شُوما اے چیٹرجی
دیوناگری میں چھپاک کے معنی ہیں چھڑکنے کی آواز۔ زیادہ واضح کرنا چاہیں تو جب کوئی چیز مائع سے ٹکرائے یا مائع کسی چیز سے ٹکرا کر جو آواز پیدا کرتا ہے وہ چھپاک ہے۔ فلم چھپاک میں جو بتانے کی کوشش کی گئی ہے، یہ ایک لفظ اس کی قدرے وضاحت کرتا ہے مگر کیا فلم کے ذریعے چھپاک کی آواز پیدا کرنے میں کوئی کامیابی ہوئی؟
جی بالکل بلکہ اس کو اس سے بھی زیادہ کامیابی ملی۔ فلم یہ بتانے میں کامیاب ہوئی کہ یہ محض چھپاک نہیں جو تیزاب کی صورت میں کسی خوبصورت طالبہ یا دلہن کے چہرے پر پھینکا جاتا ہے بلکہ اس سے ان کی معمول کی زندگی موت سے بدتر زندگی میں بدل جاتی ہے۔ فلم میں ہر اس تصور اور نظریے پر کاری ضرب لگائی گئی ہے جو کسی لڑکی یا عورت کی”خوبصورتی“ سے نتھی کر دیا گیا ہے۔ میگھنا گلزار، جنہوں نے اپنی گزشتہ سنگ میل درجے کی فلم ”رازی“ کے ساتھ خود کو منوایا، چھپاک کے مرکزی کردار، مالتی اگروال (دیپیکا پڈوکون) کو اردگرد کے لوگوں کے زندگی گھٹانے والے خود ترستی اور نفرت آمیز جذبات سے بچانے کی کوشش کرتی نظر آتی ہیں۔
مالتی تیزاب گردی کی حقیقی زندگی میں متاثرہ لکشمی اگروال کی نمائندگی کرنے والا فلمی کردار ہے۔ مالتی اگروال، 19 سالہ سکول کی طالبہ ہے، جو ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتی ہے، والد جس کا شرابی اور چھوٹا بھائی بے کار ہے۔ وہ ایک تفریح پسند اور دوستانہ مزاج لڑکی ہے جس کے بوائے فرینڈ کے متعلق اس کے والدین لاعلم ہیں۔ وہ اپنے پڑوسی بشیر کے بارے میں بھی نہیں جانتے، جو مالتی سے عمر میں بہت بڑا ہے، اس پر ڈنڈے کے ساتھ تشدد بھی کرتا ہے حتیٰ کہ شادی نہ کرنے کی صورت میں اسے دھمکیاں بھی دیتا ہے۔
مالتی اپنے فون پر اس کے پیغامات کو حذف کر دیتی ہے اور انجانے میں ایسی صورتحال پیدا کرتی ہے جس میں بشیر اپنی کزن کی مدد سے اس پر تیزاب پھینک دیتا ہے اور مالتی کو ایک ہجوم کے درمیان شدید درد میں چیختے ہوئے سڑک پر چھوڑ دیتا ہے۔ ہجوم بس اسے گھورے جا رہا ہے، اتنے میں ایک ادھیڑ عمر سکھ آگے بڑھتے ہوئے اسے اٹھاتا ہے اس پر پانی چھڑکتا ہے اور بعد میں ایمبولینس اور پولیس کو کال کرتا ہے۔
یہ فلیش بیک میں آخر تک دکھایا گیا ہے کہ لوگوں کا ایک دوسرے کے بارے میں رویہ کس قدر عامیانہ اور تماش بینی پر مبنی ہوتا ہے جو دوسروں کو محض اذیت دیتا ہے، انہیں زخمی کرتا ہے یا ان پر حملے کراتا ہے۔ اسے ”ناظرانہ تاثر“ کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ غیر فعال تشدد ہے کیونکہ یہ تجریدی اور بے بنیاد ہے جس کا اظہار صرف دیکھنے اور پھر آگے بڑھنے کے عمل سے ہوتا ہے۔ اکثر اوقات ہمیں یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ ہمارے آگے بڑھنے سے کسی مظلوم کی موت ہوسکتی ہے۔
یہاں مرکز نگاہ مالتی کا سفر ہے جس طرح سے وہ اپنی زندگی اور چہرے کا بوجھ اٹھا رہی ہے، کان چہرے کا حصہ بن گئے، آنکھیں غیر فطری طور پر سکٹر گئیں اور اس کا چہرہ اس پر ہونے والے حملے کی کہانی تفصیل سے بیان کررہا ہے۔ تیزاب متاثرہ خواتین کی بحالی کیلئے خصوصی طور پر کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم میں شامل ہو کر وہ تیزاب حملوں سے متاثرہ دوسری خواتین کے ساتھ مل کر ایک نئی شناخت پاتی ہے۔
فلم میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ مقامی ہسپتال کی انتظامیہ تیزاب سے متاثرہ ایک خاتون کو داخل کرنے سے انکار کردیتی ہے پھر اسے دہلی لانا پڑا کیوں کہ اس کا تعلق ایک نچلی ذات سے ہے۔ ہم ان خواتین کو کسی بھی لمحے خودترستی کے جذبات سے مغلوب نہیں دیکھتے لیکن مالتی ایک موقع پر جذباتی طور پر پریشان ہو جاتی ہے جب ایک تیزاب سے متاثرہ عورت ہسپتال میں دم توڑ جاتی ہے۔ تاہم وہ جلد ہی اپنے پرمسرت مزاج میں لوٹ آتی ہے، اپنی دلنشین مسکراہٹوں کے ساتھ ساتھیوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اورکسی نئی متاثرہ کی دلجوئی کے لئے ہسپتال کے بیڈ کی طرف لپکتی ہے۔
انفرادیت اس فلم کی دیانتداری میں مضمر ہے جس طرح اس میں حقیقی زندگی سے چنی ہوئی تیزاب متاثرین کی ہمت کا کھوج لگایا جاتا ہے، جو اپنے ٹیڑھے ہونٹوں اور غیرموجود ناک کے ذریعے گانے گاتیں اور ہمیشہ مسکراتی رہتی ہیں، جس میں ”خوبصورتی“ کی اصطلاح کی نئی تعریف کی گئی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ دیپیکا پڈوکون کو حال ہی میں لندن کے ایک آن لائن پورٹل نے دہائی کی سب سے پرکشش ایشیائی خاتون قرار دیا تھا۔ اسکرین پر انہیں مالتی کے روپ میں دیکھ کر زندگی کی سب سے بڑی ستم ظریفی کی وضاحت ہوتی ہے جو ”خوبصورتی“ کی نئی تعریف سے متعلق ہے۔
دیپیکا بہت ہی ثقیل قسم کے مصنوعی میک اپ کے ساتھ اپنے مکالمے اداکرتی ہیں، مسکراہٹیں بکھیرتی ہیں اور چیخنا چلانا کرتی ہیں جیسے چہرے کے نشانات اورخراب جلد ان کی اصلی شخصیت کا حصہ ہے، خاص طور پر چونکا دینے والے لمحوں کے موقع پر جب حملے کے بعد پہلی بار وہ آئینے میں اپنا بدنما چہرہ دیکھتی ہے، تو چیختی ہے، یا جب وہ اپنے کانوں میں بُندے ڈالنے کی کوشش کرتی ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ اس کا ایک کان چہرے میں گھل گیا ہے۔ وہ مایوسی سے اپنی والدہ سے پوچھتی ہے:”جب میرے کان یا ناک نہیں ہیں تو میں بالیاں کیسے پہنوں گی“۔
بعد میں ہم ایک کان میں بُندا لٹکا ہوا دیکھتے ہیں۔ جب وہ اپنی ہمت کی داستان کے ساتھ آگے بڑھتی ہے تو وہ نقاب اتار دیتی ہے جس سے وہ اپنے چہرے کو ڈھانپتی تھی۔ یہ ہمت اسے عدالت بھی لے جاتی ہے جہاں اسے دو خواتین وکلا اور ایک سماجی کارکن کی پشت پناہی حاصل ہے اور وہ خود پر تیزاب پھینکنے والے دو ملزموں کو سزا دلوانے میں کامیاب ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ عوامی مفاد کا دوسرا مقدمہ بھی جیتتی ہے جس میں تیزاب کے کھلے عام فروخت پر پابندی عائد کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔
تیزاب سے متاثرہ خواتین بہت ہی ایماندار ہیں اگرچہ انھوں نے پہلے کبھی فلمی کیمرے کا سامنا نہیں کیا تھا۔ اب انہیں کبھی بھی نفرت اور خوف کی وجہ سے اپنا چہرہ دوسری طرف پھیرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہو گی کیونکہ جب ہم انہیں قومی دھارے میں شامل ہوتا دیکھ رہے ہیں تو بہت سے چہرے شرمندگی سے دوسری جانب پھر جائیں گے۔
’چھپاک‘ فطری، حادثاتی یا جان بوجھ کر بدلے ہوئے چہروں سے متعلق ہماری کراہت کو کامیابی سے عیاں کرتی ہے۔ غیر سرکاری تنظیم مالتی کے بانی سربراہ کی حیثیت سے کام کرنے والے وکرنت میسی جیسا لایعنی، خشک اور غیر رومانی مرد کا کردار حالیہ فلموں میں نہیں دیکھا گیا۔ ان کی کارکردگی شاندار ہے۔ وہ یہ تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے کہ اسے مالتی سے پیار ہو گیا ہے حالانکہ مالتی اس سے کہتی ہے کہ اگر کوئی اسے خاموشی سے پیار کرے تو اسے کیا پریشانی ہے۔
چھپاک مرکزی دھارے میں شامل بڑے بجٹ والی فلم ہے جس کا ہدف مرکزی دھارے کے ناظرین ہیں لیکن یہی اہم نکتہ ہے۔ مرکزی دھارے والے بھی جب مالتی پر حملہ ہوا تو متجسس ہجوم کا حصہ تھے، انہیں یہ فلم دیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ کچھ سبق حاصل کریں اور آئندہ ہجوم کا حصہ نہ بنیں۔
فلم کے گانے اچھے تھے خاص طور پر تھیم سانگ لیکن فلم بغیر کسی گانے کے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتی تھی کیونکہ گانے ماحول کو نرما دیتےہیں اور بعض اوقات کہانی کی تیز دھار کو بھی کند کر دیتے ہیں۔ فلم کی ایڈیٹنگ بہتر ہے۔ سینماٹوگرافی سانحہ کو رومانوی رنگ دیئے بغیر ہسپتالوں کے اندر وسطی کلوز اپ اور درمیانے شارٹس کے ساتھ انصاف کا مظاہرہ کرتی ہے اور اسی طرح گلی کے مناظر اور کمرہ عدالت کے اندر کے مناظر بھی جن پر خاصی فوٹیج صرف ہوتی ہے۔
اگرچہ مالتی نے اپنے حملہ آوروں کو دس سال تک جیل بھیجنے کی لڑائی میں کامیابی حاصل کی ہے لیکن کھلے عام تیزاب کی فروخت پر پابندی کے قانون کی ہر روز خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ تیزاب پھینکنا تشدد کی ایک انتہائی شکل ہے جہاں زیادہ تر مجرم مرد ہیں اور زیادہ تر شکار خواتین ہیں۔ تیزاب تحلیل کرنے والا ایسا مادہ ہے جو لکڑی کو جلا اور دھاتوں کو گھلا دیتا ہے۔ جب کسی شخص پر پھینکا جاتا ہے تو جلد کی بافتوں کو پگھلا نے کا سبب بنتا ہے اور ہڈیوں کو ننگا کر دیتا ہے یا آنکھوں اور سماعت کو ضائع کر دیتا ہے، دفاع میں اٹھنے والے ہاتھوں کو بھی ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے۔ مستقل جسمانی ساخت کا بگڑنا اور معذوری ناگزیر ہو جاتی ہے۔
چھپاک دسمبر 2012ء کے نربھایا ریپ کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین کے نعروں سے شروع ہوتی ہے۔ کیا یہ ایک روایتی انداز ہے یا تیزاب حملوں کو زیادتی کے ساتھ مساوی قرار دینے کی جانب اشارہ ہے؟
فلم ایک اور سانحہ پر ختم ہوئی۔ دلہن پر تیزاب حملہ اور اس کے نتیجے میں اس کی ہلاکت: ہم دیکھتے ہیں کہ قانونی پابندی کے باوجود تیزاب آسانی سے حاصل کیا جاسکتا ہے کیونکہ تیزاب کی فروخت بلاتخفیف بغیر کسی روک ٹوک اور سزا کے جاری ہے۔ مالتی کی کہانی تیزابیت سے متاثرہ افراد پر بننے والی فلموں میں اچھا اضافہ ہے، جیسے حسینہ (اپریل 1999ء)، پونم (اکتوبر 2000ء)، شروتی (اکتوبر 2001ء)، سمن (نومبر 2006ء) اور سینکڑں دوسری حقیقی کہانیاں جن میں سے بیشتر وفات پا گئیں۔
کسی انسان کی زندگی کو تباہ کرنے کیلئے تیزاب کی کتنی مقدار درکار ہوتی ہے؟ کسی پر تیزاب پھینکنے کے لیے اپنے اندر کتنی نفرت پیدا کرنا ہوتی ہے؟تیزاب پھینکنا خواتین پر تشدد کی ایک شیطانی شکل ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ اس تشدد کی حقیقت سے بے خبر ہیں۔ دیپیکا پڈوکون جیسی مرکزی دھارے کی گلیمرس اور مہنگی اداکارہ کیلئے فلم کا معاون فلمساز بننا اور مرکزی کردار نبھانا بہت زیادہ حوصلہ مانگتا ہے۔ فلم نے میگھنا گلز ار کی ہدایتکاری کے تاج میں ایک اور پنکھ لگا دیا ہے۔ تاج پوری ٹیم کیلئے جو اپنے پیشے سے بھی آگے بڑھ کر خواتین کے خلاف جرائم کے بارے میں آگاہی اور کارروائی کے لئے ایک ٹھوس وسیلہ بن جاتے ہیں۔