دنیا

اسرائیل سے فخری زادہ کا انتقام، ایرانی حکمران دو دھڑوں میں تقسیم: نگار مرتضوی

قیصر عباس

حال ہی میں ایران کے جوہری پروگرام کے سرکردہ سائنسدان محسن فخری زادہ کو ایک حملے میں ہلاک کیا گیا ہے۔ یہ کوئی پہلا حملہ نہیں، اس سے پہلے بھی امریکہ نے اسی سال جنرل قاسم سلیمانی، جنہیں ایران کی مشرق وسطیٰ میں فوجی سرگرمیوں کا روحِ رواں کہا جاتا تھا، ہلاک کیا تھا۔

اس واقعے کے بعد اکثرمبصرین یہ سوالات اٹھا رہے ہیں کہ کیا ایران اس حملے کا بدلہ لے گا؟ ایران کے صدر روحانی کے مطابق ان کا ملک ضرور اس کا انتقام لے گا لیکن وہ اسرائیل کے اس جال میں نہیں آئیں گے جس میں ایران کے کسی بھی اقدام کو بہانہ بناکر اسکے جوہری پروگرام کو نقصان پہنچایا جا سکے۔

امریکہ میں ایرانی معاملات کی رپورٹرر نگار مرتضوی نے واشنگٹن میں عرب سنٹر کے زیراہتمام ہونے والے ایک ورچوئل مذاکرے میں کہاہے کہ ایران کی سیاست میں سخت گیر اور لبرل گروپس کے درمیان یہ بحث جاری ہے کہ آیا کسی قسم کا جوابی حملہ اس وقت قومی مفادات اور ملکی سلامتی کے حق میں ہے یا نہیں۔

ان کے مطابق ”جہاں تک انتقام کا تعلق ہے، ایران میں دو کیمپ موجود ہیں۔ سخت گیر کیمپ چاہتا ہے کہ اس قتل کا بدلہ لیاجائے تاکہ اسرائیل کو مزید حملوں کی جرات نہ ہو۔ دوسری طرف کچھ لوگ افہام و تفہیم کے ذریعے صورت حال کو مزید خراب ہونے بچانا چاہتے ہیں۔“

نگارکا کہنا تھاکہ ”حملے کے دو مقاصد ہوسکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ ایران کو جوابی حملے کے لئے اکسایا جائے اور اس کے بہانے ایران اور امریکہ میں تصادم کو ہوا دی جائے۔ دوسرا مقصد یہ ہو سکتا ہے کہ امریکہ میں اقتدار کی تبدیلی سے پہلے اس قسم کے اقدامات کرکے نو منتخب صدر جو بائیڈن کے لئے نئے مسائل کھڑے کئے جائیں۔“

اگرچہ کچھ مبصرین کاخیال ہے کہ اس حملے کا مقصد ایران کے ایٹمی منصوبوں کو نقصان پہنچانا بھی ہو سکتا ہے لیکن نگار کے اندازوں کے مطابق یہ کہنا مشکل ہے کہ اس اقدام سے ایران کے ایٹمی منصوبوں میں کو ئی تبدیلی آنے کی توقع ہے: ”اس حملے کا تعلق ایٹمی پروگرام سے نہیں بلکہ آج کل کی سیاسی صورت حال سے ہے۔ محسن بلاشبہ ایک اہم شخصیت تھے لیکن میرا خیال ہے کہ ایران کا ایٹمی پروگرام صر ف ایک سائنسدان کی صلاحیتوں پر قائم نہیں ہے۔ اس حملے سے ایران کے ایٹمی پروگرام پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور اس کے نتیجے میں ایران کے منصوبوں میں کوئی تبدیلی کی امید نہیں رکھی جانی چاہئے۔“

ان کے خیال میں اگرچہ اسرائیل نے اس قتل پر کوئی تبصرہ نہیں کیا لیکن عام اندازوں کے مطابق وہی اس حملے کے پیچھے ہے کیوں کہ وہی ایران کے ایٹمی پروگرام سے سب سے زیادہ خائف ہے اور اس طرز کے حملے کرنے کی صلاحیت بھی رکھتاہے۔

انہوں نے بتایا کہ اندرونی سطح پر یہ صورت حال ایران کے لئے خفت کا باعث بھی ہو سکتی ہے۔ اس سے پہلے بھی چار اور سائنسدانوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔ محسن بھی ایک اہم شخصیت تھے اور ان پر حملے کا خطرہ بھی موجود تھالیکن اس کے باوجود ان پر دن دہاڑے حملے سے کئی سوالات جنم لے رہے ہیں۔

لوگ یہ بھی سوال کر رہے ہیں کہ اہم شخصیات کی حفاظت کے لئے کیا انتظامات کئے جا رہے ہیں اوروہ کون لوگ ہیں جو بیرونی طاقتوں کا ساتھ دے رہے ہیں؟ ملک میں عام انتخابات ہونے والے ہیں اور یہ سوالات سیاسی دھڑوں کے لئے انتہائی اہم ہیں۔

اس پس منظرمیں امریکہ میں آنے والی نئی قیادت ایران سے کئے گئے اس معاہدے کوبحال کرنے کا ارادہ کر چکی ہے جسے صدر ٹرمپ نے منسوخ کردیا تھا۔ نو منتخب صدر اگرچہ اس عز م کا اظہار کر چکے ہیں لیکن ٹرمپ ان کے لئے عالمی سطح پر مشکلات کے جو پہاڑ کھڑے کر رہے ہیں کیا جو بائیڈن ان کو پار کر سکیں گے؟

Qaisar Abbas
+ posts

ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔