خبریں/تبصرے

پشاور کی مقامی عدالت کا عورت مارچ اسلام آباد کے منتظمین کے خلاف مقدمہ قائم کرنیکا حکم

لاہور (جدوجہد رپورٹ) پشاور کی ایک مقامی عدالت نے رواں سال اسلام آباد میں ہونے والے ’عورت مارچ‘ کے منتظمین کے خلاف مبینہ طور پر پیغمبر اسلام کے خلاف توہین آمیز ریمارکس اور فحش پوسٹرز آویزاں کرنے کے الزام میں ایف آئی آر کے اندراج کا حکم دیا ہے۔

مقامی عدالت کے جج سید شوکت اللہ شاہ نے یہ حکم پانچ وکلاء ابرار حسین، اسرار حسین، کاشف احمد ترکئی، صیاد حسین اور عدنان گوہر کی درخواست پر جاری کیا۔ پشاور کی مقامی عدالت میں یہ درخواست ضابطہ فوجداری کے سیکشن A-22 کے تحت دائر کی گئی تھی، جو عدالت کو امن و انصاف کیلئے کام کا اختیار دیتی ہے اور عدالت کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ کسی بھی جرم کے خلاف پولیس کو ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دے سکے۔

ڈان کے مطابق درخواست میں وکلاء نے الزام عائد کیا کہ 8مارچ کو منعقدہ عورت مارچ 2021ء کے دوران غیر اسلامی اور فحش پوسٹروں کی نمائش کے علاوہ پیغمبر اسلام اور بی بی عائشہ کے سلسلہ میں توہین آمیز تبصرے استعمال کئے گئے۔ اس طرح منتظمین نے ان سمیت تمام مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ توہین آمیز اور غیر اسلامی مواد انہوں نے خود دیکھا اور ایس ایچ او ایسٹ کینٹ کو درخواست دی لیکن وہ ایف آئی آر درج کرنے سے گریزاں ہیں۔ جج نے حکم دیتے ہوئے کہا کہ درخواست گزاروں کے دلائل سنے گئے، ریکارڈ کی جانچ پڑتال کی گئی، ایس ایچ او ایسٹ کینٹ متعلقہ قانون کے تحت درخواست گزاروں کی اطلاع کے مطابق اس واقعہ کی ایف آئی آر درج کریں۔

رواں ماہ کے آغاز میں کراچی میں منعقدہ عورت مارچ کی ایک ویڈیو کو ایڈٹ کرنے کے بعد سوشل میڈیا سائٹس پر شیئر کیا گیا تھا، ویڈیو کو اس انداز سے ایڈٹ کیا گیا تھا جس کے بعد اس ویڈیو میں شرکاء کو گستاخانہ نعرے لگاتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔

عورت مارچ کے منتظمین نے اسی وقت واضح کر دیا تھا کہ مارچ کے شرکاء نے اس طرح کے نعرے نہیں لگائے اور ویڈیو کو ان کی جدوجہد اور احتجاج کو بدنام کرنے کیلئے ایڈٹ کیا گیا۔ عورت مارچ کے منتظمین نے اصل ویڈیوز بھی از سر نو شیئر کرتے ہوئے حکام سے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔

اسی طرح ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ(ڈبلیو ڈی ایف) کے جھنڈے کو بھی غلط انداز میں پیش کرتے ہوئے فرانس کے جھنڈا قرار دیکر عورت مارچ کے خلاف مہم چلائی گئی تھی۔ ڈبلیو ڈی ایف کے جھنڈے کے رنگوں اور ترتیب میں فرانس کے جھنڈے سے کوئی مماثلت موجود نہیں تھی۔ عورت مارچ اور ڈبلیو ڈی ایف کے منتظمین نے اس پروپیگنڈہ کے حوالے سے بھی وضاحتی بیان جاری کیا تھا۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں منتظمین اور عورت مارچ کے شرکاء کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے مطالبے کے بعد وزیر مذہبی امور نورالحق قادری نے کہا تھا کہ مارچ کے حوالے سے سوشل میڈیا پر موجود مواد کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

واضح رہے کہ عورت مارچ پاکستان میں 2018ء کے بعد سے مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔ 2018ء میں محنت کش خواتین کے عالمی دن کے موقع پر عورت مارچ کا انعقاد بڑے پیمانے پر کیا گیا تھا۔ اس سے قبل بھی 8مارچ کے موقع پر تقاریب اور خواتین کے حقوق کی بازیابی، صنفی امتیاز اور طبقاتی استحصال کے خلاف جدوجہد جاری رہی تھی۔ تاہم گزشتہ 3سال سے پاکستان کے بڑے شہروں میں بڑے پیمانے پر عورت مارچ کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔

عورت مارچ کا انعقاد خواتین کو درپیش مسائل، خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات کی مذمت اور صنفی امتیاز، معاشی استحصال اور بدنظمی کو اجاگر کرنے کیلئے کیا جا رہا ہے۔ پشاور کی عدالت کے حکم کے بعد ایک مرتبہ پھر عورت مارچ کی جانب سے وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ”عورت مارچ کے منتظمین کی شکایات پر ذمہ داران کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے عورت مارچ کے منتظمین کے خلاف قانونی کارروائی سمجھ سے بالاتر ہے۔ عورت مارچ کے منتظمین کو دہشت گردوں، لال مسجد کے منتظمین، جماعت اسلامی سمیت دیگر شدت پسند تنظیموں اور انفرادی شخصیات کی طرف سے دھمکیاں دی گئیں، عورت مارچ کی ویڈیوز کو ایڈٹ کر کے مارچ اور منتظمین کی جدوجہداور سیاسی ساکھ کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی، عورت مارچ کے خلاف نفرت ابھارنے کی کوشش کی گئی لیکن قانون نافذکرنے والے ادارے ان تمام ذمہ داران کے خلاف تاحال کارروائی کرنے سے گریزاں ہیں بلکہ خود عورت مارچ کے منتظمین کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے، جو انتہائی افسوسناک عمل ہے۔“

عورت مارچ کے ٹویٹر ہینڈل سے تمام شہریوں سے اپیل کی جا رہی ہے کہ وہ حق کا ساتھ دیتے ہوئے جعلی پروپیگنڈہ اور مہم کے خلاف آواز بلند کریں۔

Roznama Jeddojehad
+ posts