نقطہ نظر

بھنسالی کی ہیرا منڈی میں لاہور کا ’ماتم‘

عامر رضا
 
بھارتی ہدایت کار سنجے لیلا بھنسالی کی نیٹ فلکس سیریز ‘ ہیرا منڈی: دی ڈائمنڈ بازار’  کی تعریف اور تنقید دونوں جاری ہیں۔
 
اس فلم کی کہانی،اس کے کرداروں کی پرفارمنس، اس کی موسیقی،سکرین پلے کی تکنیک کے حوالے سے اس کی خوبیاں اور خامیاں، یہ سب اس مضمون کا موضوع نہیں ہے۔میں یہاں تقسیم سے پہلے والے اس لاہور کے بارے میں بات کروں گا، جوہندووں،سکھوں،مسلمانوں،انگریزوں،اینگلو انڈین نسل اور پارسیوں کے دلوں میں دھڑکتا تھا۔
 
 ”ہیرا منڈی“ میں جو شہر دکھایا گیا ہے وہ کس کا شہر ہے؟ اس کو کس کی نظر سے دکھایا گیا ہے؟سچ تو یہ ہے کہ مذکورہ فلم نے شہر کو ایک نئے انداز میں پیش کیا ہے۔
 
اگر تاریخی تناظر میں دیکھیں تو لاہور کو مختلف زاوئیوں اور عینکو ں سے دیکھا گیا ہے۔آزادی سے پہلے مستشرقین نے لاہور کو اسی عدسے سے دیکھا جس سے انہوں نے مشرق اور اس کے دیگر شہرو ں کو دیکھا ہے۔اس عدسے کے مطابق یہ شہر اپنی عمارات،طرز و تہذیب کے حوالے سے عیش و عشرت کے منبع ومراکز ہیں۔
 
 مشرقی شہر وں کی یہی منظر نگاری انگریزی ادب اور سفر ناموں میں بھی نظر آتی ہے۔جان ملٹن کی شہرہ آفاق نظم’پیراڈائیز لاسٹ‘ میں لاہور کا ذکر ملتا ہے۔تھامس میور کی نظم’لالہ رخ‘، جو1817 میں لکھی گئی، میں لاہور کا ذکر ملتا ہے۔مثنوی کا پلاٹ اورنگزیب کی بیٹی لالہ رخ  کے سفر کے گرد گھومتا ہے جو وہ دلی سے کشمیر تک شاہ ِ بخارا کے بیٹے سے شادی کی غرض سے کرتی ہے۔اس نظم کا اردو ترجمہ نذیر اکبر آبادی نے کیا ہے۔شہزادی کا قافلہ جب لاہور پہنچتا ہے تو لاہور کا بیان ان الفاظ میں کیا جاتا ہے:
 
”صبح ہوتے ہی کارواں روانہ ہوا اور لاہور پہنچ گیا، جہاں بے شمار یادگاریں اور مقابر،خانقاہیں اور مساجد اس امر کو ظاہر کرتی ہیں کہ موت کا عالم بھی ایک عالم مسرت ہے۔لالہ رخ کا متخیلہ بھی اس منظر نامے سے بہت متاثر ہوتا ہے اگر اس کے دل پر دوسرے محسوسات کا قبضہ پہلے سے نہ ہو چکا ہوتا“(صفحہ ۸۱)۔
 
 ”لاہور میں عروس شاہی کی آمد کا جشن نہایت اہتمام و شوق سے منایا گیا، اور جب لالہ رخ لاہور سے روانہ ہوئی تو شہر پناہ کے دروازے  تک دولت اور شرفا ئے شہر کے لڑکے اور لڑکیاں خوب صورت لباسوں میں دورویہ صف بستہ تھیں؛ان کے سروں پر سنہرے طشتوں میں چاندی اور سونے کے کٹے ہوئے پھول تھے اور جس گروہ کے پاس سے لالہ رخ کا محافظ گزرتا تھا، ان کی گردنوں کو جنبش ہوتی، طشت حرکت میں آجاتے اور سنہرے اور روپہلے پھول نچھاور کئے جاتے تھے،جنھیں لوگ چن لیتے تھے“(صفحہ ۸۲)۔
 
شہر کی رنگینی اور طرب و نشاط کا یہ امیج مستشرقین کی سوچ سے اخذ کیا گیا ہے۔ روسی مستشرق اینا سوورووا نے اپنی کتاب’لاہور ٹوپوفیلیا سپیس اینڈ پلیس‘ میں اس کا حوالہ دیا ہے۔
 
نوآبادیاتی دانشوروں نے لاہور کا جو نقشہ پیش کیا ہے وہ ان کی نوآباد کار نفسیات اور تعصبات کا عکاس ہے۔اس سلسلے میں رُڈیارڈ کپلنگ کا افسانہ’سٹی آف ڈریڈفل نائٹ‘ دیکھا جا سکتا ہے۔کہانی کا کوئی مرکزی پلاٹ نہیں ہے۔مون سون کی ایک گرم رات گرمی اور حبس سے بے حال کپلنگ اندرون لاہور کی طرف نکل جاتا ہے۔وہ لاہور کو ایک بھیانک جگہ سے تعبیر کرتا ہے۔وہ گلیوں میں سوئے ہوئے لوگوں کو مردوں سے تعبیر کرتا ہے، ایسی جگہ جو زرد کتوں اور چوہوں کا مسکن ہے، جہاں بدبودار ہوا کے جھونکے اس کا گلا گھونٹ دیتے ہیں۔
 
لاہور کا یہ امیج اس کی حقیقی خوبصورتی سے بہت دور ہے۔غیر منقسم ہندوستان کا لاہور حقیقی معنوں میں ایک عالمی سطح کا شہر تھا جہاں صنعت،تجارت،بنکاری اور کارپوریٹ فرمزاپنے عروج کی طرف مائل تھیں۔شہر کے افق پر مغلیہ،سکھ اور انگریزوں کی بنائی ہوئی بلند و بالا عمارتیں اپنے اپنے عہد کی کہانی بیان کرتے ہوئے اس شہر کو نیا آہنگ دیتی تھیں۔شہر کی آبادی ہندووں، سکھوں،مسلمانوں، پارسیوں، انگریزوں اور اینگلو انڈینز پر مشتمل تھی جس نے اس کے سیکولر تشخص کودیا ہوا تھا۔
 
ہندوو ں کی ایک اچھی خاصی تعداد لاہور کے اشرافیہ میں شامل تھی۔ اس کے علاوہ لاہور کے صنعتکار خاندانوں میں سکھ بھی شامل تھے جو اس شہر کی اشرافیہ کا حصہ تھے۔’لاہور ان دی ٹائم آف راج‘اِئین ٹالبوٹ اور ڈاکٹرطاہر کامران کا نو آبادیاتی لاہور پر اہم کام ہے۔اس کتاب کے مطابق لاہور کی مقامی اشرافیہ کو مغربی طرز زندگی کی اشیا ئے صرف کی فراہمی کے لیے انارکلی اور مالروڈ پر نئی طرز کے گروسری سٹورز بنائے گئے تھے۔ان میں سے زیادہ تر سٹورز پارسیوں کے تھے جو بمبئی سے لاہور ہجرت کر کے آئے تھے۔
 
1947 تک صورتحال یہ تھی کہ لاہور کی زمین کا صرف32 فیصد مسلمانوں کے پاس تھا۔186 فیکٹروں میں سے مسلمانوں کے پاس صرف 78  فیکٹریاں تھیں۔بنک کی سرمایہ کاری کا سو کروڑ غیر مسلمانوں کے پاس جبکہ صرف پچاس لاکھ مسلمانوں کے پاس تھا۔لاہور کے دو تہائی گھر اور دکانیں غیر مسلمانوں کے پاس تھیں۔اسی طرح تعلیم کے شعبہ میں 16غیر سرکاری کالجز میں سے صرف 3 مسلمانوں چلا رہے تھے،40غیر سرکاری سکولز میں سے صرف 13 سکول مسلمانوں کے زیر انتظام تھے۔
     
اس طرح کے صورتحال کے برعکس اگر ویب سیریز ’ہیرا منڈی‘ کا لاہور دیکھیں تو وہاں ایک عجیب تاثر ابھرتا ہے۔  لاہورایک ایسا شہر بنا کرپیش کیا گیا ہے جو اس شخص کے شعور کا حصہ کا جو تقسیم کے بعد پیدا ہوا ہے اور اس نے لاہور کو بالی ووڈ کے اس سٹریو ٹائپ امیج  کے عدسے سے دیکھا ہے جو لاہور اور خاص طور پر پاکستان کو دیکھنے لیے گھڑا گیا ہے۔
 
جہاں جہاں اس سیریز میں لاہور شہر ماسٹر شارٹس اور کلوز اپ میں کٹ ہوا ہے وہاں اسے صرف اور صرف مسلمانوں کے شہر کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
 
بازاروں میں روزنامہ’زمیندار‘ کے اشتہارات سے لیکر زیادہ تر دکانوں کے نام اور بیک گروانڈ میں نظر آنے والے اشتہارات کی زبان عموماََ اردو ہے۔گورمکھی اور دیوناگری بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ایک جگہ کلوز اپ میں ایک ایسا بورڈ بھی نظر آتا ہے جس پر نجومی عامل کا نام خواجہ حسن نظامی لکھا ہوا ہے۔خواجہ صاحب اردو کے بڑے ادیب اور صحافی تھے۔ان کے نام کو اس طرح پیش کرنا بہت نامناسب معلوم ہوتا ہے کیونکہ میڈیا کا ویژول انسان کے ذہنوں میں نقش ہو جاتا ہے اور پھر باقی کی تشریح وہ اسی کے مطابق کرتے ہیں۔
 
اسی طرح سیریز میں آزادی کی جدوجہد میں ہمیں صرف مسلمان ہی پیش پیش نظر آتے ہیں اور وہ بھی وہ مسلمان جو کہ کانگریس کی نمائندگی کر رہے ہیں۔اس وقت کا لاہور سیاسی طور پر بہت متحرک تھا۔ ہندووں، سکھوں اور مسلمانوں کی بہت سی سیاسی تحریکیں چل رہی تھیں۔لاہور آریہ سماج، برہمو سماج،اکالیوں،احرار،اور خاکسار کی تحریکوں کا گڑھ بنا ہوا تھا۔ان سب کو سیریز نے لاہور سے کاٹ کر الگ کر دیا۔ سیریز میں لاہور کو تقسیم سے پہلے کے pluralistic  شہروالے تشخص کو مسخ کر دیا ہے۔
 
 نوابوں اور ان کی پارٹیوں کا جو کلچر لاہور میں دکھایا گیا ہے وہ اس لاہور کا حصہ نہیں جو کہ غیر منقسم ہندوستان میں تھا۔ نوابوں کی پارٹیاں ان کا کلچر بالی ووڈ کے اس سٹریو ٹائپ امیجز کا شاخسانہ ہے جو بھارتی ریاست میں نوابوں کو دکھانے کے لیے تراشہ گیا تھا۔ یہ امیج اب اس قدرراسخ ہو چکا ہے کہ مسلمان نوابین خواہ وہ لاہور میں ہوں یا لکھنو میں ان کا ایک ہی کام رہ گیا ہے کہ وہ ناچوں اور طوائفوں کے پیچھے اپنا سارا کچھ نچھاور کرنے پر تیار ہو جائیں۔
 
ویسے میں کچھ کرداروں کے بارے میں یہ سوچتا رہا کہ اگر وہ کہانی میں نہ ہوتے تو کیا کہانی کو کوئی فرق پڑتا تھا۔مثال کے طور پر سیریز کے آغازمیں جس بیٹے کو بیچنے پر فساد کھڑا ہوتا ہے اس کا پوری کہانی میں کیا کردار تھا: صرف ایک مجرہ دیکھنا اور ماں سے ایک تھپڑ کھانا؟فریدین خان کا کہانی میں کیا کردار تھا اگر وہ نہ بھی ہوتا تو کہانی کو کیا فرق پڑتا تھا؟
Amir Raza
+ posts

.عامر رضا ڈرامہ نگار اور پروڈیوسر ہیں۔ مارکس سے خائف لوگ اور سیاست سنیما سماج کے مصنف ہیں.