راولاکوٹ(حارث قدیر)جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن (جے کے این ایس ایف)کی رہنما عاصمہ بتول کو پیر کے روز عباسپور پولیس نے توہین مذہب کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے۔ این ایس ایف کے ڈپٹی چیف آرگنائزر ارسلان شانی کے خلاف بھی ہجیرہ تھانہ میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
عاصمہ بتول اور ارسلان شانی کے خلاف چند روز قبل ہجیرہ تھانہ میں درخواست دی گئی تھی۔ بعد ازاں عاصمہ بتول کے خلاف عباسپور تھانہ میں بھی درخواستیں دی گئیں۔ عباسپور پولیس نے بذریعہ خاندان پیر کے روز عاصمہ بتول کو پولیس اسٹیشن طلب کیا تھا کہ ان کے خلاف درخواست ہے۔ وہ پولیس اسٹیشن میں حاضر ہوں تو معاملہ افہام و تفہیم سے حل کر لیا جائے گا۔ تاہم عاصمہ بتول پیر کی صبح جب عباسپور پولیس اسٹیشن میں پہنچیں تو انہیں بتایا گیا کہ ان کے خلاف اتوار 25اگست کو مقدمہ درج کر لیا گیا تھا۔
عاصمہ بتول کے خلاف مولانا طاہر بشیر کی جانب سے درخواست پر زیر دفعات298/489P، 489 Oایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ تاہم ارسلان شانی کے خلاف خرم جاوید وغیرہ کی درخواست پر 21اگست کو زیر دفعات298/489Yایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ ارسلان شانی کی چند روز قبل ایک سرجری ہوئی ہے، جس کی وجہ سے تاحال وہ بیرون ریاست ہی موجود ہیں۔ ان کی گرفتاری تاحال نہیں ہوئی ہے۔
عاصمہ بتول اور ارسلان شانی کے خلاف یہ مقدمات ایک نظم سوشل میڈیا پر شیئر کرنے کی وجہ سے درج کئے گئے ہیں۔ مذکورہ نظم بھارتی شہر کلکتہ میں خاتون ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے بعد بھارت، پاکستان اور جموں کشمیر میں ہزاروں افراد نے شیئر کی۔ تاہم عاصمہ بتول اور ارسلان شانی کے خلاف پہلے اس نظم کو شیئر کرنے کی وجہ سے سوشل میڈیا پر مہم چلائی گئی۔ کچھ دن بعد پھر درخواستیں دے کر مقدمات درج کر وا لئے گئے۔
یاد رہے کہ عاصمہ بتول اور ارسلان شانی حالیہ عوامی حقوق تحریک کے متحرک کردار رہے ہیں۔ ارسلان شانی کو ہجیرہ سے گرفتار کیا گیا تھا اور وہ دیگر ساتھیوں کے ہمراہ کئی روز پولیس کی حراست میں رہے ہیں۔ عاصمہ بتول اور ان کی بہنوں نے بھی تحریک میں ہر اول کردار ادا کیا ہے۔ نہ صرف وہ ہجیرہ اور عباسپور کے احتجاجی دھرنوں میں خواتین کی بھرپور نمائندگی کرتی رہی ہیں،بلکہ انہوں نے خواتین کے احتجاجی مظاہرے منظم کرنے میں بھی کلیدی کردارا دا کیا۔ عاصمہ بتول ان چند خواتین میں شامل تھیں، جنہوں نے مظفرآباد لانگ مارچ میں حصہ لیا اور مظفرآباد تک مارچ کے شرکاء کے ساتھ گئیں۔
وکلاء کا کہنا ہے کہ شاعری پر توہین مذہب کا مقدمہ نہیں قائم کیا جا سکتا۔ اس کے علاوہ کو دفعات لگائی گئی ہیں اور جس طرح اس نظم کے الفاظ کی من پسند تشریح کی گئی ہے وہ سراسر خلاف قانون ہے۔ شاعری لکھنے والے کے خلاف کارروائی سے قبل وہ شاعری شئیر کرنے والے کے خلاف کارروائی کسی خاص ایجنڈے کی وجہ سے ہے۔ اس کے علاوہ نظم شئیر کرنے والے ہزاروں افراد میں سے محض دو افراد کو ٹارگٹ کرنے بھی معنی خیز ہے۔
مظفرآباد لانگ مارچ کے بعدریاست کی جانب سے ایک منظم انداز میں مذہب کو استعمال کر کے تحریک کے تمام محترک کرداروں کے خلاف ایک منظم پروپیگنڈہ کیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر خصوصی پیجز اور آئی ڈیز بنائی گئیں، جن کے ذریعے سے ترقی پسند اور قوم پرست تنظیموں اور رہنماؤں کے خلاف منظم مہم چلائی جا رہی ہے۔
عاصمہ بتول کی گرفتاری کی جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن سمیت تمام ترقی پسند اور قوم پرست تنظیمیں بھرپور مذمت کر رہی ہیں۔ اندرون و بیرون ملک عاصمہ بتول کی رہائی کا مطالبہ کیا جارہا ہے اور ارسلان شانی کے خلاف مقدمہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
پاکستانی زیر انتظام گلگت بلتستان اور جموں کشمیر سمیت پاکستان کے چاروں صوبوں میں ترقی پسند کارکنوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے مطالبہ کیا ہے کہ سیاسی کارکنوں کو اس طرح سے انتقام کا نشانہ بنانے کا سلسلہ ترک کیا جائے اور توہین مذہب کے نام پر سیاسی کارکنوں کے خلاف درج تمام مقدمات خارج کئے جائیں۔