دنیا

ٹرمپ کارڈ اور ’بد رنگی کے سریں‘

ساجد نعیم

حالیہ امریکی انتخابات کے بعد امریکہ میں عنان حکومت سنبھالنے والے ڈونلڈ ٹرمپ اگرچہ دوسری مرتبہ حکومت میں آئے ہیں،لیکن دوسرا دور شاید نہیں بلکہ یقینا ٹرمپ کے پہلے دور سے بہت زیادہ مختلف ہونے جا رہا ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ان انتخابات میں جس فیصلہ کن انداز میں اس ریپبلکن امیدوار کو برتری ملی ہے اس سے اس کے اعتماد کا پیمانہ پہلے سے کہیں زیادہ اوپر گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مسٹر ٹرمپ کے گرد فیصلہ کن پوزیشنوں پر امریکہ ہی نہیں بلکہ دنیا کے امیر ترین لوگ موجود ہیں۔ اس دور کا کمال یہ ہے اور ہو گا کہ یہ لوگ بشمول مسٹر ٹرمپ نہ صرف امریکہ بلکہ ساری دنیا کو ایک نئے اور انوکھے انداز میں چلانا چاہ رہے ہیں۔ کلاسیکی سرمایہ داری کے بر عکس اس نوزائیدہ سرمایہ دارانہ دھڑے کے خیال میں دنیا کا تمام تر نظم و نسق یا تو کاروباری لین دین ہے یا پھر تاش کا کھیل۔

گزشتہ جمعہ کو ٹرمپ، جے ڈی وانس (امریکی نائب صدر) اور یوکرین کے صدر زیلنسکی کے درمیان ساری دنیا کے سامنے جو ڈرامہ لگا اس میں بھی ٹرمپ زیلینسکی سے کہہ رہے تھا کہ تمہارے پاس کارڈز یعنی پتے نہیں اس لیے تمہاری کوئی حیثیت نہیں کہ تم ہمیں ڈکٹیٹ کرو کہ ہم کیا محسوس کریں گے۔ خود ٹرمپ کو اپنے بارے میں یقین کامل ہے کہ ان کے پاس پتے ہیں،لہٰذا وہ اپنی مرضی کا کھیل کھیلنے میں آزاد ہیں۔ صحافتی ذرائع کے مطابق اس میٹنگ میں آنے سے قبل جب داخلی راستے پر ٹرمپ نے زیلنسکی کا استقبال کیا تو تمام تر سفارتکارانہ تکلفات کو با لائے طاق رکھتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے زیلنسکی کے لباس پر پھبتی کس ڈالی۔ وجہ بہت سادہ تھی۔ ٹرمپ کے پاس پتے ہیں اس لیے وہ کھیل سکتے ہیں، جس طرح ان کا جی چاہے۔

درحقیقت امریکہ جیسے انتہائی اہم ملک میں ٹرمپ جیسے فرد کا دوبارہ اقتدار میں آنا سرمایہ داری کے انتہائی گہرے بحران کی عکاسی ہے۔ کلاسیکی سرمایہ داری کے پاس بھی جو بائیڈن ہی نمائیدگی کے لیے بچے تھے اور پہلے ہی ٹی وی مباحثہ میں یہ ثابت ہو گیا تھا کہ موصوف مہلک حد تک ذہنی طور پر مفلوج ہو چکے ہیں۔ یوں انہیں انتخابات کی دوڑ سے ہی باہر ہونا پڑا۔ ٹرمپ کی کامیابی میں یہ فیصلہ کن عنصر بھی شامل تھا۔

گزشتہ چند دہائیوں سے ایک سامراجی طاقت کے طور پر امریکہ کو عراق سے لیکر افغانستان تک جنگی محاذوں پر پہ در پہ نا کامیوں کا سامنا کرنا پڑا،جو امریکی سرمایہ داری کے گہرے ہوتے ہوئے زوال کی واضح علامات تھیں۔ داخلی سطح پر اس کا اظہار 2016 کے انتخابات میں ٹرمپ کی جیت کی صورت میں برآمد ہوا تھا۔ جب ایک نظام سماج کو آگے لے جانے سے قاصر ہو جائے تو اس کے اندر ٹوٹ پھوٹ نا گزیر ہو جاتی ہے اور کسی ترقی پسندانہ عامل کی عدم موجودگی میں یہ ٹوٹ پھوٹ رجعت پرستانہ اور انتہائی دائیں بازو کی طرف سے بھی ہو سکتی ہے۔ یہی کچھ گزشتہ 8، 10 سالوں سے امریکہ میں ہو رہا ہے۔

اہم سوال یہ ہے کہ ٹرمپ اور ان کے حواریوں کہ یہ حرکتیں کن نتائج کی حامل ہوں گی؟ یقینا اس طرح کی حرکتوں سے سرمایہ دارانہ زوال پذیری کا عمل تیز تر ہو گا۔ پہلے سے انتشار کی شکار دنیا میں انتشار اور بڑھے گا۔ پہلے ہی ٹرمپ انتظامیہ ڈبلیو ایچ او اور یو ایس ایڈ کے فنڈز میں بڑے پیمانے کی کٹوتیاں کر چکے ہیں۔ اگرچہ اس طرح کے خیراتی یا امدادی پروگرام کسی انسانی جذبے کی بجائے stick and carrot کی سامراجی پالیسی کے تحت چلائے جاتے ہیں، لیکن ان کو یکسر ختم کر کے محض ڈنڈے کی طاقت پر چیزوں کو اپنے کنٹرول میں رکھنا قطعاً نا ممکن العمل ہے۔ ایک سامراجی طاقت کا المیہ یہ ہوتا ہے کہ اپنی سامراجی طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے اسے اپنا حلقہ اثر تسلسل کے ساتھ پھیلانا پڑتا ہے،جس کا منطقی نتیجہ overstretchیعنی گنجائشیں سے زیادہ پھیلاؤ کی صورت میں برآمد ہوتا۔ گزشتہ چند دہائیوں سے امریکی سامراج اسی کیفیت سے دوچار ہے۔ اپنی عالمی اجارہ داری برقرار رکھنے کے لیے اس کو جس قدر پھیلاؤ کی ضرورت ہے اس کی گنجائش امریکہ کی زوال پذیر معیشت سے کب کی ختم ہو چکی ہے۔ اسی وجہ سے اسے نہ صرف جنگی بلکہ سفارتی سطح پر بھی پے درپے نا کامیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

یوکرین کی جنگ بھی اسی سامراجی پھیلاؤ کی ضرورت کا شاخسانہ ہے۔ افغانستان سے ذلت آمیز بے دخلی کی ہزیمت اٹھانے کے پیچھے ایک محرک چین اور روس پر زیادہ فوکس کرنا تھا۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی یوکرین کو نیٹو میں شامل کرنے کو کوشش کرنا تھا،جو پیوٹن جیسے غنڈے کو براہ راست چیلنج کرنے کے مترادف تھا اور اس کا جواب پیوٹن نے براہ راست یوکرین پر چڑھائی کی صورت میں دیا۔ اس تمام تر واردات کے پیچھے امریکی ڈیپ سٹیٹ کی ایماء اور آشیر باد مکمل طور پر شامل تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ ایک تو اپنے ہی ملک کی ڈیپ سٹیٹ سے بھی نبردآزما ہیں اور دوسری طرف وہ اپنے ذاتی تعلقات اور پسند و نا پسند کی بنیاد پر عالمی تعلقات کی استواری چاہتے ہیں۔ اولاً ایسا ہونا محال ہے اور اگر ہو گا تو اس کے لیے عالمی سامراجی اداروں کے ساتھ ساتھ نیٹو جیسے جنگی اتحادوں کے پرخچے اڑانے بھی نا گزیر ہیں۔

یہ کوئی حادثہ نہیں کہ عالمی سرمایہ داری کے سنجیدہ جریدے ’دی اکانومسٹ‘نے اپنے تازہ ترین شمارے کے ٹائٹل پیج پر یہ سرخی سجائی ہے ’ڈان کا نیا عالمی نظام‘۔ یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ سرمایہ داری کے سنجیدہ تجزیہ کار ٹرمپ کے طریقہ کار کو لے کر سخت پریشان ہیں۔

یقیناعالمی سیاست اور عالمی معیشت تاش کے پتوں کے کھیل یا براہ راست کاروباری لین دین سے کروڑوں گنا پیچیدہ عوامل ہیں، لیکن ٹرمپ اور ان کے ساتھیوں کا فارمولا بہت سیدھا ہے۔ اگر تمہارے پاس پیسے کا پتا ہے تو گرین لینڈ کا جزیرہ خرید لو۔ اگر مالک انکار کرے تو فوجی طاقت کا پتا ہے نا۔ اگر آپ کے پاس طاقت کا پتا ہے تو غزہ کی تمام آبادی کے انخلا ء کا حکم نامہ جاری کر دو اور ڈنڈے کے زور کا پتا استعمال کر کے پڑوسی ممالک کو اس آبادی کو اپنے اندر سمونے کا فرمان بھی جاری کر سکتے ہیں۔ آپ 150 ارب ڈالر کی امداد دے کر یوکرین جیسے مجبور اور جنگ زدہ ملک سے 500 ارب ڈالر کا تقاضہ کر سکتے ہیں کیونکہ آپ کے پاس سامراجی پتا ہے۔ در حقیقت طاقت کا نشہ انسان کو زندگی کی بہت بنیادی حقیقتوں سے بھی نا آشنا کر دیتا ہے وگرنہ تاش کے پتوں کے کھیل میں بھی استثنائی طور پر ایسا ہوتا ہے کوئی کھلاڑی بد رنگی کی سریں سمیٹ لے اور ترپ کے سارے پتے بیکار جائیں۔ حالیہ ٹرمپ زیلنسکی جھگڑے میں کم از کم فوری نتائج اسی حقیقت کی غمازی کرتے نظر آ رہے ہیں۔

Sajid Naeem
+ posts