پاکستان سے پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری اور حقوق خلق پارٹی کے صدر فاروق طارق اس کانفرنس میں ان پرسن شرکت کرینگے۔ اس کانفرنس میں آن لائن شریک ہونے کیلئے ویب سائٹ پر دیئے گئے لنک کے ذریعے سے رجسٹریشن کروائی جا سکتی ہے۔
Month: 2023 اکتوبر
پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کی ملک بدری روکی جائے: آن لائن پٹیشن دائر
پاکستان میں افغانوں کی جدوجہد کو نسلی اور مذہبی اقلیتوں، سیاسی اختلاف، بے گھر پاکستانیوں، خواتین اور دیگر پرتوں کی جدوجہد سے جوڑا جانا چاہیے۔ پاکستان میں افغانوں کی جدوجہد دنیا بھر کے افغانوں کے ساتھ دنیا بھر کے مظلوم لوگوں، مہاجرین اور تارکین وطن کی جدوجہد سے بھی جڑی ہوئی ہے۔
فتح اسرائیل کے گلے پڑ جائے گی: ایک تاریخی، مارکسی تجزیہ
دوسری جانب عربوں کو چاہیے کہ وہ احمقوں کی سوشلزم اوراحمقوں کی سامراج مخالفت سے پرہیز کریں۔ ہمیں امید ہے کہ وہ اس کا شکار نہیں ہوں گے، اپنی شکست سے سبق سیکھتے ہوئے اور اس شکست سے جانبر ہوتے ہوئے وہ ایک حقیقی ترقی پسند، سوشلسٹ مشرق وسطیٰ کی بنیا د رکھیں گے۔
قابل تجدید توانائی کیلئے 10 ٹریلین ڈالر کی ضرورت، کشیدگی معیشت کیلئے خطرہ ہے، ورلڈ بینک
ورلڈ بینک کے سربراہ اجے بنگا نے کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے تنازعہ کی وجہ سے بڑھتی ہوئی جغرافیائی کشیدگی اس وقت عالمی معیشت کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے، لیکن اس کے علاوہ دیگر خطرات بھی درپیش ہیں۔
ایشیا پیسیفک: کچی آبادیوں میں 65 کروڑ لوگ رہائش پذیر
ایشیا پیسیفک خطے میں قائم کچی آبادیوں میں سب سے زیادہ 65کروڑ لوگ رہائش پذیر ہیں، جو انتہائی کمزور اور پسماندہ ہیں۔ اس خطے میں آبادی کی تعداد میں بھی غیر معمولی شرح سے اضافہ جاری ہے۔ شہروں کی آبادی2050تک بڑھ کر 3ارب 40کروڑ تک پہنچنے کا امکان ہے، یہ آبادی اس وقت اڑھائی ارب نفوس پر مشتمل ہے۔
پاکستانیوں کی توقعات اور امید کہاں کھڑی ہے؟
سنئے پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین کے سیکرٹری جنرل قمر الزماں خان کا تجزیہ و تبصرہ بعنوان ’پاکستانیوں کی توقعات اور امید کہاں کھڑی ہے؟‘
موت حکمران بانٹ رہے ہیں، زندگی ہم چھین کر لیں گے
معمول کے ادوار میں جب محنت کش طبقہ خاموشی سے حکمران طبقے کا ظلم و جبر برداشت کر رہا ہوتا ہے حکمران طبقہ خود کو دیوتا تصور کرنے لگتا ہے۔وہ محنت کشوں کا استحصال کرنا اپنا حق تصور کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے اس کی طاقت کو لگام دینے والا کوئی نہیں ہے۔ غلاموں میں یہ جرأت کہاں ہے کہ وہ ہمارے سامنے سر اٹھا سکیں۔عام حالات میں محکوم طبقے پر بھی حکمران طبقے کے نظریات غالب ہوتے ہیں۔محنت کش طبقہ خود کو حکمران طبقے کی دولت اور ریاست کے مقابلے میں حقیر، کمزور اور بے بس محسوس کرتا ہے۔جبر و استحصال اور محرومیوں کو مقدر سمجھ کر برداشت کرتا ہے،لیکن برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے،ظلم حد سے جب بڑھتا ہے تو بغاوت ہوتی ہے۔وہ بغاوت حکمران طبقے کی ریاست،ان کی سیاست، ان کے نظریات، اخلاقیات اور نفسیات کے خلاف ہوتی ہے، جو غربت اور محرومی کو محنت کشوں کا مقدر قرار دیتی ہے۔غلام مزید غلامی سے انکار کر دیتے ہیں۔ان میں اپنے ہونے کا احساس پیدا ہوتا ہے۔
24 ارب ڈالر کی چین اسرائیل تجارت: مسئلہ فلسطین میں عرب نہیں، ارب اہم
واضح رہے کہ اسرائیل پہلی اور واحد غیر کمیونسٹ ریاست تھی، جس نے 1950میں قیام کے ایک سال بعد عوامی جمہوریہ چین کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا۔ تاہم سرد جنگ کے عروج کے ساتھ ہی سفارتکاری کے امکانات کم ہو گئے اور چین نے فلسطینی رہنماؤں کے ساتھ سیاسی اور فوجی تعلقات کو مضبوط کیا۔ 1955میں چین نے عرب مندوبین سے فلسطینی کاز کی حمایت کا وعدہ کیا تھا۔ 1960کی دہائی کے وسط میں الفتح اور فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن(پی ایل او) کے رہنماؤں نے چین کا دورہ بھی کیا۔ اس وقت چین نے فلسطینیوں کو فوجی تربیت کی پیشکش بھی کی۔
نواز شریف کی واپسی
جن تضادات نے حالات کو اس نہج تک پہنچایا ہے ان میں سے ایک بھی حل نہیں ہوا۔ اسٹیبلشمنٹ یا ڈیپ سٹیٹ کے ساتھ نواز شریف کا رشتہ جتنا ناپائیدار پہلے تھا اتنا ہی آج ہے۔ لیکن پاکستان کے حکمران طبقات اور پالیسی سازوں کے پاس اتنی گہرائی میں سوچنے کی نہ سکت ہے نہ وقت۔ لہٰذا وہ گھوم پھر کے پھر اسی تجربے کو دہرانے جا رہے ہیں جو ماضی میں کئی بار فیل ہو چکا ہے۔ شاید وہ اس کے علاوہ کچھ کر بھی نہیں سکتے۔ تاریخی طور پر ناکام نظاموں کے نمائندے دوررس دیکھنے اور سوچنے کی صلاحیتوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔ چہرے جتنے بھی تبدیل ہوتے رہیں‘ حکومتیں آتی جاتی رہیں‘ محنت کش عوام کے لئے ایسے نظاموں میں ذلت اور بربادی کے سوا کچھ مضمر نہیں ہوتا۔ جب تک انہیں اکھاڑا نہ جائے‘ معاشرے ترقی اور آسودگی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتے۔
جموں کشمیر پر قبائلی حملہ: 74 سالہ ’زخموں‘ سے نجات خود انحصاری کی متقاضی!
رواں سال 22 اکتوبر کو جموں کشمیر پر قبضے کی غرض سے پاکستانی ریاست کی ایما پر ہونے والے منظم قبائلی حملے کو 74 سال مکمل ہو رہے ہیں۔ تاریخ کے اوراق میں ابھی تک اس واقع کو متعدد مرتبہ کریدہ جا چکا ہے اور ہر مرتبہ وحشت و بربریت کی ایک نئی داستان ان واقعات کی ہولناکی میں اضافہ ہی کرتی آئی ہے۔