پاکستان

بچہ ریڈیو سرکٹ نہیں بنا سکا اور ملک چاند پر پہنچ گیا

عامر رضا

چین کامشن چاند کے لیے روانہ ہو گیا اور جاتے جاتے شنگھائی یونیورسٹی کے تعاون سے بنایا ہوا پاکستانی انسی ٹیوٹ آف سپیس ٹیکنالوجی کا آئی کیوب کیو سیٹلائٹ بھی اپنے ساتھ لے گیا۔کچھ لوگ اس پر تنقید کر رہے ہیں اور کچھ تنقید کرنے والوں کے لتے رہے ہیں۔کچھ کے خیال میں یہ ایک جست ہے جو انسانیت نے پہلی بار بھری ہے،کچھ کے نزدیک یہ محض ایک ”ہوشیاری اور چالاکی“ہے جو کہ منگل پر جانے کی بھارت”شوخی“کے جواب میں کی گئی ہے۔

اب یہ کیا ہے اور کیا نہیں اس کا جواب تو سائنس اور ٹیکنالوجی کے ماہر ہی دے سکتے ہیں۔سائنس پر ہمارا علم میٹرک کی سائنس سے زیادہ نہیں اور ٹیکنالوجی کے نام پر اتنا کام ضرور کیا ہے کہ دو ٹرانسسٹر ز،کنڈینسرز اور ریزسٹنٹس لگا کر سرخ اور سبز رنگ کی ایل ای ڈی کو آٹو میٹک کر لیا یا پھر اردو بازار سے شائع ہونے والی کتابیں ”ریڈیو ٹرانسمیٹرخود بنانا سیکھیں“ یا پھر ”ریڈیو خود بنائیں“ لا کر ریڈیو ٹرانسمیٹر بنانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ نشریات کا شیڈول بھی بناتے رہے۔جب سرکٹ اپنے ابتدائی مراحل میں ہوتا تو یہ سوچتے کہ پہلی اناؤنسمنٹ کیا ہوگی۔جو الفاظ ذہن میں فوری آتے وہ یہ تھے ”میرے عزیز ہم وطنو“،یہ الفاظ اس لیے ذہن میں آتے کہ ریڈیو اور ٹی وی سکرینوں پر ایک شخص نمودار ہوتا تھا،جو یہ کہتا تھا اور محلے میں ریڈیو سننے والے اور گھر میں ٹی وی دیکھنے والے توجہ سے اس کی بات سنتے تھے۔ اس لیے یہی سوچتے تھے کہ اپنے بنائے ہوئے ریڈیو ٹرانسمیٹر سے جب ایسے الفاظ نشر ہوں گے تو لوگ ہماری طرف بھی متوجہ ہوں گے۔ ٹرانسمیٹر کی تیاری تک ایسے کئی الم غلم خیالات ہمارے ذہن میں پرورش پاتے رہتے۔ جیب خرچ کی صورت میں جمع شدہ سرمایہ لٹانے کے بعد اس نتیجے پر پہنچتے کہ ٹرانسمیٹر بنانا مشکل کام ہے۔ اس کے لیے کسی ماہر استاد کی نگرانی کی ضرورت ہے۔ایک ماہر استاد ڈھونڈا اس نے ملتے ہی ایک کہانی سنا دی کہ بیٹا شہر میں ایک غفار صاحب ہوتے تھے،انہوں نے ٹرانسمیٹر بنایا تھا۔رات کو کچھ جیپیں آئیں اور انہیں لے گئیں۔کہاں کسی کو کوئی پتہ نہیں۔اس کہانی کے بعد ٹرانسمیٹر کے خواب کے ساتھ دل میں خوف نے بھی گھر کر لیا۔بعد میں ایک اور کہانی پتہ چلی کہ غفار صاحب والی کہانی جھوٹ ہے کیونکہ استاد کو خود ٹرانسمیٹر بنانے کی استادی نہیں آتی، اس لیے اس نے ڈرانے کے لیے کہانی گھڑ دی۔پھر کسی نے بتایا کہ غفار صاحب تو لاہور ہوتے ہیں جو ریڈیو سرکٹ بنانے والی کتابیں لکھتے ہیں۔

وقت کے ساتھ ساتھ ریڈیو بنانے کو شوق ختم ہوا لیکن یہ ختم کیوں ہوا اس کی کئی ایک وجوہات ہو سکتی ہیں۔پہلی وجہ کسی ایسے ادارے کا نہ ہونا تھا جہاں ہم جا کر ٹیکنالوجی کی کوئی تربیت حاصل کرتے۔سکول میں ایسا کوئی طریقہ کار نہیں تھا کہ ہم ریڈیو بنانے کو ایک پراجیکٹ کے طور پر چنتے اور سکول ہمیں اس سلسلے میں کوئی بنیادی تھیوری پڑھاتا اور عملی تربیت دیتا۔دوست اور محلے کا ماحول ایسا نہیں تھا کہ سائنس کی کوئی بات کی جاتی۔میرے شہر میں سائنس پر کبھی کوئی عوامی سیمینار منعقد نہیں ہوا۔کوئی ایسا سنٹر نہیں تھا جہاں سائنس کے لوگ آتے اور لیکچرز دیتے،سکول میں انتظامیہ نے کبھی کسی سائنسدان کونہیں بلوایا کہ وہ بچوں کو سائنس پر کوئی لیکچر دے۔سائنس دان تو دور کی بات انہوں نے کبھی کسی شاعر اور ادیب کو بھی نہیں بلوایا۔گھر والے ہماری ایسی حرکات دیکھ کر کہتے تھے وقت ضائع کر رہے ہو پڑھائی کی طرف توجہ دو۔ آخری وجہ یہ بھی تھی کہ ٹی وی پر ”من چلے کا سودا“ دیکھنے سے یہ تاثر ذہن میں پیدا ہو گیا تھا کہ جہاں ایک ولی پہنچ سکتا ہے اور وہاں ایک سائنسدان نہیں اور سائنس کو تصوف کی دنیا کے سانچے میں ڈھال کر دیکھنا چاہیے۔

آج جب پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو کل ملا کر یہی پتہ چلتا ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کہیں خلا سے نازل نہیں ہوتے۔ یہ ایک طرز حیات ہے جو قومیں اور معاشرہ اپناتے ہیں اور اس طرز حیات سے سائنسدان اور ٹیکنالوجی کے ہنر مند پیدا ہوتے ہیں۔ایسے معاشرے جو سائنسی طرز فکر سے عاری ہوں،جو اپنی پستی کا حل سائنسی انداز فکر کی بجائے معجزے کے ذریعے تلاش کرتے ہوں،جو نظام اور اداروں کی بجائے شخصیات سے لو لگائے بیٹھے ہوں وہاں سائنس کیوں اور کیسے پروان چڑھے گی؟

محلے،شہر،سکول،کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر آپ اپنی زندگی میں ایسے کتنے لیکچرز گن سکتے ہیں جو خالص سائنس کی تھیوری پر دئیے گئے ہوں۔جس میں لوگ اپنے بچوں سمیت شریک ہوئے ہوں۔ایسے لیکچر کا انعقاد پاکستان میں عوامی سطح پر بہت کم ہوتا ہے۔سائنس ان معاشروں میں پروان چڑھتی ہے جو سائنس کو ایک طرز زندگی کے طور پر اپناتے ہیں۔ایسے معاشرے جہاں فزکس کے پروفیسرز 100 کے قریب ریسرچ پیپرز لکھنے کے بعد دل کی بیماریوں کے لیے وظائف کی افادیت پر سیمینار کروائیں وہاں سائنس کی ترقی کی توقع کیا رکھی جا سکتی ہے۔ ایسا معاشرہ جہاں پانی سے چلنے والی گاڑی کو بڑے بڑے ٹی وی اینکر ٹھیک مان لیں۔ٹی وی چینلزکسی اور مسلم ملک کے جنگجوؤں پر ڈرامے چلائیں اور سائنس فکشن بنانے کے قریب نہ جائیں،وہاں سائنس کا چلن کتنا ہوسکتا ہے۔اس سے پہلے سرکاری ٹی وی ”سائیں اور سائیکیٹرسٹ“ جیسے ڈرامے چلاتا رہا ہو جس میں نفسیات اور ڈارونزم کی مکمل نفی کی گئی ہو،وہاں سائنس کتنی ترقی کر سکتی ہے۔

جب صورتحال ایسی ہو تو پھر دوسرے ممالک کی یونیورسٹیوں کے تعاون سے مصنوعی سیارچے بنانے پڑتے ہیں کیونکہ اپنی یونیوسٹیاں تو اس قابل نہیں ہے کہ وہ ایسی افرادی قوت مہیا کر سکتیں۔ایک سوال ایچ ای سی سے بھی پوچھنا بنتا ہے کہ ہر سال کروڑوں روپے جو ریسریچ پراجیکٹس کے نام پر دئیے جاتے ہیں ان کا استعمال کہاں ہے اور کیسے ہے۔ابھی تک ایسی کتنی ریسریچ ایچ ای سی نے بیچی ہے یا پھر اس کا نفاذ پاکستان میں کر کے یہاں کے لوگوں کی زندگی کو بہتر کیا گیا ہے۔

ڈان کی رپورٹ کے مطابق پاکستان نے جو مصنوعی سیارہ بھیجا ہے اس میں دوحساس کیمرے لگائے گئے جو چاند کے ان گوشوں کو بے نقاب کریں گے جو اس سے پہلے سائنسدانوں سمیت شاعروں کو بھی نظر نہیں آئے۔حاسدین کہتے ہیں جی یہ وہی کیمرے ہیں جو کچھ حساس لوگ چند حساس لوگوں کی حساس حرکات کو ریکارڈ کرنے کے لیے لگاتے ہیں چونکہ کیمروں کی تعداد زیادہ ہو گئی تھی اس لیے ان میں سے دو اس مصنوعی سیارے میں لگا دئیے گئے۔چونکہ حساس کیمرے فضا میں پہنچ چکے ہیں اس لیے محتاط رہیے۔بقول شاعر

بستیوں پر حادثوں کی چاند ماری کے لئے
بڑھ رہے ہیں اوج کی جانب ستم گر اور بھی

Amir Raza
+ posts

.عامر رضا ڈرامہ نگار اور پروڈیوسر ہیں۔ مارکس سے خائف لوگ اور سیاست سنیما سماج کے مصنف ہیں.