فاروق سلہریا
حزب اختلاف اور اس کے حامی، حزبِ اقتدار اور اس کے حامی: دونوں اصولی طور پر درست موقف اختیار کر رہے ہیں۔ مصیبت یہ ہے کہ دونوں ادھورا سچ بول رہے ہیں۔
ارسطو نے سچ کی تعریف یوں مقرر کی تھی: ”جھوٹ یہ ہوتا ہے کہ کسی چیز کو جو وہ ہے اور جو وہ نہیں ہے۔۔۔نہ بتایا جائے۔سچ یہ ہے کہ کسی چیز کو جو وہ ہے،اور جو وہ نہیں ہے۔۔۔بتایا جاے“۔
اگر ایک چیز پیالہ ہے تو کہا جائے کہ یہ پیالہ ہے،تھالی نہیں۔ ارسطو کے مطابق یہ ہے سچ کی تعریف۔پیالے کوپیالہ نہ کہنا یاپیالے کوتھالی کہنا جھوٹ ہے۔
بعد میں آنے والے فلسفیوں نے یہ اضافہ بھی کیا کہ جھوٹ کا تعین کرتے ہوئے جھوٹ بولنے والے کے ارادے اور نیت کو بھی دیکھا جائے۔ اگر کسی نے غلط معلومات کی بنیاد پر پیالے کو تھالی قرار دے دیا تو اسے جھوٹ نہ کہا سمجھا جائے،ممکن ہے اسے شروع سے یہی بتایا گیا ہو کہ جسے وہ تھالی سمجھ رہا ہے باقی دنیا اسے پیالہ مانتی ہے۔
26 ویں آئینی ترمیم کے بارے میں حکومت یہ جواز پیش کر رہی ہے کہ پارلیمان کو تقدم اور برتری حاصل ہے۔ یہ بات اصولی طور پر بالکل درست ہے۔
پاکستان تحریک انصاف اور اس کے بعض ہمنوا (جو ممکن ہے محض جمہوریت پسندی کی وجہ سے ہم نوا بنے ہوں)زور زبردستی کی مدد سے اس ترمیم کی منظوری پر حکومت کی مذمت کر رہے ہیں۔ اصولی طور پر یہ بھی درست بات ہے کہ فوجی طریقے سے آئینی ترمیم نہیں ہونی چاہئے۔
مصیبت یہ ہے کہ دونوں حلقے پیالے کو پیالہ تو قرار دے رہے ہیں مگر یہ کہنے پر تیار نہیں کہ یہ پیالہ ہے، تھالی نہیں۔ مطلب ادھورا سچ بول رہے ہیں۔
سب کو معلوم ہے کہ منصور علی شاہ ہائبرڈ رجیم ٹو کا خاتمہ کر دیں گے۔
بہ الفاظ دیگر، 2018 میں انتخابی دھاندلی کی مدد سے قائم ہونے والا ہائبرڈ رجیم وَن،(موجودہ)ہائبرڈ رجیم ٹوکے خلاف بغاوت کر سکتا تھا۔ اس بغاوت کو روکنے کے لئے، یہ ترمیم کر دی گئی۔
پاکستان تحریک انصاف و ہمنوا یہ کہنے پر تیار نہیں کہ سپریم کورٹ کے عمران نواز جج انصاف کے نام پر دھبہ ہیں۔
حکومت اور اس کے ہمنوا یہ کہنے سے ہچکچا رہے ہیں کہ حالیہ ترمیم جمہوریت کے نام پر دھبہ ہے۔
حقیقت یہ ہے جنرل عاصم منیر کی بنائی ہوئی پارلیمان نے جنرل فیض حمید کی نامزد کردہ عدلیہ کے خلاف کامیاب بغاوت کی ہے۔ترمیم ہونے سے محنت کشوں کو کوئی فرق پڑے گا،نہ ترمیم کے نہ ہونے سے کوئی فرق پڑنے والا تھا۔۔۔۔چونکہ دونوں حلقے موجودہ نظام سے باہر نہیں جانا چاہتے اس لئے عوام کو میڈیا کے ذریعے حکومت اور پی ٹی آئی کے گرداب میں الجھا دیا گیا ہے۔
اس ملک میں،تیسری دنیا کے دیگر ممالک کی طرح، سر مایہ دارانہ نظام کے اندر رہ کر جمہوریت نہیں آنے والی۔ اس ملک میں جمہوریت کے قیام کا فریضہ محنت کش طبقہ، سوشلسٹ انقلاب کی صورت ہی سرانجام دے سکتا ہے۔ یہ فریضہ ادا کرنا مشکل کام ہے، اس لئے سوشل میڈیا پر Relevant رہنے،یا اپنے اپنے کیریئر بنانے کے لئے مڈل کلاس دانشور جمہوریت پسندی دکھانے کے لئے حکومت کی مذمت کر رہے ہیں یا پارلیمان کی بالا دستی کی بات کر رہے ہیں۔
محنت کش، نوجوان، طالب علم ان خرافات پر وقت جائع کرنے کی بجائے اپنے اصل کام کی طرف آئیں: ملک میں ایک ملک گیر انقلابی تنظیم کے قیام کی جدوجہد تیز کریں۔ اس کام کا نقطہ آغاز ہے گراس روٹ انقلابی کام۔ جو جہاں پر ہے،وہیں انقلابی فریضہ انجام دے اور قومی سطح پر نیٹ ورک تشکیل دینے کی کوشش کرے۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔