سبرینا ٹوپا
ترجمہ: فاروق سلہریا
کراچی میں گذشتہ ہفتے پولیس نے احتجاج کرتے ہوئے گارمنٹ مزدوروں پر مبینہ طور پر گولی چلا دی۔ یہ مزدور عالمی شہرت یافتہ برانڈز کے لئے جینز کے گارمنٹس بناتے ہیں۔
35 سالہ عبدالباسط ایک ریلی کے دوران پولیس کے لاٹھی چارج کا نشانہ بنے۔ باسط ایک گارمنٹ ورکر ہیں۔ وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اُس فیکٹری کے باہر مظاہرہ کر رہے تھے جس نے، ناصر منصور کے بقول، کرونا بحران شروع ہونے کے بعد 15 ہزار مزدور بر طرف کر دئیے ہیں۔
ناصر منصور کا تعلق نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن سے ہے۔ اِن کا کہنا ہے کہ بہت سے مزدوروں کو بغیر کسی نوٹس کے فارغ کر دیا گیا۔
گارمنٹ ورکرز بہتر اوقاتِ کار اور تنخواہوں کی ادائیگی کے لئے نعرے بازی کر رہے تھے کہ پولیس بلوا لی گئی۔
بہت سے مزدوروں کو فیکٹری کی بندش کا بھی سامنا ہے اور بعض کی نوکریاں بھی چلی گئی ہیں۔ بہت سوں کو عید الاؤنس نہیں ملا۔ عید الاؤنس کی وجہ سے بہت سے مزدور دُور دراز اپنے دیہاتوں میں جا کر عید الفطر منا نے کے قابل ہو جاتے ہیں۔
نتیجہ یہ کہ اکثر مزدور شدید مایوسی کا شکار ہیں۔
باسط اسی فیکٹری میں کام کرتے ہیں جہاں یہ مظاہرہ ہو رہا تھا۔ انہوں نے گارڈین کو بتایا: ”ہم کچے ملازم ہیں۔ ہماری نوکری کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی۔ مالک جب چاہے نکال باہر کرے“۔ باسط کو مارچ سے تنخواہ نہیں ملی۔
بہت سے دیگر مزدور ساتھیوں کی طرح باسط بھی فیکٹری کے براہ راست ملازم نہیں۔ اس وجہ سے وہ کافی مشکلات کا شکار ہیں۔ 17,500 روپے کی تنخواہ میں باسط نے سات افراد کے کنبے کا بوجھ اٹھا رکھا ہے۔ اس عید پر باسط اپنے گھر لاڑکانہ بھی نہ جا سکے۔ لاڑکانہ کراچی سے چھ گھنٹے کی دوری پر ہے۔ باسط کا کہنا ہے: ”ٹکٹ بہت مہنگے ہو گئے ہیں اور میں مشکل سے روٹی پانی کا بندوبست کر رہا ہوں“۔
پورے پاکستان میں گارمنٹ مزدور تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور جبری برطرفیوں کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔ دریں اثنا کرونا بحران کی وجہ سے دنیا میں آبادی کے لحاظ سے پانچویں بڑے ملک کے ان مزدوروں کے لئے اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
زراعت کے بعد گارمنٹ انڈسٹری میں پاکستان کے مزدوروں کی سب سے بڑی تعداد کام کرتی ہے۔ پاکستان کے جی ڈی پی کا 9 فیصد اور کل برآمدات کا 70 فیصد اس صنعت سے آتا ہے۔
مزدور حقوق کے لئے کام کرنے والے رہنما فاروق طارق کا کہنا ہے کہ گارمنٹ فیکٹریوں کے مالکان کرونا کا بہانہ بنا کر مزدوروں کو نوکریوں سے نکال رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بحران تو پہلے سے جاری تھا مگر کرونا نے اس بحران کو اور گہرا کر دیا ہے۔
مارچ میں وزیر اعظم عمران خان نے فیکٹری مالکان پر زور دیا تھا کہ مزدوروں کو نوکریوں سے نہ نکالا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اتنے مزدور کرونا سے ہلاک نہیں ہوں گے جتنے بھوک کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار جائیں گے۔
سندھ حکومت نے ایک حکم نامہ جاری کیا تھا جس کے مطابق مزدوروں کو نوکری سے نہیں نکالا جا سکتا۔ سندھ حکومت نے مزدوروں کے لئے ایک ایمرجنسی فنڈ بھی قائم کیا تھا۔
پاکستان گارمنٹ مصنوعات عموماً امریکہ، چین، برطانیہ اور جرمنی برآمد کرتا ہے مگر کرونا بحران نے اس صنعت کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ ملک بھر میں فیکٹریوں نے پیداوار کم کر دی ہے کیونکہ گلوبل برانڈز نے یا تو آرڈر منسوخ کر دئیے ہیں یا آرڈر چھوٹے کر دئیے ہیں۔
پاکستان سے مال سپلائی کرنے والے اس وجہ سے شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ ان لوگوں نے خود نقصان برداشت کرنے کی بجائے بوجھ مزدوروں پر ڈال دیا ہے جو کسی قسم کا نقصان اٹھانے کی پوزیشن میں ہیں ہی نہیں۔ مزدور حقوق کے لئے کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ مزدورتوپہلے ہی روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کر رہے تھے۔
ادھر لاہور میں بھی پچھلے ہفتے مختلف فیکٹریوں میں مزدوروں نے تنخواہوں کی عدم ادائیگیوں کے خلاف ہڑتالیں کیں۔ سیاسی کارکنوں کا کہنا ہے کہ مالکان مزدوروں کو دھڑا دھڑ نوکریوں سے نکال رہے ہیں۔
پچھلے سال ہیومن رائٹس واچ نے پاکستان کی گارمنٹ فیکٹریوں پر مزدور حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگایا تھا۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق مزدوروں سے بلا معاوضہ اوور ٹائم لیا جاتا ہے، بیماری کی چھٹی نہیں دی جاتی اور کام کے دوران کسی قسم کا وقفہ کرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔
ناصر منصور کا کہنا ہے کہ مالکوں کے لئے مزدوروں کو بر طرف کرنا اس لئے بھی آسان تھا کہ 85 فیصد مزدوروں کے پاس نوکری کا کنٹریکٹ ہی موجود نہیں ہوتا۔ ”فیکٹری مالک گیٹ پر کھڑے چوکیدار کو بتا دیتے ہیں کہ فلاں فلا ں شخص کو اندر مت آنے دینا۔ یوں بغیر کسی لکھت پڑھت کے مزدور نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے“۔
ایسا شائد ہی کوئی مزدور ہو گا جس کے پاس لیبر کورٹ تک جانے کے وسائل میسر ہوں۔
فاروق طارق کا کہنا ہے کہ ”مزدور حقوق کی یہ خلاف ورزیاں پہلے بھی ہو رہی تھیں، مگر چوری چھپے۔ کرونا بحران میں تو کھل کر یہ خلاف ورزیاں شروع ہو گئی ہیں“۔