پاکستان

تحریک انصاف کی ’عمران خان رہائی‘ ریلی ریاستی جبر کا شکار

 فاروق طارق

پاکستان تحریک انصاف کی عمران خان کو رہا کروانے کے لیے لانگ مارچ اوردھرنے کا منصوبہ ریاستی جبر کا شکار ہو کر ناکام ہو چکا ہے۔ ریلی کے شرکاء نے بڑی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلام آباد تک پہنچنے کی کامیاب کوشش کی۔ تاہم اس میں تحریک انصاف کی ایک صوبے میں قائم حکومت کا ایک بہت بڑا ہاتھ تھا، جس کی وجہ سے یہ ممکن ہو سکا۔ وزیراعلیٰ اور عمران خان کی اہلیہ اس ریلی کی قیادت کر رہے تھے۔ اس تحریک کے دوران قیادت کی جانب سے جو کچھ کہا گیا اور جس طرح کے دعوے کیے جاتے رہے ہیں، وہ اب ان کے سامنے بار بار دہرائے جاتے رہیں گے۔

یہ تحریک محض اس لیے ناکام نہیں ہوئی کہ ریاستی جبر بہت زیادہ تھا۔ یہ اس لیے بھی ناکام ہوئی کہ عمران خان کے ماننے والے اور عمران خان کی عدم موجودگی میں قیادت میں موجود لوگ اس تحریک کی حکمت عملی تیار کرنے میں مسائل کا شکار رہے ہیں۔ وہ بہت جلدی اور عجلت میں ایک ہی احتجاج اورریلی کے ذریعے عمران خان کی رہائی چاہتے ہیں۔ عمران خان کے خلاف ریاست اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کا ایک بڑا حصہ ہے، جو ان کی رہائی کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ وہی فوجی اسٹیبلشمنٹ ہے، جن کے لیے عمران خان ایک چہیتے کی طرح تھے، لیکن اب وہ ان کی گڈ بکس میں نہیں ہیں۔
اس تحریک کے لیے جو حکمت عملی چاہیے تھی، وہ اس اطرح کی نہیں تھی کہ ایک ہی جھٹکے میں تمام طاقت لگا دی جائے اور اس کے ذریعے عمران خان کی رہائی ممکن ہو جاتی۔ ان کا خیال تھا کہ وہ ڈی چوک پہنچ کر بیٹھ جائیں گے اور لوگ آتے رہیں تھے۔ یوں پریشر بڑھے گا اور حکومت مطالبات ماننے پر مجبور ہو جائے گی۔ تاہم ریاست کی اپنی حکمت عملی تھی، جو موجودہ اقتدار کی طوالت کو قائم رکھنے کے لیے بنائی گئی تھی۔ ریاست اس طرح سے ایک ہجوم کے پریشر کی بنیاد پر عمران خان کو رہا نہیں کر سکتی تھی۔ اگرچہ اس طرح کے احتجاج کا اپنا بڑا اثر ہوتا ہے۔ یہ عدالتوں پر دباؤ ڈالتی ہیں، عوام اور ان کی سوچوں پر رہنما کی مقبولیت کو قائم رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اس حد تک تو یہ تحریک کامیاب رہی ہے کہ ریاست کوپانچ دن تک بہت زیادہ بوکھلاہٹ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ انہوں نے خود ہی پورے پاکستان کو بند کیے رکھا۔ ہر وہ طریقہ کار اپنایا گیا، جس سے اس ریلی کو روکا جا سکتا تھا۔ تاہم ریلی پھر بھی اسلام آباد کے ڈی چوک تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔

یہ ریلی اگرچہ زیادہ تر پختونخوا کی پشتون آبادی پر مشتمل تھی، لیکن اس کے باوجود ان کا اسلام آباد پہنچنا ایک بڑی کامیابی تھی۔ تاہم عمران خان کی رہائی کا جو اصل مقصد تھا اور جس طرح کی بیان بازی کی گئی تھی، وہ مقاصد حاصل نہ ہو سکے۔ ریاست کے ایک فیصلہ کن جبر کے نتیجے میں ریلی تتر بتر ہو گئی۔ کچھ ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں، جن کی تفصیلات ابھی تک معلوم نہیں ہو سکی ہیں۔ کچھ ہلاکتیں رینجرز کی بھی ہوئی ہیں، جن کی تفصیلات سامنے آچکی ہیں۔

یہ تحریکیں اس طرح سے نہیں چلتیں اور نہ کامیاب ہوتی ہیں۔ ہم نے بھی بہت سی تحریکوں میں حصہ لیا ہے۔ اوکاڑہ کی تحریک ہم نے چلائی تھی۔ اس تحریک میں ہم نے بار بار مظاہرے کیے۔ یہ مظاہرے ایک حد تک منظم کیے جاتے تھے اور پھر پیچھے ہو جاتے تھے۔ تحریکیں ہمیشہ آگے ہی سفر نہیں کرتی ہیں، نہ ہی ایک سیدھی لکیر میں چلتی ہیں کہ آپ پشاور سے اسلام آباد پہنچ جائیں اور عمران خان کی رہائی کا مطالبہ منظور ہو جائے۔ یہ مسلسل پیش قدمی اور پیچھے ہٹنے کا نام ہے۔ متعدد اتار چڑھاؤ آتے ہیں اور بتدریج تحریک کو تعمیر کیا جاتا ہے۔

جو حکمت عملی تحریک کے لیے چاہیے تھی وہ تحریک انصاف بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ تحریک انصاف کی ناکامیوں کی بھی تاریخ لمبی ہوتی جا رہی ہے۔ پچھلے پورے عرصے پر اگر نظر دوڑائی جائے تو جو بھی یہ کہتے رہے ہیں وہ نہیں ہو سکا۔ یہ کہتے تھے کہ آرمی چیف اپنا لگائیں گے، لیکن کامیاب نہیں ہو سکے۔ اس سے قبل اپنا اقتدار بھی نہیں بچا سکے تھے۔

پنجاب، پختونخوا، گلگت اور جموں کشمیرمیں ان کی حکومت تھی۔ صوبوں کی حکومتوں کو عمران خان کے اسرار پر مستعفی کروایا گیا۔یہ سب اس امید پر کیا گیا کہ تین ماہ کے اندر الیکشن ہونگے اور عمران خان دوبارہ وزیراعظم بن جائیں گے۔ یہ جو دوبارہ وزیراعظم بننے کی جلدی اور عجلت تھی، اس کی وجہ سے صورتحال آج اس نہج پر پہنچی ہے۔ اس سارے عمل میں اگرچہ عمران خان اپنی مقبولیت برقرار رکھنے میں کامیاب ہیں، تاہم دوسری طرف ان کی حکمت عملی کامیابی کی بجائے مسلسل ناکامی سے دوچار ہوتی رہی ہے۔

اس بات کا اگر جائزہ لیا جائے کہ یہ تحریک اصل میں ہے کیا، تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ تحریک سرمایہ داروں کے ایک گروہ کی جانب سے دوسرے گروہ کے خلاف اقدام ہے۔ یہ کوئی عوامی تحریک نہیں ہے، جو پاکستان میں جمہوریت کی حقیقی قدروں کو بحال کرنے کے لیے چلائی جا رہی ہو۔ عمران خان کے دور میں جمہوریت کا جو حال ہوا ہے، وہ سب کو معلوم ہے۔ جس قدر عمران خان جمہوری ہیں، وہ بھی سب کو ہی معلوم ہے۔ دوسری طرف شہباز شریف،نوازشریف اور زرداری بھی جس قدر جمہوری ہیں، وہ بھی سب کو ہی معلوم ہے۔ ان کا جمہوریت سے کوئی لینا دینا ہی نہیں ہے۔ یہ جمہوریت کا نام لے کر اپنے اقتدار کو طوالت دینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ یہ حقیقی جمہوریت پر یقین ہی نہیں رکھتے۔ جس قسم کے الیکشن انہوں نے 2018اور پھر 2024میں کروائے ہیں، وہ الیکشن کے نام پر ہی دھبہ ہیں۔ چاہے عمران خان جیتے ہوں یا شہبازشریف جیتے ہوں، حقیقت میں جمہوریت کے ساتھ کھلواڑ ہوا ہے۔

یہ تحریک درحقیقت سرمایہ داروں کی ریاست میں اپنا حصہ لینے اور کنٹرول کرنے کی کوشش کا نتیجہ ہے۔ اس میں اگرچہ ہم انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ہر بار مذمت کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ تاہم ان کے سیاسی بیانیے کا ہم حصہ نہیں بن سکتے۔تحریک انصاف جس قسم کا سیاسی بیانیہ تعمیر کر رہی ہے، وہ ہمارا بیانیہ نہیں ہے۔ انہوں نے ماضی میں جو کچھ کیا ہے وہ آج کے سیاسی بیانیے کے الٹ ہے۔

یہ تحریک کوئی لوگوں کی معاشی بحالی کے لیے بھی نہیں ہے۔ یہ تحریک لوگوں کی سیاسی، نظریاتی اور جمہوری آزادیوں کے لیے بھی نہیں ہے۔ یہ محض عمران خان کی رہائی کی تحریک ہے۔ عمران خان خود ایک بورژوا لیڈر ہیں۔ وہ ایسے لیڈر ہیں جو ہر قسم کے دائیں بازو کے نظریات کا ساتھ لیتے ہوئے مقبولیت قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ کوئی انقلابی لیڈر نہیں ہیں۔ اگر وہ بہادری سے اس حکومت کے ساتھ لڑتے رہتے ہیں، تو پھر بھی وہ کوئی انقلابی لیڈر نہیں بن سکتے۔ وہ بورژوا لیڈر ہیں اور ایسے لیڈر صرف اپنے اقتدار کو واپس پانے کے لیے ریڈیکل زبان استعمال کرتے ہیں۔

اس تحریک میں نہ تو ہم حکومت کے سیاسی بیانیے کا حصہ بن سکتے ہیں اور نہ ہی تحریک انصاف کے سیاسی بیانیے کا حصہ بن سکتے ہیں۔ ہمیں ایک خودمختار سیاسی بیانیہ تعمیر کرنا ہوگا۔ دونوں طرف سے جب بھی ریاستی تشدد ہوگا، یا غیر ریاستی تشددہو گا تو ہم اس کی کھل کر مخالفت کریں گے اور اس کے لیے آواز بلند کریں گے۔ جس طرح تحریک انصاف کے سیاسی کارکنوں پر ریاستی تشدد کی ہم بھرپور مذمت کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ تاہم ان کا سیاسی بیانیہ ہمارا سیاسی بیانیہ نہیں ہے۔

یہ تحریک اس لیے بھی کامیاب نہیں ہو سکتی کہ یہ قیادت سیاسی پختگی سے کام نہیں لیتی اور نہ ہی تحریکوں کی اونچ نیچ سے واقف ہے۔ یہ ابھی سیکھ رہے ہیں اور وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ انہیں اتار چڑھاؤ کا پتہ چلے گا۔ اوکاڑہ کی تحریک ہم نے تین سال تک چلائی اور پھر جا کر حکومت پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئی۔اسی طرح وکلاء کی تحریک بھی دو سال تک چلتی رہی۔ ہر جمعرات کو ہم مظاہرے کرتے تھے۔ اس طرح نہیں تھا کہ ایک ہی بار میں نکلتے اورکامیابی حاصل ہو جاتی۔ یہ سوچتے ہیں کہ بس ہم ایک بار پہنچ جائیں تو پھر کام ہو جائے گا۔ یہ لڑائی آپ کو مختلف محاذوں پر لڑنا پڑتی ہے۔ عدالت اور عوام کے ذریعے یہ لڑائی لڑ بھی رہے ہیں، لیکن ان کے بیانیے میں کافی سیاسی کمزوری ہے۔

انہوں نے کسانوں کے نقصانات پر کبھی کوئی بات نہیں کی، مہنگائی پر یہ بات کرنے سے گریزاں ہیں۔ الٹا تحریک انصاف اورمسلم لیگ ن کا نجکاری کا ایک ہی جیسا پروگرام ہے۔ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف دونوں نیولبرل ایجنڈے کے نفاذ پر یکسو ہیں۔ یہ سرمایہ داروں کے ٹولے ہم عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے ایک دوسرے کی مخالفت کرتے ہیں اور اقتدار بانٹنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ہم ان کی لڑائیوں کا حصہ نہیں بن سکتے۔ تاہم اگر ایک ٹولا دوسرے ٹولے کے خلاف انسانی حقوق کی پامالی کرتے ہوئے ریاستی تشدد کرے گا تو ہم اس کی شدید مذمت ضرور کریں گے۔

Farooq Tariq
+ posts

فارق طارق روزنامہ جدوجہد کی مجلس ادارت کے رکن ہیں۔ وہ پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری ہیں اور طویل عرصے سے بائیں بازو کی سیاست میں سرگرمِ عمل ہیں۔