Month: 2023 اکتوبر


مدیر اعلیٰ ’جدوجہد‘ ڈاکٹر قیصر عباس وفات پا گئے

ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدوجہد کے بانی اراکین میں شامل تھے۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پاکستان کے سرکاری ٹیلیویژن چینل پی ٹی وی میں بطور نیوز پروڈیوسر کام کرتے رہے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہو گئے تھے، وہیں سے پی ایچ ڈی مکمل کی۔
آپ کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ایمبری ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر تھے۔
انہوں نے پاکستانی میڈیا پر From Terrorism to Television: Dynamics of Media, State and Society کے عنوان سے ایک کتاب بھی بطور شریک مدیر، شائع کی ہے جسے معروف عالمی اشاعتی ادارے روٹلیج نے شائع کیا۔ اس کے علاوہ وہ میڈیا کے موضوع پر کئی مقالے اور بک چیپٹرز بھی شائع کر چکے ہیں۔ ڈاکٹر قیصر عباس نے اپنی شاعری اور نثری تحریروں کے ذریعے بھی بے شمار کام کیا ہے۔

فلسطینی عوام کیخلاف اسرائیلی حملے بند کرو: اعلامیہ فورتھ انٹرنیشنل

عالمی سرمایہ داری کے تضادات وحشیانہ جنگوں اور قبضوں کو جنم دے رہے ہیں۔ معاشی اور سیاسی بحرانوں سے خوفزدہ، سرمایہ دارانہ حکومتیں، نسل پرستانہ، پدرانہ اور سامراجی نظریات کی علمبردار، بیرونی اور اندرونی دشمنوں کو تیار کرتی ہیں، جنگوں کو ہوا دیتی ہیں اور جبر جاری رکھتی ہیں۔ اس طرح کے تنازعات نیو لبرل سرمایہ داری کی عالمی منطق، شدید معاشی اور سیاسی مسابقت، وسیع ہوتی عدم مساوات اور ہر سطح پر اس سے پیدا ہونے والے انتشار کی منطق کا حصہ ہیں۔ ہم جن جنگوں کا سامنا کر رہے ہیں ان کا تعلق سرمایہ داری کے عالمی بحران اور اس کے نتیجے میں حریف سامراجی طاقتوں کے درمیان تصادم میں سرد مہری سے ہے۔

صیہونیت، تیل کی پہلی جنگ، مزاحمت

دوسری جنگ عظیم کے خاتمے سے نو آبادیات کے خاتمے کا عمل شروع ہوا۔ کش مکش کے ہاتھوں پرانی سلطنتیں کمزور ہو گئی تھیں۔ جرمن سامراج کو شکست ہو گئی تھی مگر برطانیہ اور فرانس کے ہاتھوں نہیں۔ یہ تاریخ ساز سویت مزاحمت تھی، کرسک اور سٹالن گراڈ کی جنگیں اس مزاحمت کی علامت تھیں، جس نے ویرَماخت٭ کی کمر توڑی۔ امریکہ کی اقتصادی اور فوجی امداد نے بھی فیصلہ کُن کردار ادا کیا۔ امریکہ دنیا کی طاقتور ترین معاشی قوت بن کر اُبھرا مگر وہ سویت یونین کی فوجی طاقت اور تکریم سے پریشان تھا۔ ابھی دوسری جنگ عظیم لڑی جا رہی تھی کہ سرد جنگ، جو بعد میں چلی، شروع ہو چکی تھی۔ امریکہ، سویت یونین اور برطانیہ اس بات پر متفق تھے کہ وہ یورپ کو اپنے اپنے حلقہ اثر میں تقسیم کرلیں گے۔ جرمنی تقسیم کیا جائے گا۔ سٹالن کو مشرقی یورپ ملے گا اور اس کے بدلے میں وہ فرانس، اٹلی اور یونان میں کمیونسٹ مزاحمت کو کُچلے گا اور یہ وہ ممالک تھے جو اینگلو امریکی سامراج کی ذمہ داری تھے۔ جہاں تک باقی دنیا کا تعلق ہے، بالخصوص ایشیا، کسی قسم کا معاہدہ نہیں ہوا تھا۔ امریکہ نے جاپان پر ایٹم بم گرایا اور اس پر قبضہ کر لیا مگر باقی ہر جگہ افراتفری مچی تھی۔

غزہ پر اسرائیلی حملے صحافیوں کے لیے بھی جان لیوا ہیں!

صحافیوں کے تحفظ کی عالمی تنظیم سی پی جے کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق اب تک اس جنگ میں مجموعی طورپر 8,000 عام شہری ہلاک ہوئے جن میں 27 صحافی بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ 8صحافی زخمی اور9 زیرِحراست یا گم شدہ ہیں۔ان میں 22 فلسطینی، 4 اسرائیلی اورایک لبنانی صحافی شامل ہیں۔

غزہ کے دو منظر نامے: گریٹر اسرائیل بمقابلہ اوسلو

صرف ایک چیز جو یقینی ہے وہ یہ ہے کہ غزہ پر اسرائیل کا نیا حملہ اسرائیل فلسطین تنازعہ کی المناک 75 سالہ تاریخ کی تمام پچھلی قسطوں سے پہلے ہی زیادہ مہلک اور تباہ کن ہے۔ یہ بھی یقینی ہے کہ یہ صورت حال تیزی سے مزید خراب ہونے والی ہے۔ یوں پہلے سے ہی دنیا کے سب سے غیر مستحکم علاقے کے عدم استحکام میں مزید اضافہ ہو گا۔ اس کے ساتھ ہی مہاجرین کی نئی لہروں اور تشدد کے پھیلاؤ کے ساتھ یہ تنازعہ گلوبل نارتھ کو غیر مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ ایک بار پھر امریکہ اور اسکے یورپی اتحادیوں کی تنگ نظری اور دہرا معیار پہلے سے زیادہ المناک نتائج کے ساتھ ان کے منہ پر پھٹنے والا ہے۔

سویڈن: قرآن جلانے والے عراقی پناہ گزیں کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ

سلوان کو سیاسی پناہ نہ دینے کا فیصلہ،مجاز ادارے، سویڈش مائگریشن بورڈ نے جاری کیا ہے۔ اس بات کے خطرے کے پیش ِنظر کہ سلوان مومیکا کو عراق ڈی پورٹ کئے جانے پر پھانسی دی جا سکتی ہے، سلوان مومیکا کو ڈی پورٹ نہیں کیا جا رہا۔

خفیہ: ترقی پسند ہدایتکار کی رجعتی فلم

چارو مدد مانگنے کرشنا مہرہ کے پاس جاتی ہے مگر کرشنا مہرہ اس سے بات نہیں کرتی مگر بعد ازاں خود رابطہ کرنے کے لئے ایک غبارے بیچنے والے بچے سے مدد لیتی ہے جو دلی کی ایک مارکیٹ میں غبارے بیچتے ہوئے چارو کو اشارہ کر کے بتاتا ہے کہ سامنے گاڑی میں را کے اہل کار بیٹھے ہیں۔ دلی میں،انڈیا کے ایک عام شہری سے رابطے کے لئے، را کو یہ سب سیکریسی (secrecy)اور ڈرامے بازی کیوں چاہئے؟ کیا وہ ایک خفیہ کال کر کے کسی شہری کے ساتھ ملاقات طے نہیں کر سکتے؟ اب تو عام پولیس کے پاس بھی یہ سہولت ہے کہ وہ کال کریں تو کال ریسیو کرنے والے کی اسکرین پر کال کرنے والے کا نمبر نمودار نہیں ہوتا۔

آئس لینڈ: وزیراعظم ہڑتال پر

’اے پی‘ کے مطابق پبلک ٹرانسپورٹ تاخیر کا شکار ہوئی، ہسپتالوں میں عملہ کم اور ہوٹلوں کے کمرے گندے ہی رہے۔ ہڑتال کے مرکزی منتظمین اور ٹریڈ یونینوں نے خواتین سے اپیل کی کہ وہ بامعاوضہ اور بلامعاوضہ کام سے انکار کریں۔ ملک کی تقریباً 90فیصد ورکرز کا تعلق یونین سے ہے۔