لاہور (جدوجہد رپورٹ) فلسطینی سکیورٹی فورسز نے بدھ کے روز مقبوضہ مغربی کنارے میں ایک مبینہ عسکریت پسند کی آخری رسومات میں شریک ہزاروں افراد پر آنسو گیس کی شیلنگ کی۔ یہ ایک غیر معمولی واقعہ تھا، جس نے فلسطینی حکومت کے خلاف عوامی عدم اطمینان کو اجاگر کیا۔
’اے پی‘ کے مطابق ہزاروں فلسطینی شمالی مغربی کنارے کے شہر نابلس میں اسرائیلی حملے میں ہلاک ہونے والے 49 سالہ حماس کے عسکریت پسند عبدالفتاح خروشہ کی آخری رسومات کیلئے جمع ہوئے تھے۔ عبدالفتاح پر قریبی قصبے حوارہ میں دو اسرائیلی بھائیوں کو قتل کرنے کا الزام تھا۔
جنین پناہ گزین کیمپ پر اسرائیلی فورسز کا یہ تازہ خونریز حملہ تھا، جس میں 5 دیگر فلسطینی شہری ہلاک اور دو درجن سے زائد زخمی ہوئے۔
نابلس میں بدھ کے روز جنازے کا جلوس اس وقت افراتفری کا شکار ہو گیا، جب سوگواروں نے فلسطینی اتھارٹی کے خلاف نعرے بازی شروع کر دی۔ یہ اتھارٹی مغربی کنارے کے کچھ حصوں میں محدود خودمختار حکومت کے طور پر کام کرتی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کا اسرائیل کے ساتھ سکیورٹی تعاون اسرائیلی فورسز کو اتھارٹی کے حریف عسکریت پسند گروپ حماس کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
ہجوم میں شامل فلسطینیوں نے فلسطینی فورسز کے خلاف ’غدار‘ اور ’جاسوس‘ کے نعرے لگائے۔ فلسطینی سکیورٹی کے ترجمان نے اس تصادم کا الزام حماس کے حامی گروپ پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ اس گروپ نے جنازے کے اجتماع کو فلسطینی اتھارٹی کے خلاف احتجاج میں تبدیل کیا، بجائے اس کے کہ وہ اسرائیلی قبضے پر لعنت بھیجتے، جس نے ہمارے لوگوں کے خلاف جرائم کئے ہیں۔
سکیورٹی فورسز نے ہجوم پر آنسو گیس کی شیلنگ کی اور ہجوم کو منتشر کر کے عبدالفتاح کی لاش کو ایمبولینس تک پہنچا دیا۔ فورسز نے حماس کے جھنڈے اٹھانے سے بھی مظاہرین کو روکا اور عبدالفتاح کے تابوت کے ساتھ لپٹا ہوا حماس کا جھنڈا بھی اتار دیا گیا۔
واضح رہے کہ فلسطینی اتھارٹی حماس کی سخت حریف ہے۔ حماس نے 2007ء میں صدر محمود عباس کی افواج سے غزہ کی پٹی کا کنٹرول چھین لیا تھا۔ مفاہمت کی کوششیں کئی بار ناکام ہو چکی ہیں۔
جنازے کے مناظر نے پورے فلسطینی معاشرے کی طرف سے مذمت کو جنم دیا۔ حماس نے بھی خاص طور پر اپنے ہی لوگوں کے خلاف فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے طاقت کے استعمال کی مذمت کرنے کے موقع سے فائدہ اٹھایا۔
الفتح نے بھی حماس پر غداری اور جھگڑے پیدا کرنے کا الزام عائد کیا اور کہا کہ جس جنازے کا آغاز فوجی سلامی کے ساتھ ہوا تھا، اسے متحد کرنے کا موقع ہونا چاہیے تھا۔
واضح رہے کہ یہ لڑائی مغربی کنارے میں بڑھتے ہوئے تشدد کے وقت سامنے آئی ہے، جہاں فلسطینی اتھارٹی سے مایوس بہت سے نوجوان اسرائیل کے کھلے عام قبضے کے خلاف ہتھیار اٹھا رہے ہیں۔ نئے مسلح گروپوں کی حمایت میں اضافہ ہورہا ہے، جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ کسی فلسطینی جماعت سے تعلق نہیں رکھتے۔ اسرائیل ار امریکہ کے دباؤ کے تحت فلسطینی اتھارٹی نے نوخیز ملیشیاؤں پر لگام ڈالنے کی کوشش کی ہے، لیکن عوام کے مزید بھڑکنے کا خطرہ ہے۔
یاد رہے کہ رواں سال اب تک اسرائیلی فوجی چھاپوں میں کم از کم 70 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے نصف مبینہ طور پر عسکریت پسند تھے۔ اسرائیلیوں کے خلاف فلسطینیوں کے حملوں میں بھی 14 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں ایک کے سوا تمام شہری تھے۔
مغربی کنارے میں بھی فلسطینیوں کے خلاف آباد کاروں کے تشدد میں اضافہ ہوا ہے، گزشتہ ماہ 2 اسرائیلی بھائیوں کے قتل کے بعد حوارہ پر ہجوم کے حملے کے نتیجے میں اسرائیلی آبادکاروں نے درجنوں گھروں، کاروباری اداروں اور کاروں کو نذر آتش کیا اور فلسطینیوں پر حملہ کیا، جس سے ایک شخص ہلاک اور کئی زخمی ہوئے۔
جنوب مغربی کنارے کے شہر ہیبرون میں ممتاز فلسطینی کارکن عیسیٰ عمرو نے بتایا کہ اسرائیلی آباد کاروں نے ان کے گھر پر حملہ کیا، شراب کی بوتلیں پھینکیں، ان کے گھر کے عقب میں گھس کے کرسیاں اور میزیں الٹ دیں۔ اس واقعے کی ایک ویڈیو میں اسرائیلی فوجیوں کو ابتدائی طور پر وہاں کھڑے اور آباد کاروں کو گھر پر پتھراؤ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔