دنیا

غزہ کے دو منظر نامے: گریٹر اسرائیل بمقابلہ اوسلو

جلبیر اشقر

کئی روز قبل عجلت میں غزہ کی پٹی کے شمالی نصف حصے کے 10لاکھ سے زائد باشندوں کو جنوب کی طرف بھاگنے کیلئے صرف 24گھنٹے کا وقت دیا گیا تھا۔ تاہم تادم ِتحریر غزہ پر اسرائیلی مسلح افواج کا زمینی حملہ شروع ہونا باقی ہے۔ یہ تاخیر اس حقیقت کی عکاسی کرتی ہے کہ اسرائیل کی سیاسی قیادت اور فوجی کمان کے پاس غزہ پر حملے کے لیے اس پیمانے پر کوئی منصوبہ بندی نہیں تھی، جس پر وہ 7 اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد سے سوچ رہے تھے۔

اسرائیلی مسلح افواج شاید ہی غزہ پر دوبارہ قبضے کی توقع کر رہی ہوں گی، جسے انہوں نے 18 سال قبل خالی کیا تھا۔ انہوں نے2006، 2008-09، 2012، 2014اور 2021میں غزہ کی پٹی پر جو کاررائیاں کیں وہ بنیادی طور پربمباری پر مشتمل تھیں۔ صرف2009اور2014میں محدود زمینی حملے بھی کئے گئے۔ تاہم 7اکتوبر کے غیر معمولی اور تکلیف دہ اقدام نے اسرائیل کے رہنماؤں کیلئے غزہ سے حماس کے مکمل خاتمے اور غزہ کی پٹی پر ’امن‘ سے کم کوئی ہدف طے کرنا ناممکن بنا دیا ہے۔

یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے، کیونکہ اس طرح کے گنجان آباد علاقے پر حملہ نہ صرف اس قسم کی شہری جنگ میں شامل ہے جو حملہ آور کے لیے انتہائی خطرناک ہے، بلکہ یہ سب سے زیادہ سنگین مسئلہ پیدا کرتا ہے کہ فتح سے اگلے دن فتح شدہ علاقے کے ساتھ کیا کیا جائے۔یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ مسئلہ صرف فوجی ہی نہیں بلکہ بنیادی طور پر یہ مسئلہ سیاسی بھی ہے۔ موجودہ حالات میں سیاسی اور عسکری تحفظات کا سخت باہمی انحصار خاص طور پر واضح ہے۔ اسرائیل کے اعلان کردہ اہداف کے تعاقب میں تشدد کا وہ پیمانہ ناگزیر ہے،جو ناگزیر طور پر سیاسی نتائج کو ہوا دے گا، جس کا اثر خود جنگ کے انعقاد پر پڑے گا۔

اس صورتحال میں سب سے واضح عنصر یہ ہے کہ اسرائیل اپنے فوجیوں کے جانی نقصان کو کم ہی برداشت کرتاہے۔یہ سب 2011 میں غزہ میں قید اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کے تبادلے میں 1,000 سے زیادہ فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے اقدام سے کھل کر واضح ہوتا ہے۔

اس طرح اسرائیلی فوجی کیلئے ایسے حالات میں زمینی حملے کرنا ناممکن ہوجاتا ہے، جن کی قیمت بڑی تعداد میں فوجیوں کی جانیں ہوں۔ خاص کر ایسے حملے جو روسی فوجی (ریگولر یا ویگنر نیم فوجی سروس سے وابستہ)2022سے یوکرین میں کر رہے ہیں۔ یہاں عراق کے ساتھ 1980-88کی جنگ کے دوران ایران کی ’ہیومن ویوز‘ جیسے انتہائی واقعات کا تذکرہ نہیں کیا جارہا ہے۔

بلا شبہ،مصر کے صحرائے سینا یا شام کی گولان کی پہاڑیوں جیسے خطوں میں اسرائیلی فوج کی برتری بہت زیادہ ہے، جہاں عمارتیں بہت کم ہیں اور دور سے گولہ باری فیصلہ کن ہے۔ اس کے برعکس جب اگست 1982کے اوائل میں اس وقت کے اسرائیل کے وزیر دفاع ایریل شیرون نے اپنے فوجیوں کو محصور بیروت میں داخل ہونے کا حکم دیا، تو انہیں اگلے دن یہ کوشش ترک کرنی پڑی۔ بیروت سے فلسطینی جنگجوؤں کے مذاکرات کے بعد انخلاء کے بعد ہی اسرائیلی افواج ستمبر کے وسط میں شہر پر حملہ کرنے میں کامیاب ہو ئیں۔ لبنان میں شہریوں پر مبنی مزاحمتی تحریک کی جانب سے انہیں نشانہ بنانے کے بعد وہ اُسی ماہ کے آخر تک پیچھے ہٹ گئے۔

اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اسرائیل کی فوج کے لیے غزہ کی پٹی کے اتنے گھنے اور وسیع شہری منظر نامے کے کسی بھی حصے پر کم سے کم فوجی نقصان کے ساتھ حملہ کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ وہ جن علاقوں پر قبضہ کرنا چاہتی ان علاقوں کو زمینی جارحیت سے قبل شدید بمباری کے ذریعے زمین بوس کر دے۔ درحقیقت یہ وہی طریقہ کار ہے جو 7 اکتوبر کے فوراً بعد شروع کیا گیا ہے، جو کہ حدت اور شدت دونوں میں اسرائیل کی بمباری کی 2006میں لبنان سے لے کر غزہ پر مسلسل جنگوں تک کی سابقہ مہمات سے زیادہ شدید ہے۔ اسرائیلی فوج کے لیے گزشتہ کسی بھی جنگ میں شہری علاقوں کو زمین بوس کرنا ممکن نہیں تھا۔ یقیناًایسا تباہ کن طاقت کی کمی کی وجہ سے نہیں تھا، لیکن ضروری سیاسی حالات کی عدم موجودگی کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں تھا۔

یہ 1982 میں سب سے زیادہ واضح تھا، جب بیروت کے اسرائیلی محاصرے نے خود اسرائیل کے اندر ایک بڑے بین الاقوامی چیخ و پکار اور سیاسی بحران کو جنم دیا۔میناچم بیگن اور ایریل شیرون کی لیکود حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج شروع ہو گئے تھے۔ غزہ کے خلاف پچھلی جنگوں میں اسرائیل کی مسلح افواج کا ویسے بھی غزہ کے کچھ حصے پر دوبارہ قبضہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ اس بار یہ ارادہ واضح طور پر ظاہر ہے اور بڑی تعداد میں اسرائیلی شہریوں کے ساتھ ساتھ فوجیوں کے بے مثال قتل سے آنے والے صدمے کی لہریں اس حد تک ہیں کہ اسرائیلی عوام اور اسرائیل کے روایتی بین الاقوامی حمایتی دونوں ہی دوبارہ قبضے کی واضح طور پر منظوری دے رہے ہیں۔ حماس کے خاتمے اور اسلامک اسٹیٹ گروپ کے ساتھ مشابہت کا پوری پٹی میں سرچ اور سویپ آپریشن کرنے سے کم کیا مطلب ہوسکتا ہے؟

ڈاکٹرائن آف وکٹری

جیسا کہ فنانشل ٹائمز نے حال ہی میں فوجی ماہرین کے انٹرویوز کی بنیاد پر رپورٹ کیا ہے کہ:

”اسرائیل کی فوج اپنے نام نہاد ’ڈاکٹرائن آف وکٹری‘کو استعمال میں لائے گی، جس کے لیے فضائیہ کو پہلے سے جانچے گئے اہداف کو تیزی سے تباہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ سب پہلے سے ہی شروع ہو چکا ہے۔ لڑاکا طیارے غزہ کے بڑے حصوں پر شدید بمباری کررہے ہیں،اور صرف ایندھن بھرنے کے لیے رکتے ہیں، وہ بھی اکثر ہوا میں ہی بھرتے ہیں۔ اس مہم کا مقصد حماس کی دوبارہ منظم ہونے کی صلاحیت کو ختم کرناہے، اور 2020 کی ڈاکٹرائن کو تخلیق کرنے والے مباحثوں سے واقف ایک شخص کے مطابق،’اسرائیل بین الاقوامی برادری کی جانب سے سیاسی دباؤ سے پہلے زیادہ سے زیادہ اہداف حاصل کرناچاہے گا‘۔“

یہ تو تھا وہ فوجی منظر نامہ، جو پک رہا ہے۔ اب آتی ہیں سیاسی جہتیں۔ اگر واقعی فوجی مقصد حماس کو ختم کرنے کے لیے غزہ پر دوبارہ قبضہ کرنا ہے، تو اگلے سوالات فطری طور پردرج ذیل ہیں:

حماس کو کب تک ختم کرنا ہے اور حماس کی جگہ کس کو لانا ہے؟ سیاسی حکمت عملی کے ان دو سوالوں پر اختلاف کی گنجائش عسکری حکمت عملی کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے، جن کے پیرامیٹرز بہت کم ہیں کیونکہ ان کا انحصار معروضی تحفظات اور فوجی ذرائع کی نوعیت پر ہے۔سیاسی طور پر دو نقطہ نظر دو مخالف منظر ناموں میں اپنا اظہار کرتے ہیں، جنہیں ہم ’گریٹر اسرائیل کا منظر نامہ‘ اور ’اوسلو کا منظر نامہ‘ کہہ سکتے ہیں۔

گریٹر اسرائیل

گریٹر اسرائیل کا منظر نامہ وہ ہے جو بنجمن نیتن یاہو اور اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے ان کے ساتھیوں کو سب سے زیادہ اپیل کرتا ہے۔ لیکود پارٹی صہیونی انتہائی دائیں بازو کی وارث ہے، جسے اصلاح پسند صیہونیت کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کی مسلح شاخوں نے دیر یاسین میں قتل عام کیا، جو 1948 میں فلسطینیوں کا سب سے بدنام ِزمانہ قتل عام تھا، جس کو عرب النکبہ (تباہی) کہتے ہیں۔ برطانوی مینڈیٹ فلسطین کے 78% علاقے پر صہیونی مسلح افواج نے اس سال کی جنگ کے دوران قبضہ کیا تھااور80فیصد فلسطینی آبادی کو اکھاڑ پھینکا گیا (صہیونیوں کو اقوام متحدہ کی ایک نوزائیدہ تنظیم کی طرف سے منظور شدہ تقسیم کے منصوبے کے ذریعے 55% حصہ دیا گیا تھا، جو اس وقت گلوبل نارتھ ممالک کے زیر تسلط تھا)۔

فلسطینی دیر یاسین جیسے مظالم سے خوفزدہ ہو کر جنگ سے بھاگ گئے تھے اور انہیں کبھی بھی اپنے گھروں اور زمینوں پر واپس جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس سب کے باوجود بھی صہیونی انتہائی دائیں بازو نے مرکزی دھارے کی صیہونیت کو کبھی معاف نہیں کیا، جس کی قیادت اس وقت ڈیوڈ بین گورین کر رہے تھے، کیونکہ انہوں نے بحیرہ روم اور دریائے اردن کے درمیان برطانوی مینڈیٹ والے فلسطین کے 100فیصد حصے کو فتح کرنے سے پہلے جنگ روکنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔

7اکتوبر سے صرف دو ہفتے قبل نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی حالیہ تقریر کے دوران نیتن یاہو نے مشرق وسطیٰ کا ایک نقشہ پیش کیا،جس میں ایک گریٹر اسرائیل دکھایا گیا تھا، جس میں غزہ اور مغربی کنارے کے علاقے بھی شامل تھے۔ تاہم حالیہ غزہ جنگ سے بھی زیادہ زیر ِبحث لانے کے قابل ایک اور حقیقت ہے، جس کا عالمی میڈیا پر شاید ہی تذکرہ کیا گیا ہو۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ نیتن یاہو نے 2005 میں شیرون کی قیادت میں اسرائیلی کابینہ سے غزہ سے دستبرداری کے فیصلے کے خلاف احتجاجاً استعفیٰ دے دیا تھا (شیرون 1999 میں لیکوڈ کے سربراہ کے طور پر نیتن یاہو کی جگہ لے گئے تھے، بعد میں ایہود بارک کی قیادت میں لیبر پارٹی سے انتخابی شکست کے بعد شیرون پھر 2003 میں اگلا الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوئے، اور نیتن یاہو کو وزیر خزانہ نامزد کیا تھا)۔

شیرون، ایک سیاست دان سے کہیں زیادہ ایک فوجی آدمی تھے۔ شیرون نے غزہ کی پٹی کو باہر سے کنٹرول کرنے کو ترجیح دی اور بے قابو غزہ سے فوج کے انخلا کے لئے فوج کی درخواست پر توجہ دی۔ انہیں غزہ کے الحاق کا کوئی امکان نظر نہیں آیا،جیسا کہ 1967 میں مغربی کنارے پر قبضے کے بعد سے ہو رہا ہے۔ اس لیے انہوں نے فیصلہ کیا کہ 1993 کے اوسلو معاہدے کے ذریعے قائم ہونے والی فلسطینی اتھارٹی کے ذریعے غزہ کو قابو رکھنا بہتر ہوگا،تاکہ مغربی کنارے پر توجہ مرکوز کی جا سکے، جو زیادہ موزوں اور متفقہ صہیونی ہدف ہے۔

اوسلو معاہدے ک تحت،صرف مغربی کنارے کے ان علاقوں سے اسرائیلی فوجیوں کے انخلاء کی ضرورت تھی جہاں فلسطینیوں کی گنجان آبادی ہے، جبکہ اسرائیل کو زیادہ تر علاقے پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کی اجازت ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ اپنی حقارت ظاہر کرنے کیلئے شیرون نے فلسطینی اتھارٹی کو اعتماد میں لئے بغیر2005میں غزہ سے یکطرفہ طور پر انخلاء کا انتخاب کیا۔ دو سال بعد حماس نے غزہ کی پٹی میں اقتدار پر قبضہ کر لیا۔

نیتن یاہو نے شیرون کے اس فیصلے پر احتجاج کیا۔ انہوں نے لیکوڈ کے اندر شیرون کے خلاف اپوزیشن کی قیادت کی اور اتنی طاقت جمع کی کہ انہیں پارٹی چھوڑنے پر اکسایا جائے اور اسی سال 2005 میں شیرون نے ایک نئی جماعت قائم کر لی۔ تب سے نیتن یاہو لیکوڈ کی قیادت کر رہے ہیں۔ نیتن یاہونے 2009 میں اسرائیلی سیاسی منظر نامے کو تقسیم کرنے کے اصول پر کھیلتے ہوئے وزارت عظمیٰ کے لیے اپنا راستہ طے کیا۔ یہ ایک ایسا فن ہے جس میں ایک بہترین موقع پرست کے طور پرنیتن یاہوکو کمال مہارت حاصل ہے۔ نیتن یاہو جون 2021 تک اس عہدے پر فائز رہے۔ 2022 کے آخر تک وہ اسرائیل کی تاریخ میں انتہائی دائیں بازو کی حکومت کی سربراہی کر رہے ہیں۔ یہ سب ایک ایسے ملک میں ہو رہا ہے،جہاں 1977 میں لیکوڈ کی پہلی فتح کے بعد سے مسلسل کئی حکومتوں کو ’تاریخ میں سب سے زیادہ دائیں بازو‘ کا نام دیا گیا ہے۔ نیتن یاہو نے 2020 میں ڈونلڈ ٹرمپ (اور جیرڈ کشنر کے) ’امن منصوبے‘پر صرف اس لئے رضامندی ظاہر کی، کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ فلسطینی اسے قبول نہیں کر سکتے۔ انہوں نے ممکنہ طور پر فلسطینیوں کے اس ناگزیرانکار کو بعد میں کسی وقت مغربی کنارے کے بیشتر حصوں کے یکطرفہ الحاق کے ایک اچھے بہانے کے طور پر دیکھا۔

اسرائیل کا گیارہ ستمبر

غزہ پر دوبارہ فتح کے امکان کے لیے ایک بڑی ہلچل درکار تھی جو افق پر دور دور کہیں دکھائی نہیں دیتی تھی۔ کوئی بھی یہ توقع نہیں کر سکتا تھا کہ یہ موقع حماس کے ’ال اقصیٰ فلڈ‘آپریشن سے اچانک پیدا ہو جائے گا۔ یہ واقعی اسرائیل کے نائن الیون کے برابر تھا۔ 7 اکتوبر درحقیقت ملک کی آبادی کے لحاظ سے نائن الیون کے مقابلے میں 20 گنا زیادہ مہلک تھا، جیسا کہ نیتن یاہو نے 18 اکتوبر کو اسرائیل کے دورے کے دوران جو بائیڈن کو بتایا۔بالکل ایسے ہی جیسے نائن الیون نے ایسے سیاسی حالات پیدا کئے، جنہوں نے بش انتظامیہ کے عراق پر حملے کی راہ ہموار کی، اسرائیل کے 7اکتوبر نے بھی غزہ کو فتح کرنے کیلئے اسرائیل کیلئے ویسے ہی حالات پیدا کئے۔ نیتن یاہو طویل عرصہ سے اس موقع کی انتظار میں تھے، لیکن کھلم کھلا اس کا اظہار نہیں کیا جا سکتا۔ وہ یہ ہدف حاصل کر سکتے ہیں یا نہیں، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے، لیکن صہیونی سخت گیر دائیں بازو کی خواہش یہی ہے۔

اسرائیل کے سیاسی اور فوجی حکام کی طرف سے غزہ کے باشندوں کو مصر کی سرحد کی جانب جنوب کی سمت فرارکیلئے بار بار کئے جانے والے اعلانات اور مصر کو جزیرہ نما سینائی کا دروازہ کھولنے اور غزہ کی زیادہ تر آبادی کو اپنے قبضے میں لینے کی بے تابی کو مصریوں نے درست طور پر غزہ کے باشندوں کو غیر معینہ مدت کیلئے سینائی میں آباد ہونے کی دعوت سمجھا ہے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے، جس طرح 1948اور1967میں اپنی سرزمین سے بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کو پڑوسی عرب ممالک میں مستقل پناہ گزینوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ 18 اکتوبر کو مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے اس خیال پر ٹھنڈا پانی ڈالتے ہوئے چالاکی سے اسرائیل کو مشورہ دیا کہ اگر وہ واقعتا انہیں عارضی پناہ دینا چاہتے ہے تو وہ غزہ کے باشندوں کو اپنے ہی 1948 کے علاقے میں پناہ دے۔

گریٹر اسرائیل 7اکتوبر کے بعد بھی اسرائیل کے رہنماؤں کی متفقہ خواہش نہیں ہے، تاہم اسے امریکہ میں ریپبلکن پارٹی کے انتہائی دائیں بازو اور عیسائی صیہونیوں کے درمیان کچھ حمایت حاصل ہے، لیکن یقینی طور پر امریکی خارجہ پالیسی،اسٹیبلشمنٹ، خاص طور پر ڈیموکریٹس کے زیادہ ترحصے میں بھی اس کی حمایت نہیں ہے۔

بائیڈن انتظامیہ نیتن یاہو کے لیے بہت کم ہمدردی رکھنے کے لیے مشہور ہے، جنہوں نے 2012میں باراک اوباما(بائیڈن انکے ساتھ نائب صدر کےامیدوار تھے) کے خلاف صدارتی انتخابات میں مٹ رومنی کی کھل کر حمایت کی تھی۔ بائیڈن انتظامیہ فلسطینی ریاست کے اوسلو معاہدے کے ذریعے حل کرنے کے امکان پر قائم ہے، تاکہ اس کو بہانہ بنا کر فلسطینی کاز کو سائیڈ لائن کرنے اور سرائیل اور عرب ریاستوں کے درمیان روابط اور تعاون کی ترقی کیلئے راستہ صاف کیا جا سکے۔

یہی وجہ ہے کہ بائیڈن نے 15 اکتوبر کو سی بی ایس کو بتایا کہ اسرائیل کے لیے غزہ پر قبضہ کرنا ’ایک بڑی غلطی‘ ہوگی۔ امریکی صدر کا یہ مطلب نہیں تھا کہ حماس کو ختم کرنے کے لیے پوری پٹی پر حملہ کرنا غلطی ہو گی۔ اس کے برعکس انہوں نے واضح طور پر کہا کہ ”اندر جانا لیکن انتہا پسندوں کو باہر نکالنا… ایک لازمی ضرورت ہے۔“ پھر پوچھا گیاکہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ حماس کو مکمل طور پر ختم کر دینا چاہیے؟ بائیڈن نے جواب دیا:

”جی ہاں، میں سمجھتا ہوں۔ لیکن ایک فلسطینی اتھارٹی کی ضرورت ہے۔ فلسطینی ریاست کے لیے ایک راستہ ہونا چاہیے۔ وہ راستہ، جسے ’دو ریاستی حل‘ کہا جاتا ہے، کئی دہائیوں سے امریکی پالیسی رہی ہے۔ یہ[عمل] غزہ اور دریائے اردن کے مغربی کنارے پر رہنے والے 50 لاکھ فلسطینیوں کے لیے اسرائیل کے ساتھ ایک آزاد ملک تشکیل دے گا۔“

بائیڈن کے اسرائیل کے دن بھر کے دورے کا مقصد نہ صرف 2024 کے صدارتی انتخابات کے لیے ان کے سیاسی پروفائل کو بڑھانا تھا،بلکہ اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ ٹرمپ، دائیں بازو کے ریپبلکن اور انجیلی بشارت کے عیسائی صیہونی اسرائیل کے لیے اپنی فوجی حمایت میں انھیں پیچھے نہ چھوڑ سکیں۔ (یہاں یہ واضح رہے کہ ایسا کرتے ہوئے بائیڈن امریکی شہریوں کی اکثریت اور خاص طور پر ڈیموکریٹس کی اکثریت کے خیالات کے خلاف جا رہے ہیں، جو اسرائیل فلسطین تنازعہ کے لیے زیادہ متوازن طرز عمل کے حامی ہیں)۔

بائیڈن کا مقصد،انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کرنے اور یہ ظاہر کرنے کیلئے کہ انکی انتظامیہ اس تباہی کو ختم کرنے کیلئے ہرممکن کوشش کر رہی ہے، صرف ایک ٹوکن مذاکرات کرنا بھی نہیں تھا۔ شاید انکا پہلابنیادی مقصد اسرائیلی سیاست کو، نیتن یاہو کے ساتھ یا ان کے بغیر،اوسلو کے نقطہ نظر پر قائم رہنے کی ضرورت پر قائل کرنا تھا۔ ان کا مقصد فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس اور اردن کے بادشاہ سے ملاقات کرکے اس کوشش کو فروغ دینا تھا، لیکن ان کے دورے کے موقع پر العہلی عرب ہسپتال کی تباہی نے ان کے منصوبے کو ناکام بنا دیا۔

اوسلو معاہدہ

ابھی تک سب سے واضح اشارہ یہ ہے کہ اسرائیلی فوجی اورسیاسی اسٹیبلشمنٹ کا ایک حصہ بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ متفق نظر آتا ہے۔اس کا واضح اشارہ اسرائیلی مسلح افواج کے سابق چیف آف جنرل اسٹاف اور سابق وزیر اعظم ایہود بارک نے فراہم کیا ہے۔ انہوں نے دی اکانومسٹ کے ساتھ ایک انٹرویو میں اوسلو کے منظر نامے کوٹھیک قرار دیتے ہوئے کہا کہ:

”مسٹر بارک کا خیال ہے کہ حماس کی عسکری صلاحیتوں کو کافی حد تک کم کرنے کے بعد بہترین نتیجہ غزہ میں فلسطینی اتھارٹی کا دوبارہ قیام ہے۔ … تاہم انہوں نے خبردار کیا ہے کہ فلسطینی صدر محمود عباس کو’اسرائیلی سانچے پر لوٹتے ہوئے نہیں دیکھا جا سکتا‘۔ لہٰذا ایک عبوری مدت کی ضرورت ہوگی،جس کے دوران ’اسرائیل بین الاقوامی دباؤ کے سامنے جھک جائے گا اور غزہ کو ایک عرب امن فوج کے حوالے کرے گا، جس میں مصر، مراکش اور متحدہ عرب امارات جیسے ارکان شامل ہوسکتے ہیں۔ وہ اس علاقے کو اس وقت تک محفوظ رکھیں گے جب تک کہ فلسطینی اتھارٹی کنٹرول نہیں کر لیتی‘۔“

حقیقت یہ ہے کہ اوسلو کا عمل 1993 میں بڑی دھوم دھام کے ساتھ شروع ہونے کے فوراً بعد ہی رک گیا تھا، جس کی وجہ سے 2000 میں دوسی انتفادہ (مزاحمت)شروع ہوئی۔اس کے بعد اسرائیل نے مغربی کنارے کے ان حصوں پر عارضی طور پر دوبارہ قبضہ کر لیا،جنہیں اس نے فلسطینی اتھارٹی کے حق میں خالی کر دیا تھا۔ اس طرح اوسلو معاہدہ بھی واشنگٹن اور اس کے اتحادیوں کیلئے واحد قابل عمل تصفیہ کے طور پر نظر نہیں آرہا ہے۔ وہ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ کسی قسم کے علاقائی تبادلے کے ذریعے دریائے اردن کے مغرب میں فلسطینیوں کی آبائی زمین کے 22فیصد حصے پر بکھری ہوئی آزاد ریاست کا قیام، جیسا کہ ٹرمپ اور کشنر کے ’امن منصوبے‘ میں تصور کیا گیا تھا، بالآخر مغربی کنارے کے ان علاقوں کے الحاق کا سلسلہ وسیع کر سکتا ہے، جہاں آبادکاری کی جا رہی ہے۔

بالآخر دو منظرناموں، گریٹر اسرائیل اور اوسلو، کا انحصاراسرائیل کی حماس کو اس حد تک تباہ کرنے کی صلاحیت پر ہے،جو حماس کو غزہ پر قابو پانے سے روکنے کے لیے کافی ہے۔ اس کیلئے اگر ساری نہیں تو کم از کم غزہ کی پٹی کے زیادہ ترحصہ کی فتح شامل ہے۔یہ ایک ایسا مقصد ہے جسے وہ صرف غزہ کے زیادہ تر حصے کو تباہ کر کے حاصل کر سکتے ہیں، جس کی بھاری انسانی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔

حماس اور سری لنکا

واشنگٹن پوسٹ نے حال ہی میں انسداد دہشت گردی کے ماہر اور جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے پروفیسر بروس ہوفمین کا حوالہ دیا، جنہوں نے سری لنکا کے شمالی حصے میں تامل ٹائیگرز کے خاتمے کی طرف اشارہ کیا کہ اس طرح کی کوششوں میں کامیابی کی یہ واحد قسم ہے۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق 2009 میں سری لنکا کی مسلح افواج کے ایک فوجی حملے کے بعد ٹائیگرز کا صفایا کر دیا گیا تھا،جس میں 40,000 شہریوں کی ہلاکت شامل تھی۔انہوں نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ’خدا نہ کرے کہ آج اس طرح کا قتل عام سامنے آئے‘۔ انکا مزید کہنا تھا کہ ’لیکن اگر آپ کسی دہشت گرد تنظیم کو تباہ کرنے کے لیے پرعزم ہیں تو آپ کر سکتے ہیں۔ ایک بے رحمی ہے جو اس[تنطیم] کے ساتھ برتی ہے۔‘

یاد رہے، سری لنکا میں ہونے والے واقعات کی نسبت دنیا کی توجہ مشرق وسطیٰ میں ہونے والے واقعات پر زیادہ مرکوز ہے۔۔۔ لہٰذا سوال یہ بنتا ہے کہ اسرائیلی فوج اہلکاروں کے جانی نقصانات اور بین الاقوامی دباؤ کے امتزاج سے پہلے،کیا اقدامات ہیں جس کے تحت اِسے رکنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ اس کیلئے بھی ضروری ہے کہ لبنان کی حزب اللہ میں شامل علاقائی تصادم کے امکان کا ذکر نہ کیا جائے، جس کی ایران حمایت کر رہا ہے۔

گویایہ کسی بھی طرح سے یقینی نہیں ہے کہ دونوں میں سے کسی ایک [گریٹر اسرائیل یا اوسلو]منظرنامے کو عملی جامہ پہنایا جائے گا۔ اسرائیل کی فوج نے محتاط انداز میں ایک کم سے کم منصوبہ تیار کیا ہے، جس میں غزہ کے اندر اس کی تمام سرحدوں کے ساتھ ایک نیا توسیعی بفر زون بنایا جائے گا، جس سے پٹی کی حالت کو ’اوپن ایئر جیل‘ کے طور پر مزید خراب کردیا گیا ہے۔

صرف ایک چیز جو یقینی ہے وہ یہ ہے کہ غزہ پر اسرائیل کا نیا حملہ اسرائیل فلسطین تنازعہ کی المناک 75 سالہ تاریخ کی تمام پچھلی قسطوں سے پہلے ہی زیادہ مہلک اور تباہ کن ہے۔ یہ بھی یقینی ہے کہ یہ صورت حال تیزی سے مزید خراب ہونے والی ہے۔ یوں پہلے سے ہی دنیا کے سب سے غیر مستحکم علاقے کے عدم استحکام میں مزید اضافہ ہو گا۔ اس کے ساتھ ہی مہاجرین کی نئی لہروں اور تشدد کے پھیلاؤ کے ساتھ یہ تنازعہ گلوبل نارتھ کو غیر مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ ایک بار پھر امریکہ اور اسکے یورپی اتحادیوں کی تنگ نظری اور دہرا معیار پہلے سے زیادہ المناک نتائج کے ساتھ ان کے منہ پر پھٹنے والا ہے۔

Gilbert Achcar
Website | + posts

جلبیر اشقر اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز لندن کے پروفیسر ہیں۔ وہ مذہب کے سیاسی کردار اور بنیاد پرستی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔