عامر رضا
کہانی صرف اتنی ہے کہ غربت ،سود اور خاندانی پریشانیوں کے بوجھ میں ڈوبے ہوئے متھرا کے رہائشی مٹو کی بیس سال پرانی سائیکل اب اس کا مزید بوجھ نہیں اٹھا سکتی ۔ اس کی چین کسی جاتی ہے تو چین کور خراب ہو جاتا ہے ،چکا سیدھا کیا جاتا ہے تو سٹینڈ زمین پر رگڑ کھا کر چلنا دشوار کر دیتا ہے ۔سٹینڈ کپڑے کی کترن سے کیئرئیر کے ساتھ باندھا جاتا ہے تو بریک جواب دے دیتی ہے ،نتیجتا ً ایکسیڈنٹ ہو جاتا ہے تو ہینڈل سیدھا کرنا پڑ تا ہے ۔ اب اسے سائیکل سمجھیں یا پھر مٹو کی زندگی جو چل کم اور گھسٹ زیادہ رہی ہے ۔اس سب کے باوجود یہ سائیکل مٹو کی محبوبہ ہے جسے سجانے کی دھن بھی اس پہ سوار رہتی ہے جس کا اظہار وہ اس پر نئی گھنٹی لگوا کر کرتا ہے ۔
یہ رکتی ،چلتی اور گھسٹتی ہوئی سائیکل اسے روزانہ کسی نہ کسی طرح اس تعمیراتی جگہ پر پہنچا دیتی ہے جہاں وہ روزانہ اجرت پہ مزدوری کرتا ہے ۔ایک دن سڑک کنارے پڑی ہوئی سائیکل پر ایک ٹریکٹر ٹرالی چڑھ دوڑتی ہے ،سائیکل ٹوٹ جاتی ہے اور کام کی جگہ تک پہنچنے کی ٹرانسپورٹ کاسستا ذریعہ مٹو سے چھن جاتا ہے ۔تین سو روپے کی روزانہ اجرت میں سے ورک پلیس تک پہنچنے کے لیے رکشے کاچالیس روپے کا کرایہ اس کی استطاعت سے زیادہ ہے ۔چنانچہ ورک پلیس تک وہ پیدل جاتا اور واپس آتا ہے۔ دس سے بیس کلومیٹر کا سفر اس کی جسمانی صحت پر برے اثرات مرتب کرنے شروع کر دیتا ہے ۔رات کو جب وہ تھک کر بستر پر گرتا ہے تو نئی سائیکل کے خواب دیکھتا ہے جس پر اپنی بیوی کے ساتھ آوٹنگ پر نکلتا ہے اور بیٹی کی شادی کے منڈپ پر جاتا ہے ۔
سائیکل خریدنے کے لیے وہ قرض لینے کی کوشش کرتا ہے لیکن شرح سود زیادہ ہونے کے باعث لے نہیں پاتا ۔ ایک وقت کا کھانا چھوڑ کر وہ سائیکل کے پیسے اکٹھے کرنے کی کوشش کرتا ہے تو غذائی قلت کا شکار ہو جاتا ہے ۔بیٹی سے باپ کی حالت دیکھی نہیں جاتی وہ اپنی مزدوری باپ کو دے دیتی ہے کہ جو ’’سیڈ منی ‘‘کا کام کرتی ہے مٹو کم شر ح سود پر سائیکل خرید لیتا ہے اور وہ سائیکل آزادی کی رات اس سے چھین لی جاتی ہے ۔وہ پرچہ درج کروانے کی کوشش کرتا ہے تو پولیس آزادی کے جشن کی تقریبات کے انتظام میں مصروف ہے ۔
فلم میں مٹو کا کردار پرکاش جھا نے ادا کیا ہے جو خود ایک بڑے ڈائریکٹر ہیں جن کی فلمیں سیاست اور سماج کا پوسٹ مارٹم کرتی ہیں ۔فلم کے لکھاری اور ہدایات کار ایم غنی ہیں ۔ایم غنی کے اپنے والد نذر علی روازنہ اجرت کے مزدور تھے جو سائیکل پر ایسے ہی کام ڈھونڈتے رہتے تھے ،اسی کام کی تلاش میں وہ متھرا آ کر آباد ہو ئے ۔ غنی ایک سکول ڈراپ آوٹ جنہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت لکھنا پڑھنا اور فلم میکنگ سیکھی ۱۹۹۰ کی دہائی میں فلم میگزین ’’سکرین‘‘ میں شبانہ اعظمی پر لکھے گئے آرٹیکل کے باعث وہ کمیونسٹ پارٹی کے کلچرل ونگ ’’انڈین پیپلز تھیٹر ایسویسی ایشن‘‘ سے آگاہ ہوئے اور اس کی متھرا کی شاخ سے وابستہ ہو گئے ۔یہ وہ دور تھا جب رام مندر کی تعمیر کے لیے تحریک عروج پر تھی اور یہ نعرہ فضا میں گونج رہا تھا کہ ’’ یہ تو ایک جھانکی ہے متھرا کاشی باقی ہے ‘‘۔ انہوں نے مظفر نگر کے فسادات پر بننے والی ڈاکومنٹری فلم ’’مظفر نگر باقی ہے ‘‘ کی سینماٹوگرافی بھی کی ۔ ان کا طبقاتی شعور ان کے کام میں جھلکتا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔
مٹو کی سائیکل ’’تیزی سے ترقی کرتے ہوئے بھارت‘‘ اور ’’شائنگ انڈیا‘‘ کی وہ جھلک دکھاتی ہے جسے مکیش امبانی کے بیٹے کی شادی سے پہلے کی تقریبات کی چکا چوند نے دنیا سے چھپایا ہوا ہے ۔ فلم مزدور طبقے کے لیے ٹرانسپورٹ کے ایک بڑے مسٸلے کو بہت بہتر طور پر اجاگر کرتی ہے ۔ یہ مسٸلہ صرف بھارت کا نہیں ہے بلکہ پاکستان اور دنیا کے ہر ترقی پذیر ملک کا ہے ۔ بہتر ،سستی اور معیاری پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے باعث مزدور طبقہ جن مشکلات سے گزرتا ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے ۔اور سرکاریں اس طرف کوئی توجہ بھی نہیں دے رہی ہیں اور نہ ہی سرمایہ دار اس کو سنجیدگی سے لے رہا ہے ۔
شہروں میں بڑھتے ہوئے کرایوں نے مزدور طبقے کو اس بات پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ شہروں اور کام کی جگہوں سے دور مضافات میں جا کر آباد ہو جائیں ۔کام کی جگہ تک پہنچنے کے لیے انہیں ہر روز تگ و دو کرنی پڑتی ہے جو نہ صرف ان کی جیب پر بوجھ بنتی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کی جسمانی اور نفسیاتی صحت پر برے اثرات مرتب کرتے ہوئے ان کے کام کی استعداد کو پست کر دیتی ہے ۔اس کا نقصان صرف مزدور کو ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کا نقصان سرمایہ دار کو بھی ہوتا ہے کیونکہ مزدور کی استعداد کے کم ہونے کا نقصان کم پروڈکشن کی شکل میں نکلتا ہے ۔
آئی ایل او نے ٹرانسپورٹ کی سہولت کو بنیادی سہولت قرار دیا ہے جو دیگر شہری سہولتیں حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے ۔ناقص ٹرانسپورٹ کا نقصان مزدور طبقے کو صرف یہیں اٹھا نا نہیں پڑتا بلکہ اس کے خاندان کے لوگ بھی تعلیم صحت اور معیاری تفریح کی سہولتوں سے محروم ہو جاتے ہیں کیونکہ ایسی سہولتوں کا ارتکاز شہروں میں زیادہ جبکہ مضافات میں کم ہوتا ہے ۔
پاکستان میں چند ایک بڑے شہروں کو چھوڑ کر مزدور وں اور ورکنگ کلاس کے لیے کوئی ماس ٹرانسپورٹ کا منصوبہ نہیں بنایا گیا ۔دیہات سے شہروں میں مزدور ی کے لیے آنے والا مزدور پرائیویٹ ٹرانسپورٹرز کے رحم وکرم پر ہے ۔شہروں میں اشرافیہ نے علیحدگی کی الگ سے تحریک شروع کر رکھی ہے جس کے تحت وہ اپنے پوش علاقے غریبوں کے علاقوں سے الگ کئے جا رہے ہیں جہاں تک پہنچنے کے لیے سرکار انہیں انہی غریبوں کے ٹیکس سے بڑی بڑی ایکسپریس ویز بنا کر دی رہی ہے جن پر نان موٹررائیڈ سواریاں آ نہیں سکتیں ۔یہ بڑی بڑی سڑکیں اگرچہ ملک کی ترقی کے نام پر بنائی جا رہی ہیں لیکن ان کا بڑا مقصد اشرافیہ کو بہتر نقل و حمل مہیا کرنا اور پسے ہوئے طبقے کو مرکزی معاشی دھارے کے ہا شیے میں دھکیلنا ہے ۔ مسٸلہ تو یہ ہے کہ اگر مٹو نئی سائیکل لے بھی لے تو پھر بھی وہ دیش کے وکاس کے نام پر بنی ہوئی ایکسپریس وے پر اسے چلا نہیں پائے گا ۔