیں۔ لیکن روس کے ساتھ الحاق کیے بغیر۔ اور ہم یوکرائن کے ان تمام علاقوں کے حق خود ارادیت کے لیے بھی کھڑے ہیں جو اس کا مطالبہ کریں۔ علاوہ ازیں ہم اس حق کے آزادانہ اور روسی اشرافیہ کے فوجی جبر کے بغیر استعمال کے ساتھ ہیں۔

اس پالیسی کی بنیاد لینن ازم کی تعلیمات ہیں جو لینن کی وفات کے 100 سال بعد بھی درست اور معقول ہیں۔ ہماری پالیسی تمام بورژوا کیمپوں اور کیمپسٹ قوتوں کے خلاف جدوجہد میں تمام ممالک، خواہ وہ سامراجی ہوں یا تابع، کے محنت کش طبقے اور نوجوانوں کے انقلابی فرائض پر مشتمل ہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts