فاروق سلہریا
گزشتہ روز (یکم جولائی) کابل ایک مرتبہ پھر بم دھماکے سے لرز اٹھا۔ طالبان نے حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ حملے کا شکار ہونے والوں میں سکولوں کے درجنوں بچے شامل ہیں۔ یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب پاکستان اور افغانستان کے مابین کرکٹ میچ کے بعد پاکستان کا کمرشل میڈیا اور سوشل میڈیا پر سرگرم دائیں بازو کے کارکن اس ریاستی بیانئے کو مقبول کرنے میں مصروف تھے کہ افغان لوگ ”حرام خور“ اور ”احسان فراموش“ ہیں۔
دائیں بازو کا یہ بیانیہ نہ صرف منافقت پر مبنی ہے بلکہ محنت کش طبقے اور ترقی پسند تحریک کے نقطہ نگاہ سے اس کے بے رحمانہ نتائج نکل رہے ہیں۔ ذیل میں اس بیانئے کی حقیقت اور اس کے نتائج کا مختصر جائزہ لیا جائے گا۔
(1) کرکٹ میچ کے بعد (پچھلے چند سالوں کی طرح)زور و شور سے ایک مرتبہ پھریہ مطالبہ کیا گیا کہ افغان مہاجرین کو پاکستان سے نکالا جائے۔ جب سے کابل اور اسلام آباد کے تعلقات نے شدید بگاڑ کی شکل اختیار کی ہے‘ یہ غیر انسانی مطالبہ زور و شور سے دہرایا جاتا ہے۔ وائے منافقت بے بس مہاجرین کے اخراج کا مطالبہ کرنے والوں نے کبھی یہ نہیں بتایا کہ حقانی نیٹ ورک اور کوئٹہ شوریٰ کا کیا کرناہے۔ کیا انہیں بھی افغان مہاجرین کی طرح واپس بھیجنا ہے یا وہ اس مطالبے سے مستثنیٰ ہیں۔
نتیجہ: اچھے برے طالبان کی پالیسی جاری رہتی ہے۔
(2) ”حرام خوری“ اور ”احسان فراموشی“ والے بیانئے کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ طالبان یا داعش جب افغانستان میں دہشت گردی کے گزشتہ روز جیسے بہیمانہ اقدامات اٹھاتے ہیں تو ایک طرف دہشت گردی کا نشانہ بننے والے معصوم لوگوں سے یکجہتی جنم نہیں لیتی۔ آخر ”حرام خوری“ اور ”احسان فراموشی“ کرنے والوں سے ہمدردی تو نہیں کی جا سکتی۔ یوں ہم دیکھتے ہیں کہ کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں سے ہمدردی دکھانے والے کمرشل چینل اور فیس بُک جہادیوں کو کابل کے سکولوں پر حملے اور پشاور کے آرمی پبلک سکول پر حملے میں کوئی مماثلت دکھائی نہیں دیتی۔ اکثر تو ایسا ہوتا ہے کہ افغانستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات خبر ہی نہیں بنتے اور اگر کبھی کوئی بہت بڑا حملہ ہو جائے تو واقعے کی رپورٹنگ ایسے کی جاتی ہے گویا پاکستان نے کسی کرکٹ میچ میں فتح حاصل کر لی ہے۔ بوقت تحریر میں اے آر وائی کا چھ بجے شام کا نیوز بلیٹن سن رہا ہوں۔ اس بلیٹن کی پہلی خبر رانا ثنا اللہ کی گرفتاری ہے‘ نہ کہ کابل میں ہونے والا بم دھماکہ۔
نتیجہ: پاک افغان عوام کے مابین یکجہتی کا خاتمہ اور زینوفوبک (Xenophobic) سوچوں کی ترویج۔
(3) مذکورہ بیانیہ پاکستان کے محنت کش طبقے کو لا علم رکھنے کی ایک کوشش ہے۔حکمران طبقہ اور دائیں بازو کا بیانیہ ہمیشہ تاریخ اور سیاست کو سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کرتا ہے۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ تجزئے کو نعرے تک محدود کر دیا جائے۔ دلیل، تعلیم، تحقیق اور جمہوری بحث کی بجائے فتویٰ بازی کا سہارا لیا جاتا ہے۔ یہی مقصد ”حرام خور“ اور ”احسان فراموش“والے بیانئے سے حاصل کیا جا رہا ہے۔ یہ تو بتایا جا رہا ہے کہ افغان شہریوں کو پاکستان نے پناہ دی لیکن یہ نہیں بتایا جا رہا کہ افغانستان میں چالیس سال سے جاری خون خرابے میں پاکستان کے حکمران طبقے نے کیا کردار ادا کیا۔ جنرل ضیا کو تو خیر چھوڑئے‘”دخترِ جمہوریت“ بے نظیر بھٹو کا کردار بھی افغانستان کے حوالے سے انتہائی شرمناک تھا۔ محترمہ کی پہلی حکومت کے دوران جلال آباد پر حملہ کیا گیا جس کی زبر دست پبلسٹی کی گئی۔ اس حملے میں حمید گل کو سپہ سالار کا درجہ حاصل تھا۔ یہ حملہ ناکام رہا۔ محترمہ کے دوسرے دور میں طالبان کی سر پرستی کی گئی۔ پی پی پی کے وزیر داخلہ جنرل بابر طالبان کو ”اپنے بچے“ قرار دیا کرتے تھے۔ یہاں یہ بات دہرانا بھی اہم ہے کہ80ء کی دہائی میں پاکستانی میڈیا میں نام نہاد افغان مجاہدین کو اسلام کے ماڈرن ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا تھا۔ ان دنوں جو سیاسی حلقے ضیا آمریت کی افغان پالیسی کی مخالفت کرتے تھے‘ ان کو غدار کہا جاتا تھا۔ گویا عام شہری اور سیاسی کارکنوں کی وطن پرستی ہمیشہ مشکوک رہتی ہے۔ محب وطن صرف وہ ہوتے ہیں جن کے ہاتھ میں بندوق ہوتی ہے۔ پھر وہی مجاہدین ولن قرار دے دئیے گئے۔ امریکی سامراج اور حکمرانوں کی دوغلی پالیسیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان بد ترین دہشت گردی کا شکار ہوا اور افغان عوام کی مصیبتیں نہ جانے کب ختم ہوں گی۔ تاریخ کو ”احسان فراموشی“ اور ”حرام خوری“ کے ہیش ٹیگ تک محدود کرنے کا مطلب ہے کہ عوام کو لا علم رکھ کر انہیں سیاسی طور پر اپاہج بنا دیا جائے۔
نتیجہ: حکمران طبقے کی غلط پالیسیوں کی نقاب پوشی اور عوام کی سیاسی بے عملی۔
(4) ”حرام خوری“ اور ”احسان فراموشی“ کا بیانیہ پاکستان کے محنت کشوں کے خلاف بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ مغربی ممالک میں رہنے والے تیسری دنیا (بشمول پاکستان) کے لوگوں کو وہاں کے گورے فسطائی گروہ بھی کسی مسئلے پر ”حرام خوری“ کا طعنہ دے سکتے ہیں۔ اور تو اور بی جے پی اس طعنے کو بخوبی استعمال کر سکتی ہے۔ اس لئے مزدور تحریک ایک انٹرنیشنلسٹ موقف اختیار کرتی ہے نہ کہ اندھی قوم پرستی پر مبنی نقطہ نظر۔ شاید یاد ہو کہ امریکی صدر نے جب امریکی ڈالر کھانے والوں کو اسامہ بن لادن کے مسئلے پر ”حرام خوری“ کا طعنہ دیا تھا تو مطالعہ پاکستان کو حتمی سچ سمجھنے والوں کی انا کو کافی تکلیف پہنچی تھی۔
نتیجہ: طعنوں پر مبنی بیانئے دو دھاری تلوار ہوتے ہیں۔
آخر میں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے۔ دائیں بازو کی عادت ہے کہ ان پر یا پاکستانی حکمران طبقے پر تنقید کی جائے تو فوراً بولیں گے: ”انڈیا میں بھی تو ایسے ہوتا ہے“ یا ”امریکہ بھی تو یہ سب کچھ کر رہا ہے!“ اس مضمون کے جواب میں وہ کہہ سکتے ہیں کہ افغانستان کے حکمران بھی تو پاکستان کے خلاف نفرت پھیلاتے ہیں۔
ہمارا جواب انتہائی سادہ سا ہے۔ قومی سرحدوں کے اندر یا عالمی سطح پر محنت کشوں کو تقسیم کرنے کی کوشش بھارت کے حکمران کریں یا اسرائیل کے یا امریکہ کے‘ ہم ان کے خلاف ہیں۔ ہمارا موقف سرحدوں کا قائل نہیں۔ ہم انٹرنیشنلسٹ ہیں۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔