خبریں/تبصرے

شام کی جنگ کے 12 سال مکمل: 6 لاکھ 10 ہزار ہلاکتیں ہو چکی ہیں

لاہور (جدوجہد رپورٹ) 12 سال قبل شام میں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے تھے اور ملکی حکومت اور صدر بشار الاسد کے خلاف احتجاج کا آغاز ہوا تھا۔ مظاہروں نے تیزی سے انقلابی نوعیت اختیار کرتے ہوئے حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ تاہم حکومت کی جانب سے پرتشدد رد عمل کے بعد یہ بغاوت ایک جنگ میں تبدیل ہو گئی۔ کئی بیرونی طاقتوں کو اس جنگ میں مداخلت کا موقع ملا اور لاکھوں افراد ہلاک اور بے گھر ہو گئے۔

’الجزیرہ‘ کے مطابق ورلڈ فوڈ پروگرام کا کہنا ہے کہ شام کی معیشت ابتر ہو چکی ہے اور 90 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ اقوام متحدہ نے گزشتہ سال تخمینہ لگایا تھا کہ ملک میں مارچ 2011ء سے اب تک 3 لاکھ 6 ہزار سے زائد شہری مارے جا چکے ہیں، جو آبادی کا تقریباً 1.5 فیصد بنتے ہیں۔ تاہم برطانیہ میں قائم جنگ پر نظر رکھنے والی تنظیم ’سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس‘ کا تخمینہ ہے کہ ہلاکتوں کی کل تعداد تقریباً 6 لاکھ 10 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔

رواں سال فروری میں شمال مغربی شام میں آنے والے زلزلوں سے پہلے اقوام متحدہ نے کہا تھا کہ 14.6 ملین شامی باشندوں کو انسانی امداد کی ضرورت ہے، جن میں سے 6.9 ملین افراد اندرونی طور پر بے گھر ہوئے ہیں اور 5.4 ملین سے زائد شامی پناہ گزین پڑوسی ملکوں میں بے گھری کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ہزاروں افراد نے جرمنی اور یورپی یونین کے دیگر حصوں کے ساتھ ساتھ مزید علاقوں بھی پناہ کی درخواست دی ہے۔

ملک میں تنازعہ کافی حد تک منجمد ہو چکا ہے، تاہم خاص طور پر شمال مغرب میں لڑائی وقفے وقفے سے جاری ہے۔

15 مارچ 2011ء کو ڈیرہ، دمشق اور حلب کی سڑکوں پر بڑی بدامنی پھوٹ پڑی تھی۔ مظاہرین جمہوری اصلاحات اور سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ یہ مظاہرے چند روز قبل ڈیرہ شہر میں نو عمر لڑکوں کے ایک گروپ کی گرفتاری اور تشدد کے خلاف بشار الاسد حکومت کی مذمت کیلئے شروع ہوئے تھے۔ تاہم حکومت کی طرف سے پرتشدد کریک ڈاؤن اور جبر کے بعد جولائی 2011ء میں فوج سے منحرف ہونے والوں نے آزاد شامی فوج (فری سیرین آرمی) کے قیام کا اعلان کیا۔ یہ فوج کے اندر ایک باغی گروپ تھا، جس کا بظاہر مقصد حکومت کا تختہ الٹنا تھا۔ اس اقدام نے بغاوت کو خانہ جنگی میں تبدیل کر دیا۔

احتجاج کا سلسلہ 2012ء تک جاری رہا اور 2013ء تک ملک بھر میں مختلف باغی گروپ ابھرے۔ اسی سال کے آخر میں عراق کے بڑے حصوں پر قبضے کرنے کے بعد شمالی اور مشرقی شام میں داعش (آئی ایس آئی ایس) بھی ابھری۔

شام میں متحرک قوتیں

شام میں طاقت کے حصول کیلئے متعدد اداکار متحرک ہیں۔ شامی حکومت کی بھاگ ڈور بشارالاسد کے پاس ہے، جو انہیں 2000ء میں وراثت میں اپنے والد حافظ الاسد سے ملی تھی۔ حافظ الاسد 1971ء سے اقتدار میں تھے۔

بشارالاسد پر مخالفین کے خلاف کریک ڈاؤن، اپنے لوگوں کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال اور ہزاروں کو قید اور تشدد کا نشانہ بانے کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں۔ تاہم شام میں مختلف دیگر گروہ بھی سرگرم ہیں، جن کی پشت پناہی مختلف علاقائی اور عالمی سامراجی طاقتوں کی جانب سے کی جا رہی ہے۔ بشارالاسد حکومت بھی تنہا نہیں ہے، اسے بھی روس، ایران سمیت دیگر طاقتوں کی حمایت حاصل رہی ہے۔

شام میں اس وقت 5 مختلف طاقتیں اور مسلح گروہ متحرک ہیں۔ فری سیرین آرمی (ایف ایس اے) یا سیرین نیشنل آرمی مسلح بریگیڈوں کا ایک ڈھیلا مجموعہ ہے، جو ترکی اور کئی خلیجی ملکوں کے حمایت یافتہ شہریوں کے ذریعے تشکیل دیا گیا ہے۔ دسمبر 2016ء میں حلب کی لڑائی کے بعد سے ایف ایس اے شمال مغربی شام میں ادلب کے محدود علاقوں پر کنٹرول سنبھالے ہوئے ہے۔

حیات تحریر الشام (ایچ ٹی ایس)، جو ماضی میں جہت فتح الشام اور جہت النصرہ کے نام سے پہچان رکھتا تھا۔ القاعدہ سے الحاق کے طور پر اس کا 2011ء میں بشار الاسد حکومت کے خلاف قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ تاہم جنوری 2017ء تک اس کا نام تدیل کر کے حیات تحریر الشام رکھا گیا اورکئی دوسرے گروہ اس میں ضم ہو گئے۔ اب یہ گروہ کسی تنظیم یا پارٹی کی پیروی کرنے سے انکار کرتا ہے۔

لبنان میں سیاسی قوت رکھنے والا شیعہ مسلح گروہ حزب اللہ بھی شام میں متحرک ہے۔ اس گروہ کو ایران کی حمایت حاصل ہے۔ یہ بشار الاسد کی افواج کی حمایت کیلئے شام میں منتقل ہوا اور فی الحال شام میں کسی علاقے پر اس کا اپنا کنٹرول نہیں ہے۔

کرد اور عرب ملیشیا کا اتحاد سیریئن ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) 2015ء میں قائم کیا گیا تھا۔ یہ زیادہ تر ’YPG‘ جنگجوؤں اور عرب، ترکمان اور آرمینیائی جنگجوؤں کے چھوٹے گروپوں پر مشتمل ہے۔ ترکی ’YPG‘ کو سمجھتا ہے کہ وہ ’PKK‘ کی توسیع ہے۔ پی کے کے نے ترک حکومت کے خلاف آزادی کیلئے مسلح مہم چلائی ہے، جس میں 1984ء سے اب تک 40 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

ایس ڈی ایف کے کنٹرول میں اہم شہر رقہ، قمشلی اور حسکیہ ہیں۔ داعش (آئی ایس آئی ایس) نے بھی 2014ء تک شام کے کچھ علاقوں پر قبضہ کیا اور خلافت کے قیام کا اعلان کر دیا تھا۔ مارچ 2019ء میں داعش کی خلافت کو تباہ کر دیا تھا تھا، لیکن اس کا دوبارہ ابھرنے کا امکان موجود ہے۔ 2014ء میں اپنی طاقت کے عروج پر اس نے عراق اور شام کے تقریباًایک تہائی حصے پر قبضہ کر لیا تھا۔

علاقائی اور عالمی سامراجی طاقتیں

شام میں مختلف علاقائیا ور عالمی سامراجی طاقتیں بھی اپنے اپنے مفادات اور مقاصد کے تحت مداخلت کر رہی ہیں۔

روس

روس نے شامی حکومت کی بھرپورحمایت کی ہے۔ بشارالاسد حکومت نے 2015ء میں، جب حزب اختلاف کی قوتیں دمشق کے قریب پہنچ رہی تھیں، روس سے فوجی مداخلت کی درخواست کی۔ روسی فوج نے حزب اختلاف کی پیش قدمی کو روکا۔ تاہم فضائی حملوں کی وجہ سے بڑی تعداد میں عام شہریوں کی ہلاکتوں، ہسپتالوں سمیت متعدد املاک کی تباہی کی صورت میں یہ پیش قدمی روکی گئی۔

روس اب بھی شام میں موجود ہے، اس کے کنٹرول میں فوجی اڈے ہیں اور ایک ایسی حکومت بھی ہے، جس کی بقا روس کے مرہون منت ہے۔

ترکی

روس کے علاوہ ترکی بھی شام میں ایک بڑا کردار رکھتا ہے۔ ترک صدر طیب اردگان شامی صدر بشارالاسد کے ساتھ قریبی تعلقات کے باوجود اپوزیشن کے اتحادی بنے اور ترکی حزب اختلاف کی شخصیات کا اڈہ بن گیا تھا۔

تاہم شام میں اس کی اہم فوجی مداخلتوں کا مقصد ترکی کی اپنی داخلی سلامتی کو لاحق خطرات دور کرنا قرار دیا جاتا رہا ہے۔ ترکی نے 2016ء میں داعش کو نشانہ بنایا۔ تاہم اس کے بعد اس کی توجہ ایس ڈی ایف اور وائے پی جی پر مرکوز ہے۔ ان کارروائیوں کے نتیجے میں ترکی نے سرحد کے ساتھ شمال مغربی شام کے بڑے حصوں کو قبضے میں لے لیا ہے۔ ترکی اور شام کی سرحد کے ساتھ ایک محفوظ زون بنانے کیلئے ایک اور آپریشن کی دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں۔

امریکہ

امریکہ نے ابتدائی طور پر شامی اپوزیشن کی حمایت کی، جس کا مقصد بشارالاسد حکومت کا تختہ الٹنا تھا۔ تاہم شہریوں پر حکومت کے کیمیائی ہتھیاروں کے حملے کو بہانہ بنا کر 2017ء میں کئے جانے والے میزائل حملے تک امریکہ نے شامی حکومت پرکوئی براۂ راست حملہ نہیں کیا۔

امریکہ کا اب بھی دعویٰ ہے کہ اس کا بنیادی مرکز داعش سے لڑنا رہا ہے۔ اتحاد ملکوں کے ساتھ ملکرامریکہ نے 2014ء سے شام میں داعش اور القاعدہ سے منسلک فورسز پر حملے شروع کر رکھے ہیں۔ امریکی افواج ایس ڈی ایف کے ساتھ شمال مشرقی شام میں گشت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ امریکی فوج ایس ڈی ایف کی حمایت کرتی ہے۔ امریکی فوج جنوبی شام میں التنف اڈے سے بھی کام کرتی ہے، جہاں اس نے اپوزیشن کے جنگجوؤں کو تربیت دی ہے۔

ایران

ایران طویل عرصے سے بشارالاسد کا اتحادی رہا ہے۔ احتجاج شروع ہوتے ہی شام میں ایرانی فوجی موجودگی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ لبنان، عراق اور افغانستان جیسے ملکوں کے ایرانی تربیت یافتہ جنگجو بھی شامل ہیں۔ یہ افواج شامی حکومت کی حمایت میں اہم کردار ادا کرتی رہی ہیں اور ان پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات بھی لگتے رہے ہیں۔

امریکہ ایران پر ایسے ملیشیا گروپوں کی پشت پناہی کا الزام بھی لگاتا ہے، جنہوں نے ایران میں امریکی افواج پر حملے کئے ہیں۔

جنگ کی تباہ کاریاں

اس جنگ کی وجہ سے شام کے کئی تاریخی شہر مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ حلف، مشرقی غوطہ، رقہ، پالمیرا، دیراز زور، ادلب جیسے بڑے شہر، نواحی قصبے اور دیہی علاقے بری طرح سے جنگ سے متاثر ہوئے ہیں۔ کئی شہروں کا 70سے80فیصد تک انفراسٹرکچر مکمل تباہ ہو چکا ہے۔

جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والے مصائب کو تباہ کن زلزلوں نے مزید بڑھا دیا ہے۔ شمال مغربی شام کے وسیع حصے کو زلزلوں نے تباہ کر دیا ہے۔ زلزلوں کی وجہ سے شام میں اب تک 7200 سے زائد افراد کی ہلاکتوں کی اطلاع ہے اور اس تعداد میں اضافے کی بھی توقع ہے۔

اس تباہی اور بربادی کے بعد اب بین الاقوامی برادری اور بیشتر عرب ملکوں کی طرف سے دوبارہ بشارالاسد حکومت کے ساتھ تعلقات کو بحال کیا جا رہا ہے۔ بہت سے عرب ملکوں نے اب یہ قبول کر لیا ہے کہ بشار الاسد اقتدار میں رہیں گے۔ شام کو اب عر ب لیگ میں بھی دوبارہ شامل کرنے کی بات کی جا رہی ہے۔

تاہم حکمرانوں کی اس اقتدار کی لڑائی اور سامراجی رسہ کشی نے ایک دہائی سے زائد عرصہ تک شام کے محنت کشوں اور عام عوام کی زندگیوں اور نسلوں کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts