پاکستان

فیض حمید کا کورٹ مارشل: بڑی پیش رفت میں متعدد پیغامات ہیں!

فاروق طارق

سابق سربراہ آئی ایس آئی جنرل(ر) فیض حمید کی گرفتاری پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک غیر معمولی پیش رفت ہے۔ آئی ایس پی آر نے واضح طور پر کہا ہے کہ ریٹارمنٹ سے پہلے اور بعد وہ ایسی سرگرمیوں میں ملوث تھے، جو پاکستان کے مفاد میں نہیں تھیں۔ اس طرح کی صورتحال شاید پہلے کبھی پاکستان کی تاریخ میں پیش نہیں آئی ہے۔ آئی ایس آئی کے کسی سربراہ کو آج تک گرفتار نہیں کیا گیا، بلکہ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ پاکستان جرنیلوں کو کرپشن یا کسی اس طرح کے دیگر مقدمات کا سامنا کرنا پڑا ہو۔

جنرل پرویز مشرف کے خلاف جب آرٹیکل6کے تحت مقدمہ بنایا گیا تھا تو فوج کی مداخلت کی وجہ سے انہیں عدالت میں پیش نہیں ہونا پڑا تھا، بلکہ فوج نے انہیں ملک سے باہر جانے میں بھی مدد فراہم کی تھی۔ اسی طرح ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے کہ فوج نے اپنے جرنیلوں کو ہر طرح کا تحفظ فراہم کیا ہے۔

اب یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ فیض حمید کو کیوں گرفتار کیا گیا ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ یہ اقدام موجودہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے قریبی تعلقات کی نشاندہی کرتا ہے۔یہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہوتے ہوئے ہر اس قدم کو اٹھانا چاہتے ہیں، جس سے موجودہ حکومت کو طوالت مل سکے۔ یہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ریاستی اداروں پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کا بھی ایک اظہار ہے۔ حکومت کیلئے بھی یہ اعتماد بحال کرنے کا موقف ہے کہ وہ فوج کے اقدامات کی مکمل حمایت کرے اور عوامی سطح پر ان کا دفاع کرے۔

اب تو پی ٹی آئی بھی فیض حمید کے بارے میں کہتی ہے کہ ان سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ سرمایہ داری کی سیاست کی اونچ نیچ اور مفادات کے تحت اٹھائے گئے اقدامات کا واضح اظہار ہے۔ کبھی فیض حمید ان کیلئے انگلی اٹھانے والوں میں شامل تھے، گو کہ اس وقت وہ انگلی اٹھا نہیں سکے لیکن ان سے یہ بھرپور توقع موجود تھی۔ 2018میں البتہ انہوں نے لازمی طورپر اپنے طریقوں پر عملدرآمد کرتے ہوئے عمران خان کو اقتدار میں لانے کی راہ ہموار کی تھی۔

فیض حمید وہ جرنیل تھے، جنہوں نے مذہبی جنونی قوتوں کی پاکستان میں ترویج میں خاص کردار ادا کیا ہے۔ جب طالبان افغانستان میں اقتدار میں آئے تو وہ کابل پہنچ گئے تھے۔ عمران خان کے دور میں 5ہزار طالبان کو پاکستان واپس لانے میں بھی انکا کلیدی کردار تھا۔ وہ اس بات کے حق میں بھی تھے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کئے جانے چاہئیں۔

فیض حمید کی گرفتاری اس بات کی بھی نشاندہی کرتی ہے کہ فوجی قیادت طالبان کو بھی واضح پیغام دینا چاہتی ہے۔ طالبان کی جانب سے فوج پر حملے مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ اس اقدام سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ بھی یہ چاہتی ہے کہ جو لوگ طالبان کے قریب ہیں ان کو بھی گرفت میں لایا جانا چاہیے۔ یوں یہ واضح کرنا مقصد ہو سکتا ہے کہ طالبان کی سیاسی پشت پناہی کرنے والے عناصر ریاست کے کسی ادارے پر پریشر ڈالنے میں کامیاب نہیں ہوں گے۔

یہ اقدام ٹی ایل پی کیلئے بھی ایک برا پیغام ہے۔ فیض حمید نے ٹی ایل پی کے دھرنے کو سپورٹ کیا اور خاص طور پر ٹی ایل پی کو اس لئے سپورٹ کیا گیا تھا، تاکہ رائٹ ونگ ووٹ کو تقسیم کیا جائے اور مسلم لیگ ن کو وہ ووٹ 2018میں نہ مل سکے۔ اس سیاسی حکمت عملی کے تحت2018کے انتخابات میں انہوں نے ٹی ایل پی کو پروموٹ کیا۔ ٹی ایل پی نے انتخابات میں اچھا خاصہ اثر بھی ڈالا تھا۔

فیض حمید کے کورٹ مارشل کی کارروائی کے آغاز کی پیش رفت کے مختلف پہلوؤں کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ جہاں ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ اس گرفتاری سے فوجی ادارے کے اندر جو کچھ عمران خان کا اثر تھا اس کو کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ویسے بھی یہ ایک وقت مظہر تھا۔ لگ تو ایسا رہا تھا کہ شاید فوج کے بڑے لوگ عمران خان کے حامی ہیں، لیکن مڈل کلاس کی اپنی سوچ ہوتی ہے، جو وقتی ہوتی ہے۔ وہ وقت اور حالات کو دیکھتی ہے، لیکن ریاستی جبر کا زیادہ مقابل نہیں کر سکتی۔ بہت کم مڈل کلاس افراد ایسے ہوتے ہیں جو نظریاتی طور پر مضبوط ہوتے ہیں یا کھڑے رہ سکتے ہیں، باقی اپنے اپنے پیشوں اور مسائل کی جانب واپس لوٹ جاتے ہیں۔ اس پیش رفت کے ذریعہ یہ پیغام بھی دیا گیا ہے کہ اگر کوئی فوج کے اندر عمران خان کا حامی ہے تو اس کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا جائے گا۔

یوں تو پی ٹی آئی فیض حمید کی گرفتاری پر ان سے لاتعلقی کا اظہار کر رہی ہے، لیکن پی ٹی آئی کیلئے یہ کوئی اچھا پیغام نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، بلکہ الٹا انہیں اس کا بہت زیادہ نقصان ہوگا۔ پی ٹی آئی کی پشت پناہ ایک مضبوط آواز کو اب کورٹ مارشل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں، بلکہ ایک بہت بڑی پیش رفت ہے۔

پی ٹی آئی کی مقبولیت میں بھی آنے والے عرصہ میں ہمیں کمی ہوتی ہوئی نظر آسکتی ہے۔ پہلے ہی ریاستی جبر کے نتیجے میں پی ٹی آئی کی ہر حکمت عملی ناکام ہورہی ہے۔ چاہے وہ سنی اتحاد میں شامل ہونے کی حکمت عملی ہو، یا کچھ ججوں کے ذریعے اپنی مخصوص نشستیں حاصل کرنے کی کوشش، وہ سب چیزیں ابھی التوا کا شکار ہو رہی ہیں۔ یہ بھی شنید ہے کہ شاید موجودہ چیف آف آرمی سٹاف کو تین سال کی توسیع دی جائے گی، اور شاید چیف جسٹس کو بھی تین سال کی توسیع دی جائے گی۔ موجودہ حکومت ہر وہ طریقہ اپنائے گی، جس سے اس کا اقتدار طوالت پکڑے۔ پی ٹی آئی بار بار یہ بات کرتی آئی ہے کہ دو ماہ بعد یہ حکومت ختم ہو جائے گی، اب لگ یوں رہا ہے کہ دو ماہ کے اندر ہر وہ طریقہ اختیار کیا جائے گا، جس سے اس حکومت کا اقتدار طویل ہو سکے اور پی ٹی آئی کی ہر حکمت عملی کو ناکام بنایا جائے۔ پی ٹی آئی نے بھی دو ماہ میں حکومت کے خاتمے کے اعلانات کر کے اپنے لئے ہی نقصان کیا ہے۔ اب حکومت اور ان کے حامی پیش بندی کریں گے۔ فیض حمید کی گرفتاری بھی اس پیش بندی کا ہی ایک اظہار ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ فیض حمید نے بارہا سویلین معاملات میں مداخلت کی ہے۔ تاہم وہ واحد جرنیل نہیں ہیں، جنہوں نے ایسا کیا، بلکہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ہر جرنیل نے یہ مداخلت کی ہے۔ ہم کسی بھی صورت میں فوجی جرنیلوں کی جانب سے سویلین معاملات میں مداخلت کے خلاف ہیں۔ اس عمل میں اگر کسی کو سزا ہوتی ہے تو ہمارے لئے کوئی بری خبر نہیں ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ اس سے شاید باقیوں کو بھی تھوڑا بہت سبق ملے گا۔ تاہم اصل سبق تو اسی وقت ہی مل سکتا ہے، جب عوامی تحریک بڑے پیمانے پر ابھر کر فوجی مداخلت کے خلاف میدان میں آئے گی۔ 2024کے انتخابات میں جو مداخلت کی گئی ہم اس کے بھی شدید خلاف ہیں۔ ہم فوجی آمریت کی ہر شکل کے خلاف ہیں۔فوجی اسٹیبلشمنٹ اور آمریتوں کے ہر اس قدم کے ہم خلاف ہیں، جس میں وہ اپنے اختیار سے باہر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔

فیض حمید کی گرفتاری پاکستانی سیاست میں ایک ایسا قدم ہے، جس میں جرنیلوں کی آپس کی لڑائی کا اظہار بھی ہو رہا ہے۔ یہ بھی نظر آتا ہے کہ کچھ جرنیل یہ کہہ رہے ہیں کہ جو بھی ہمارے خلاف اس طرح کے اقدامات کرے گا، اس کے خلاف ایکشن ہوگا۔ بنیادی طور پر یہ آرمی چیف عاصم منیر کی جانب سے دیگر جرنیلوں کو ایک پیغام ہے کہ اگر آپ میرے چیف آف آرمی سٹاف بننے کے بعد بھی میرے خلاف سازشیں کریں گے، یا ایسا کرنے کی سوچیں گے تو ایسا ہی حال کیا جائے گا۔ یہ کور کمانڈرز کو بھی پیغام ہے کہ اگر فیض حمید کو گرفتار کیا جائے سکتا ہے تو پر کوئی بھی مخالفت کرکے محفوظ نہیں رہ سکتا۔

Farooq Tariq
+ posts

فارق طارق روزنامہ جدوجہد کی مجلس ادارت کے رکن ہیں۔ وہ پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری ہیں اور طویل عرصے سے بائیں بازو کی سیاست میں سرگرمِ عمل ہیں۔