خبریں/تبصرے

کیا یوکرین ایک نازی ملک ہے: کویتا کرشنن کا سی پی ایم کے رہنما کو جواب

مندرجہ ذیل تحریر معروف ہندوستانی مارکس وادی رہنما کویتا کرشنن کی فیس بک پوسٹ کا اردو ترجمہ ہے،جو گذشتہ روز ان کی فیس بک وال پر شائع ہوئی۔

سی پی ایم کے بپا سنہا نے کہا کہ ’یوکرین نازی ملک ہے‘ اور ’میدان2014‘ دراصل امریکی حمایت یافتہ نازی بغاوت تھی۔
اس معاملے پر یہاں ہم ماضی کا مختصر تجزیہ کرتے ہیں:

بھارت کے برعکس یوکرین میں کسی بھی رہنما کو اقتدار کی دوسری مدت صدارت نہیں مل سکی، اور زیلنسکی سمیت کسی بھی رہنما نے ’بھکتی‘ ہونے کا لطف نہیں اٹھایا۔

یوکرین میں کسی بھی فاشسٹ پارٹی یا دھڑے نے پارلیمانی انتخابات میں 5فیصد ووٹ نہیں ملے(جو پارلیمان میں جانے کے لئے ضروری ہے: مترجم)، ماسوائے اس کے کہ جب [ماسکو نواز سابق صدر]یانوکووچ نے فاشسٹ پارٹی کو مدد دی (مستقبل کے ٹرمپسٹ پال مانافورٹ کی مداخلت سے یہ مدد کی گئی) اور اس فاشسٹ پارٹی نے اچانک 2سیٹوں سے 34سیٹیں حاصل کر لی تھیں (مستقبل کے ٹرمپ وادی ’پال مانافورٹ‘ کی مداخلت سے یہ مدد کی گئی)۔

تاہم 2014کی میدان تحریک کے بعد یانوکووچ نے یورپی یونین کے ساتھ اقتصادی معاہدے کے فیصلے کو اچانک پلٹ دیا۔ اس عمل کے خلاف احتجاج کو کچلنے کے لیے پولیس کے ذریعے بڑے پیمانے پر قتل عام کروایاگیا، کیف میں 100سے زائد مظاہرین ہلاک ہوئے۔ اس کے بعد ابھرنے والی احتجاجی تحریک نے یانوکووچ کو اپنی حکومت کے اندر بھی تنہا کر دیا اور وہ ماسکو فرار ہونے پر مجبور ہو گئے۔

یانوکووچ 2004میں سبکدوش ہونے والی اس حکومت کے امیدوار تھے جس نے صدارتی محل کی ملی بھگت سے ایک صحافی کو قتل کر دیا تھا۔ انتخابات کے دوران یانوکووچ نے اپنے حریف امیدوار کو زہر دے دیا اور اس کا چہرہ تاحیات مفلوج ہو گیا۔ یانوکووچ نے انتخابات میں دھاندلی کی اور جیت کا اعلان کیا، لیکن سپریم کورٹ نے دھاندلی قرار دے کر ان کے مخالف امیدوار کو فاتح قرار دے دیا۔

یانوکووچ کو میدان2014کے بعد معزول کر دیا گیا۔ وہ یوکرین کے سب سے بدعنوان، پرتشدد اور فسطائیت کو فروغ دینے والے حکمران تھے۔ یہ بہت ہی خوفناک امر ہے کہ بائیں بازو کا کوئی کارکن ان یوکرینیوں کی مذمت کرے جو اپنی حکومت کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔

حکومت کی تبدیلی

یوکرین کے باشندوں نے اپنی آزادی کے بعد سے یوکرین کو بیلاروس یا قازقستان نہیں بننے دیا اور ایسی کسی بھی کوشش کے خلاف مزاحمت کی (ان دونوں ملکوں میں 1994سے لے کر آج تک پیوٹن کی کٹھ پتلی حکومتیں ہیں، جہاں اپوزیشن رہنماؤں اور صحافیوں کو زہر دے کر قتل کیا گیا اور احتجاج کو روسی فوجوں کی مدد سے کچلا گیا ہے)۔

پیوٹن کا صرف ایک ہی مقصد ہے اور اس کا وہ کئی بار کھلے عام اعلان بھی کر چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یوکرین کا کوئی وجود نہیں، یوکرین کو روس کے طور پر شناخت کرنا چاہیے، یوکرین میں جمہوریت نہیں ہونی چاہیے اوروہاں ایسا رہنما ہونا چاہیے جو پیوٹن کے لیے قابل قبول ہو۔

(امریکی اکیڈیمک)میئر ش یائمرایک رئیل اسٹ ہیں، جنہیں بھارتی بایاں بازو اس لیے بھی پسند کرتا ہے کہ وہ روس کی جنگ کے لیے نیٹو اور امریکہ کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔انہوں نے واضح طور پر کہا کہ پیوٹن نے ’امن‘کے لئے کیف میں حکومت کی تبدیلی کا مطالبہ کیاہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک جمہوری یوکرین’روس کے لیے ایک وجودی خطرہ‘ ہے، اور اسی لیے یوکرین کو بیلا روس یا قازقستان جیسا ہونا چاہیے۔

سادہ سوال یہ ہے کہ کیا بیلا روس یا قازقستان کے لوگوں کو حکومت کی تبدیلی کا حق ہے؟ روسیوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ سی پی آئی ایم کی منظوری کے لیے صرف ایک حکومت اور ایک آدمی کو اقتدار میں کیوں برقرار رہنا چاہیے؟

یوکرین میں ہمیشہ سے باقاعدہ انتخابات ہوتے رہے ہیں۔ ’میدان2014‘ کے بعد کے ایک الیکشن میں یانوکووچ کے فعال کردہ فاشسٹ گروہ کی طاقت آدھی رہ گئی تھی۔ پھر اگلے الیکشن میں وہ تقریباً صفرپر چلے گئے۔

یقینا یوکرین بھی بھارت کی طرح ایک ایسی جمہوریت ہے جو اکثر بدعنوان، جھگڑالو، نسلی اور لسانی تناؤ، اور انتہائی دائیں بازو کی قوتوں میں جکڑی رہی ہے(جن میں سے کچھ روس اور خاص طور پر ڈوگین سے بھی وابستہ ہیں)۔

تاہم آج بھارت میں فاشسٹ اقتدار میں ہیں۔ کیا اس سے بھارتیوں کو ایک قوم کے طور پر فاشسٹ قرار دے دینا چاہیے اور وہ یکجہتی کے حق دار نہیں ہیں؟

Roznama Jeddojehad
+ posts