لاہور(جدوجہد رپورٹ)پاکستان ریلوے مزید 22 ٹرینوں کے کمرشل آپریشن کی آؤٹ سورسنگ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ تاہم سابقہ تجربات کے مطابق ایک سرکردہ فرم کی مالی مشکلات کی وجہ سے ’بزنس ایکسپریس‘ کو چلانے میں ناکامی اس منصوبے کی کامیابی کے امکانات کے بارے میں خدشات پیدا کرتی ہے۔
‘ڈان’میں شائع رپورٹ کے مطابق ایک اور فرم نے انتظامی، مالی اور تکنیکی وجوہات کی بنا پر بہا الدین ذکریا ایکسپریس (ملتان-کراچی-ملتان) کو چلانا بند کر دیا ہے۔
تازہ ترین پیش رفت میں پاکستان ریلوے نے ٹرینوں کو آؤٹ سورس کرنے کے لیے ٹینڈرز دوبارہ جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے، یہ فیصلہ مطلوبہ بینچ مارک سے کم پیشکش کرنے والی محض تین کمپنیوں کی دلچسپی ظاہر کرنے کی صورت میں آیا ہے۔
محکمہ ریلوے نے پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (پیپرا) کے قواعد و ضوابط کی وجہ سے ان تینوں فرموں کے ساتھ آگے بڑھنا ناممکن ہے، اس کے نتیجے میں جلد ہی دوبارہ ٹینڈر جاری کیے جائیں گے۔
اس وقت پاکستان ریلوے 49 مسافر ٹرینیں چلا رہی ہے، جن میں سے 12 ٹرینوں کو پہلے سے ہی پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (پی پی پی) ماڈل کے تحت نجی کمپنیاں چلا رہی ہیں، ان میں سرسید ایکسپریس، قراقرم ایکسپریس، کراچی ایکسپریس، عوام ایکسپریس، گرین لائن اور پاک بزنس ایکسپریس شامل ہیں۔
پنجاب میں اس وقت ٹرین چلانے والی ایک نجی فرم کے ایک سینئر عہدیدار کا کہنا تھا کہ اس وقت حالات بہت سخت ہیں اور ان حالات میں ٹرین چلانا ایک مشکل کام بن گیا ہے، مزید کہا کہ سہولیات پر آنے والی لاگت میں اضافہ بھی اس کی بڑی وجہ ہے، جس سے منافع بھی کم ہو رہا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ ہم نے نیلامی کے جاری عمل میں حصہ نہیں لیا کیونکہ بینچ مارک بہت زیادہ ہے، اور ہم اس میں شرکت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
دریں اثنا، منصوبے کے تحت رواں برس سب سے زیادہ فروخت کو دیکھتے ہوئے ٹرینوں کی کل آمدن کا تخمینہ تین سالہ اوسط ٹکٹ کی فروخت کی بنیاد پر لگایا گیا ہے، اس کا مطلب ہے کہ اگر تین سالوں میں ٹرین کی کل کمائی 2 ارب روپے ہے تو بینچ مارک ممکنہ طور پر اس سے کافی زیادہ ہے، بینچ مارک میں وائی فائی، شکایت کے حل کا انتظام جیسی مزید سہولیات کی فراہمی کے پیش نظر ٹرینوں کے کرائے میں 10 فیصد ممکنہ اضافہ بھی شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو لوگ بینچ مارک قیمت سے زیادہ پیشکش کرتے ہیں وہ تجارتی طور پر ٹرینیں لے اور چلا سکتے ہیں، ٹھیکیدار پاکستان ریلوے کے متعدد اسٹیشنز سمیت 86 مقامات پر دستیاب سرکاری رابطہ ایپلی کیشن کے ذریعے ٹکٹ فروخت کرنے کے ذمہ دار ہیں، مزید برآں کنٹریکٹر کو اپنے ٹیکس گوشواروں، مالیاتی گوشواروں اور دیگر دستاویزات کی فراہمی کے لیے بھی پاکستان ریلوے کی جانب سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)کے ساتھ کاغذات بھی پاکستان ریلوے میں جمع کرانے ہوں گے۔
اس کے علاوہ، ٹھیکیدار کو اعلیٰ معیار کی کیٹرنگ خدمات بھی فراہم کرنی ہوں گی جس میں معیاری کھانا، مکمل تربیت یافتہ عملہ، برانڈڈ کھانے کی اشیا، خام مال، پانی کے ڈسپنسر، بستر وغیرہ کی فراہمی شامل ہے۔
اسی طرح، ٹھیکیدار صفائی کی معیاری سہولیات فراہم کرنے کے بھی ذمہ دار ہوں گے جس میں حفظان صحت سے متعلق صاف ستھرے ماحول، باوردی صفائی عملہ، صفائی، صابن ڈسپنسر، ٹشو پیپرز، ہینڈ ڈرائر، اور ٹرینوں کے اندرونی حصے کی خوبصورتی جیسی معیاری سہولیات شامل ہیں۔
اور سفر کے دوران جدید ترین انفوٹینمنٹ (اے سی کمپارٹمنٹس میں ایل سی ڈی اسکرینیں) اور سیکیورٹی سے متعلق خدمات بھی فراہم کریں گے۔دوسری طرف، پاکستان ریلوے اچھی حالت میں مسافر کوچز، انجن، تجربہ کار ڈرائیور اور اسسٹنٹ ڈرائیورز اور دیگر تکنیکی عملہ فراہم کرنے کا ذمہ دار ہوگا، جو سفر کے دوران اور ریلوے اسٹیشنوں پر ٹرین کے ہموار آپریشن کے لیے درکار ہے، پاکستان ریلوے کی جانب سے ٹھیکیداروں کو ٹرین کی روانگی/آمد کے وقت کو (صرف چند گھنٹے تک) ایڈجسٹ کرنے کی اجازت دینی ہوگی۔
ایک اور ریلوے ٹھیکیدار کا کہنا ہے کہ تین فرموں نے مبینہ طور پر پاکستان ریلوے کو اپنی تکنیکی اور مالیاتی تجاویز پیش کی ہیں، انہوں نے بینچ مارک سے کم پیشکش کی ہے، جس کے بعد پاکستان ریلوے نے ٹرینوں کے دوبارہ اشتہار جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ان کے مطابق، زیادہ تر پارٹیاں جس مسئلے کو محسوس کرتی ہیں وہ رابطہ ایپلی کیشن کے ذریعے زیادہ بینچ مارک اور ٹکٹوں کی فروخت ہے، اس فیصلے نے کاروباری افراد کی دلچسپی کو بری طرح متاثر کیا ہے، جو نہ تو رابطہ ایپلی کیشن کے ذریعے مسافروں کے نمبروں کا ڈیٹا شیئر کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی اعلیٰ معیار کو قبول کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ ریلوے حکام کو ایک ہفتے کی پیشگی ادائیگی اور دیگر مسائل بھی موجود ہیں، مزید کہا کہ بڑی ایکسپریس ٹرینوں کے لیے کمائی کا معیار 80 فیصد مسافروں کی گنجائش کے تناسب کے طور پر طے کیا گیا ہے، جبکہ اس کے برعکس کم مسافروں والی ٹرینوں کا بینچ مارک 60 سے 90 فیصد کے تناسب کے درمیان رکھا گیا ہے۔
دوسری جانب، پاکستان ریلوے کے چیف ایگزیکٹو آفیسر عامر علی بلوچ ٹرین آؤٹ سورسنگ پلان پر عمل درآمد کے حوالے سے پر امید نظر آتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اگر ٹھیکیدار مسافروں کی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہتے ہیں تو پاکستان ریلوے خود ہی ٹرینیں چلانے کو ترجیح دے گی۔
انہوں نے کہا کہ ہماری کمیٹی نے مشاہدہ کیا ہے کہ نیلامی میں حصہ لینے والی فرموں نے بہت کم تکنیکی اور مالیاتی تجاویز پیش کیں ہیں، لہذا اگر ہم ان کمپنیوں کے ساتھ جائیں تو کوئی مسابقت نہیں ہوگی، اس لیے ہم زیادہ سے زیادہ فرموں کو راغب کرنے کے لیے اشتہار جاری کریں گے۔
عامر علی بلوچ کا مزید کہنا تھا کہ بینچ مارک زیادہ نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ اگر نیلامی میں کچھ وقت تاخیر ہو جائے تو کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ ہم جن ٹرینوں کا اشتہار دینے جا رہے ہیں وہ اس وقت آسانی سے چل رہی ہیں۔