تمام آئی پی پیز کو فوری طور پر قومی تحویل میں لیا جائے۔ حکمرانوں نے اپنے لئے پالیسیاں بنا کر، جو گزشتہ 27 سالوں کے دوران اس ملک کے شہریوں کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالا ہے، اس کا تخمینہ لگا کر ان آئی پی پیز کے مالکان کی دولت کو ضبط کر کے وہ رقم واپس حاصل کی جائے۔ صرف ان دو اقدامات کے ذریعے سے بجلی کی پیداواری لاگت کئی سو گنا کم ہو جائے گی۔
اسی ضبط شدہ دولت کو استعمال میں لاتے ہوئے ٹرانسمیشن لائنوں کو بہتر کیا جائے تو 34 فیصد لائن لاسز کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح پاکستان میں سستے ترین ذرائع سے پیدا ہونے والی بجلی ہی ملکی ضرورت سے زیادہ ہو سکتی ہے، جس کی بنیاد پر شہریوں کو ٹیکس شامل کر کے بھی 2 سے 5 روپے فی یونٹ بجلی فراہم کی جا سکتی ہے۔
