فاروق طارق
11 دسمبر 2024 کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ نے پہلی بار اعتراف کیا کہ 2019 کے بعد اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پروگرام کے تحت گیس کی قیمتوں میں ریکارڈ 840 فیصد اضافہ ہوا اور بجلی ٹیرف میں 110 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا۔
دونوں پیش رفتوں نے بے مثال مہنگائی میں اہم کردار ادا کیا،جس نے پاکستانی عوام کی اکثریت کی قوت خرید اور معیار زندگی کو گرا دیا۔ آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ سے بجلی، گیس اور تیل کی قیمتوں میں اضافے نے کسانوں، دیہی کمیونٹیز کو بہت متاثر کیا ہے۔ صرف بجلی کی قیمتوں میں پچھلے تین سالوں میں 10 روپے سے 65 روپے فی یونٹ تک اضافہ ہوا ہے، جو خطے میں بجلی کی سب سے زیادہ قیمت ہے۔
آسمان چھوتی مہنگائی کے ساتھ پاکستان میں اب بھی 2022 کے بڑے سیلاب کی تباہ کاریوں کے اثرات موجود ہیں، جس نے زراعت کے شعبے اور مجموعی معیشت کو کمزور کر دیا۔ موسلا دھار بارشوں سے آنے والے سیلاب کے دوران تقریباً 4.5 ملین ایکڑ فصلوں کو نقصان پہنچا اور 10 لاکھ جانور ضائع ہو گئے۔ کسانوں کو اب تک کوئی معاوضہ ادا نہیں کیا گیا ہے، جس سے گہری عدم مساوات اور ’نئے غریبوں‘کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان 1950 سے عالمی بنک اور آئی ایم ایف کا رکن ہے۔ اب تک آئی ایم ایف پاکستان کو 25 بار قرض فراہم کر چکا ہے،یا ہر تین سال میں اوسطاً ایک قرض کا معاہدہ کر چکا ہے۔ اکتوبر 2024 میں منظور کیا گیا تازہ ترین قرض 7 ارب ڈالر کاتھا، جو پاکستان کو 37 اقساط میں ملے گا۔ پاکستان کو اگلے چار سالوں میں 100 ارب ڈالر کا غیر ملکی قرضہ ادا کرنا ہوگا، موجودہ مالی سال میں 18 ارب ڈالر واجب الادا ہیں۔
یہ سارے قرضے اور ان قرضوں کے معاہدوں کے دوران نافذ ہونے والے پروگرام بظاہر تو لوگوں کے معیار زندگی کو بلند کرنے کے لیے ہیں، تاہم نتائج اس کے بالکل برعکس ہی رہے ہیں۔
ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ میں 2024 میں پاکستان کی غربت کی شرح 40.5 فیصد رہنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ 2024 میں پاکستان میں اضافی 2.6 ملین لوگ خط غربت سے نیچے آگئے ہیں۔ قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ بلوچستان میں غربت کی شرح حیران کن حد تک پہنچ گئی ہے۔ 70 فیصد آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور چین کے ان تمام قرضوں کے باوجود گزشتہ پانچ سالوں میں پاکستان میں غربت کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان کے بہت سے پائیدار ترقیاتی اہداف (SDGs) کے پوراہونے کا امکان نہیں ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ان قرضوں کے صرف صحت کے شعبے کے اثرات تباہ کن رہے ہیں۔ عوامی خدمات کے بنیادی ڈھانچے اور ترسیل کو مضبوط بنانے پر قرض کی ادائیگی کو ترجیح دی گئی ہے، نصف آبادی بنیادی صفائی اور صحت تک رسائی سے محروم ہے۔ جو لوگ ادائیگی کر سکتے ہیں وہ اکثر زیادہ مہنگے نجی صحت فراہم کرنے والوں کی طرف رجوع کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ جن کے پاس مالی وسال نہیں ہیں وہ خود ہی اپنا علاج کرنے کی کوشش کرتے ہیں، یا نااہل مقامی معالجوں کا سہارا لینے پر مجبور ہوتے ہیں یا پھر علاج کرواتے ہی نہیں ہیں۔
پاکستان کی موجودہ حکومت 2022 سے ایک عبوری حکومت کے دور سمیت برسراقتدار ہے۔اس نے آئی ایم ایف کی شرائط کو اتنی بے دردی سے پورا کیا کہ انہیں آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا نے بھی داد دی۔انہوں نے کہاکہ ”میں حکومت اور پاکستانی عوام کو داخلی سطح پر طے شدہ اصلاحات کے ساتھ آگے بڑھنے پر مبارکباد دینا چاہتی ہوں۔
ان کی طرف سے بیان کردہ ’ہوم ڈیفائنڈ‘ اور ’آؤنڈ‘ اصلاحات بنیادی طور پر بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافے اور توسیع پر مشتمل ہیں۔ خاص طور پر جنرل سیلز ٹیکس، جو کہ اب 18 فیصد ہے اور جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔ پیک شدہ خوراک اور زیادہ تر ادویات ان اشیاء میں شامل کی جانے والی تازہ ترین تھیں جن پر جی ایس ٹی لگایا جائے گا۔ جی ایس ٹی میں اضافہ ٹیکس ریونیو کے اہداف کو بڑھانے کے لیے آئی ایم ایف کی قرض کی شرط کو پورا کرنے کی کوشش کا حصہ ہے۔ یہ سماجی اخراجات کے لیے نہیں ہے بلکہ قرض کی خدمت کے لیے مالی وسائل کو بڑھانے اور قرض دہندگان کو یقین دلانے کے لیے ہے۔ حکومت نے زراعت، بجلی، گیس اور تیل کے شعبوں پر سبسڈیز بھی واپس لے لی ہیں،جبکہ ٹیکسوں اور محصولات میں اضافہ کر دیا ہے۔ بڑھے ہوئے ٹیکسوں کی اس لہر کے بعد اب ایک لیٹر پیک دودھ 400 روپے سے زیادہ میں ایک ایسے ملک میں فروخت ہوتا ہے جو زراعت اور ڈیری کی پیداوار پر بہت زیادہ انحصار کرتاہے۔ آج پاکستان میں ایک لیٹر دودھ نیدرلینڈ میں ایک لیٹر کی قیمت سے زیادہ مہنگا ہے۔ شرائط میں قانونی طور پر کم از کم اجرت کو صرف 37,000 روپے ماہانہ پر کم رکھنا بھی شامل ہے، لیکن اس قلیل اجرت سے بھی 80 فیصد زراعت اور خوراک کے کارکنان مستفید نہیں ہوتے۔
فصلوں کے لیے کم از کم امدادی قیمت کا خاتمہ
آئی ایم ایف کی دیگر شرائط نے مؤثر طریقے سے سماجی تحفظات اور سماجی تحفظ کے نیٹ ورکس کو واپس لے لیا ہے،جیسے کہ کسانوں کو بجلی، فارم ان پٹ اور فارم مشینری کے لیے سبسڈی کی فراہمی ختم کر دی گئی ہے۔ آئی ایم ایف کے حالیہ قرض میں پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے لیے ایک نئی شرط شامل ہے کہ وہ جون 2026 تک بنیادی فصلوں کے لیے کم از کم امدادی قیمت (MSP) کے نظام کو مرحلہ وار ختم کر دیں۔کم از کم امدادی قیمت ترقی پذیر ملکوں میں بڑے پیمانے پر استعمال ہوتی ہے۔ یہ دو اہم مقاصد پورے کرتی ہے۔ ایک تو کسانوں کو ان کی پیداوار کم سے کم ریٹرن یقینی ہوجاتا ہے اور ضروری فصلوں کی پیداوار اور رسد میں بھی استحکام آتا ہے۔ دوسرا کسان عالمی سطح پر قیمتوں کے اتار چڑھاؤ اور زائد پیداوار کے وقت انتہائی کم قیمت پر فصلیں بیچنے پر مجبور ہونے سے محفوظ رہتاہے۔ساتھ ہی صارفین کو طلب اور رسد کے عدم توازن اور مارکیٹ کی ناکامیوں سے بھی تحفظ ملتا ہے۔ صرف چار فصلیں ایسی تھیں جن کی کم از کم امدادی قیمت حکومت مقرر کرتی تھی، جس سے کسانوں کو تھوڑی راحت میسر تھی۔
کارپوریٹ فارمنگ پر زور
آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے تحت نیو لبرل معاشی نظام کے تحت چلنے والی حکومت کی کسان دشمن اور غریب مخالف پالیسیاں کسانوں کا ذریعہ معاش تباہ کر رہی ہیں۔ کسان مخالف حکومت زراعت اور خوراک کے نظام کے شعبے کا کنٹرول فوجی اور بین الاقوامی زرعی کاروباری کمپنیوں کو دے رہی ہے۔ فوج اور حکومت کے منصوبے نے کارپوریٹ فارمنگ کے نام پر کسانوں سے لاکھوں ہیکٹر زمین ہتھیانے کا آغاز کر دیا ہے۔
حکومت ’گرین پاکستان انیشی ایٹو‘کی آڑ میں کارپوریٹ فارمنگ کے لیے ملک بھر میں 4.8 ملین ایکڑ زمین (تقریباً 28 لاکھ ایکڑ) پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ کارپوریٹ فارمنگ کے لیے نشان زد رقبہ جمیکا کے جزیرے سے بڑا ہے اور پنجاب کے کل رقبہ کا تقریباً 9.5 فیصدہے۔
کارپوریٹ فارمنگ چھوٹے کسانوں کی نقل مکانی کا باعث بنے گی،کیونکہ وہ زرعی کاروباری کارپوریشنوں سے مقابلہ نہیں کر سکتے۔ کارپوریٹ اداروں کے درمیان زمین کی ملکیت کا ارتکاز زرعی کارکنوں اور دیہی برادریوں کے لیے روزگار کے مواقع کو کم کر دے گا۔ جن لوگوں کو کارپوریٹ فارمنگ کے لیے لیز پر دیا گیا ہے وہ پہلے ہی ان کرایہ داروں کو بے دخل کرنے میں مصروف ہیں جو کئی دہائیوں سے اس زمین کاشت کر رہے تھے۔ کرایہ داروں نے بے دخلی کے خلاف زبردست مزاحمت کا مظاہرہ کیا ہے اور وہ اپنے خاندانوں کے لیے زمین رکھنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہیں۔
صوبہ سندھ میں ایک اور زبردست جدوجہد جاری ہے،جہاں عوام دریائے سندھ پر نہروں کی تعمیر روکنے کا مطالبہ کر رہے ہیں،کیونکہ ان نہروں کے لیے پانی بہت کم ہے یا سرے سے ہے ہی نہیں۔ منصوبہ بندی کے مطابق 6 نہریں پنجاب کے چولستان علاقے میں ہیں،جہاں کم از کم نصف ملین ایکڑ اراضی پر کارپوریٹ فارمنگ کی جائے گی۔ صوبہ پنجاب میں کارپوریٹ فارمنگ اور آبپاشی کے بڑے منصوبے نے صوبہ سندھ کے ساتھ پانی کی تقسیم کے تنازع کو مزید بڑھا دیا ہے۔
آئی ایم ایف کی طرف سے پبلک سیکٹر کی نجکاری کا نفاذ
آئی ایم ایف کم از کم 1991 سے پاکستان پر سرکاری اداروں (ایس او ایز) کی نجکاری کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔ 1991 اور 2015 کے درمیان 172 ایس او ایز، جن سے 6.5ارب ڈالر حاصل ہوئے،کی نجکاری کے باوجودملک اپنے مسلسل بجٹ خسارے اور طویل مدتی ترقی کے مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہا۔ اس وقت 85 باقی ایس او ایز ہیں، جو7 شعبوں میں کام کر رہی ہیں۔ ان ایس او ایز میں سے دو تہائی منافع بخش ہیں۔ تقریباً 80سے 90فیصد پبلک سیکٹر کے نقصانات صرف 9 اداروں سے ہوتے ہیں،جن میں IMF کے تجویز کردہ انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز اور پرائیویٹ پاور پالیسیوں کی وجہ سے پانچ بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں شامل ہیں۔
گورنمنٹ پرائیویٹائزڈ اداروں میں زرعی ترقیاتی بینک شامل ہے جو خوراک اور زراعت کے شعبے کو اہم مدد فراہم کرتا ہے۔ زرعی ترقیاتی بینک کسان برادری کو زرعی مشینری اور بیجوں کے لیے بلاسود یا انتہائی کم سود پر قرضے دے رہا تھا۔ یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشنز کے ذریعے بنیادی طور پر 1972 سے سبسڈی پر کھانے پینے کی اشیاء اور گروسری فراہم کی جا رہی تھی۔ نجکاری سے متاثر ہونے والے دیگر اہم ریاستی ادارے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز، پاکستان اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن، فرسٹ ویمن بینک لمیٹڈ، ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن، کئی پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیاں (DISCOS) اور پاکستان انجینئرنگ کمپنی وغیرہ شامل ہیں۔
پاکستان کسان رابطہ کمیٹی اور اس سے منسلک کسان یونینوں کا نقطہ نظر اور مطالبات
پاکستانی کسان رابطہ کمیٹی اور کسان آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی نیو لبرل اور کھلی منڈی کی معاشی پالیسیوں کے فروغ کے لیے جوابدہی کا مطالبہ کر رہے ہیں، جو بھوک اور عدم مساوات کو ہوا دیتی ہیں۔ پاکستان کسان رابطہ کمیٹی (پی کے آر سی) ان نیو لبرل اوپن مارکیٹ پالیسیوں اور عالمی تجارتی تنظیم (WTO) اور آئی ایم ایف کی طرف سے طے شدہ آزاد تجارتی معاہدوں کو مسترد کرتی ہے،جو لوگوں کی ضروریات پر کارپوریٹ منافع کو ترجیح دیتے ہیں۔ حکومت پاکستان کا گندم کی نجی درآمدات کی اجازت دینے کا فیصلہ مقامی کسانوں کی کوششوں کو نقصان پہنچاتا ہے اور بین الاقوامی کارپوریشنوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔ درآمدات پر انحصار نے پاکستان کی خوراک کی فراہمی کو عالمی منڈی میں اتار چڑھاؤ کا شکار بنا دیا ہے۔
پی کے آر سی اور اس سے منسلک کسانوں کی یونینیں کسانوں کے تحفظ کے لیے کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) کے لیے لڑ رہی ہیں۔ یہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے نیو لبرل اور سرمایہ دارانہ اداروں کے خلاف لڑائی ہے،جو حکومت پاکستان پر ایم ایس پی ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ یہ آئی ایم ایف کی زیر قیادت نیو لبرل اور کسان مخالف اوپن مارکیٹ پالیسیوں کے خلاف جنگ ہے۔ یہ کسانوں کی پیداوار کی مناسب قیمتوں کو یقینی بنانے کے لیے منڈی کو منظم کرنے کی جدوجہد ہے۔ یہ برابری کی قیمتوں کے لیے اور غیر منصفانہ مسابقت، پیداواری لاگت کو کمزور کرنے اور رعایتی درآمدات کی آمد یا ڈمپنگ کے خلاف جنگ ہے۔
حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ زراعت اور اسی طرح کے دیگر شعبوں میں معاش کے مواقع پیدا کرکے، سماجی تحفظ اور حفاظتی جال کو وسعت دے کر اور مقامی سطح پر بہتر انتظامیہ اور حکمرانی کے ذریعے لوگوں کو استحکام کے مضر اثرات سے بچائے۔ استحکام غریب عوام کی قیمت پر نہیں آنا چاہیے۔
سبسڈی کی واپسی اور کم از کم امدادی قیمت کے نظام پر کسانوں کا ردعمل
رواں سال مئی کے اوائل میں پاکستان کے دسیوں ہزار کسانوں نے حکومت کی جانب سے ان کی گندم نہ خریدنے کے فیصلے کے خلاف کئی شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے۔ اس حکومتی فیصلے سے انہیں آمدنی میں بہت زیادہ نقصان پہنچا۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے کسانوں اور اکثر پاکستان کی ”بریڈ باسکٹ“ کہلانے والے کسانوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ گندم کی درآمدات کو روکے جس نے ایسے وقت میں مارکیٹ کو بھر دیا ہے جب وہ بمپر فصلوں کی توقع کر رہے ہیں۔ گزشتہ سال کی دوسری ششماہی اور اس سال کے پہلے تین مہینوں میں گندم کی درآمد پر کسان برہم تھے، جس کے نتیجے میں مارکیٹ میں گندم کی زیادتی ہوئی اور قیمتیں کم ہوگئیں۔ 21 مئی 2024 کو پی کے آر سی کی جانب سے ملکی مصنوعات کو تحفظ فراہم کرنے کی کال پر30 اضلاع میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔
پاکستان میں 2022 میں آنے والے تباہ کن سیلاب کے بعد گندم کی کاشت کاری پر پڑنے والے اثرات نے 2023 کے اوائل میں گندم کی قلت پیدا کردی۔ جب کہ پاکستان ہر سال تقریباً 30 ملین ٹن گندم استعمال کرتا ہے، لیکن 2022 میں صرف 26.2 ملین ٹن پیداوار ہوئی، جس کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ ہوا اور اس کے نتیجے میں گندم خریدنے کے لیے شہروں میں لوگوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں۔ یہاں تک کہ گندم تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے ہجوم میں لوگوں کے کچلے جانے کے واقعات بھی پیش آئے۔
اس وقت کے حکمران اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے فیصلہ کیا کہ نجی شعبے کو جولائی 2023 میں گندم درآمد کرنے کی اجازت دی جائے، یہ فیصلہ حکومت میں اپنی مدت ختم ہونے سے صرف ایک ماہ قبل کیا گیا۔ وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کے اعدادوشمار کے مطابق ستمبر 2023 سے مارچ 2024 کے درمیان بین الاقوامی مارکیٹ سے پاکستان میں 35 لاکھ ٹن سے زائد گندم درآمد کی گئی،جہاں قیمتیں بہت کم تھیں۔ اس زیادتی کے نتیجے میں رواں سال اپریل کے آغاز میں جب پاکستان کے کسانوں نے اپنی گندم کی کٹائی شروع کی تو ملک کے قومی اور صوبائی محکمہ خوراک کے ذخیرے میں 4.3 ملین ٹن سے زیادہ گندم موجود تھی۔
عام طور پر حکومت مقامی کسانوں کی طرف سے تیار کردہ تمام گندم کا تقریباً 20 فیصد ایک مقررہ قیمت پر خریدتی ہے (تقریباً 5.6 ملین ٹن، 2023 کی پیداوار 28 ملین ٹن کی بنیاد پر)۔ حکومت کا کہنا ہے کہ مارکیٹ میں یہ مداخلت قیمت کے استحکام کو یقینی بناتی ہے، ذخیرہ اندوزی کو روکتی ہے اور سپلائی چین کو برقرار رکھتی ہے۔ تاہم اس سال حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ پاکستانی کسانوں سے صرف 20 لاکھ ٹن گندم خریدے گی۔ نجی درآمد کنندگان کو گزشتہ سال ملک میں لامحدود گندم لانے کی اجازت دینے کا مطلب یہ ہے کہ کسانوں کو اب وہ بہت کم قیمتوں پر دوسرے ذرائع کو فروخت کرنا پڑے گا، اور انہیں بہت نقصان اٹھانا پڑے گا۔
عالمی بینک اور آئی ایم ایف کی پالیسیوں کے مجموعی اثرات پاکستان کی معیشت اور عوام کی معیشت پر بہت منفی رہے ہیں۔ اس نے قیمتوں میں اضافہ اور عدم مساوات کو بڑھا دیا ہے۔ بے روزگاری تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ حیرت کی بات نہیں کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک پاکستان میں بہت غیر مقبول ہیں، کیونکہ انہیں مقامی کرپٹ اشرافیہ نے قیمتوں میں اضافے کے لیے بھی استعمال کیا ہے۔ آئی ایم ایف کے خلاف ہر روز کسی نہ کسی شکل میں عوامی مخالفت ہوتی رہتی ہے۔ عام شہریوں کی یہ توانائیاں اور سرگرمیاں ٹریڈ یونینوں، کسان تنظیموں اور بڑے پیمانے پر لوگوں کے درمیان اتحاد قائم کرنے کی امید کو برقرار رکھتی ہیں تاکہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے نسخوں کی سخت مخالفت کی جا سکے اور حکومت پر انہیں مکمل طور پر واپس لینے یا منسوخ کرنے کے لیے زیادہ دباؤ ڈالا جا سکے۔
(بشکریہ: اے پی ایم ڈیڈی، ترجمہ: حارث قدیر)