یاسمین افغان
افغان شہری طالبان کے اچانک صوبوں پر قبضے سے حیران ہیں۔ ابھی کچھ دن قبل تک جب افغان افواج کے خلاف پیش قدمی کرتے طالبان کے حملے بڑھے تو افغان شہریوں نے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے ٹویٹس، پیجوں پر پوسٹوں اور عالمی قیادت و میڈیا کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر پوسٹیں لگا کر پاکستان پر پابندیوں کا مطالبہ کیا۔ جذبات بہت زیادہ تھے کیونکہ بہت سے افغان یہ سوچ رہے تھے کہ افغانستان کو پہلے سے طے شدہ امریکی منصوبہ بندی کے تحت فروخت کیا گیا اسی لئے طالبان دارالحکومت کی طرف تیزی سے پیش قدمی کر رہے ہیں۔
اس سے زیادہ چونکا دینے والی کوئی بات نہیں تھی جب اعلان کیا گیا کہ کابل چند گھنٹوں میں فتح کر لیا جائیگا۔ جس وقت یہ سطور تحریر کی جا رہی تھیں اس وقت تک کابل طالبان کے قبضے میں آ چکا تھا۔
میری والدہ، جنہوں نے 40 سال سے افغان تنازعہ دیکھا ہے، کابل پر قبضہ ہو جانے کی افواہوں پر بہت ناراض تھیں۔ ”ہر افغان جانتا ہے کہ طالبان افغان فوج سے لڑنے کے قابل نہیں ہونگے لیکن طالبان کے ساتھ پہلے ہی ایک معاہدہ طے پا چکا تھا اور وہ اب کابل میں گھوم رہے ہیں۔“
کئی افغان صوبوں کے لوگ یہ سوچ کر کابل پہنچے کہ وہ طالبان کے قہر سے بچ جائیں گے۔ کابل کے پارکوں میں افراتفری کے مناظر ہیں کیونکہ اندرونی طور پر بے گھر افراد نے وہاں پناہ لی ہے۔ لوگوں کے پاس نہ کھانے کے لیے کچھ ہے اور نہ سونے کیلئے کوئی جگہ ہے۔ بہت سے خاندان عسکریت پسندوں کی جانب سے نشانہ بنائے جانے یا ان کی بیٹیوں کو اغوا کئے جانے کے خوف سے بھاگے اور کچھ اطلاعات ہیں کہ’تخار‘ اور کچھ دوسرے علاقوں میں لڑکیوں کو اغوا کیا گیا اور اپنی بیٹیوں کو طالبان جنگجوؤں کے حوالے کرنے پر مجبور کیا گیا۔
ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ صوبہ ’ہیرات‘ میں یونیورسٹی کی طالبات اور پروفیسرز کوواپس گھروں میں بھیج دیا گیا اور قندھار سے ایک رپورٹ ہے جہاں ایک پرائیویٹ بینک کی 9 خواتین ورکروں کو گھر واپس بھیج دیا گیا اور انہیں کہا گیا ہے کہ ان کے خاندان کے مرد ممبران انکی جگہ کام کر سکتے ہیں۔
کابل کل سے خوف کی لپیٹ میں ہے۔ آخری لمحات تک سیاسی کارکنوں کو امید تھی کہ کابل فتح نہیں ہو گا لیکن زمین پر منظر بدلتے ہی لوگوں نے رقوم نکالنے اور کابل سے باہر منتقل ہونے کے لیے بینکوں پر دھاوا بول دیا۔ بہت سے خوفزدہ تھے کہ صدر اشرف غنی کل استعفیٰ دے دیں گے لیکن ان کے پیغام کے بعد حالات معمول پر آ گئے تھے۔ اشرف غنی کے پیغام سے پہلے افغان کرنسی کی قدر میں شدید گراؤٹ دیکھنے میں آئی اور ایک امریکی ڈالر 100 افغانی کے برابر ہو گیا تھا لیکن اشرف غنی کے پیغام کے بعد افغان کرنسی کی قدر میں اضافہ دیکھنے میں آیا اور ایک ڈالر 85 افغانی کے برابر آن پہنچا۔
ایک افغان صحافی کاون خاموش نے لکھا کہ ”کابل اس وقت کسی ایٹمی دل سے کم نہیں ہے۔ میں نے وزیر اکبر خان کو عبور کیا اور سڑکوں پر لوگوں کا بے تحاشہ رش دیکھا جیسے یہ ایک قیامت ہے۔ دکھی چہرے، مایوس نوجوان اور بھاری ٹریفک میں پھنسے خاندان۔“
7 سال کی عمر کے بچے بھی طالبان سے خوفزدہ ہیں۔ کابل میں سب سے کم عمر نسل ہمیشہ نسبتاً جمہوری حکومت کے تحت پروان چڑھی ہے اور ان چھوٹے بچوں کو طالبان کے بارے میں سمجھانا ایک ایسا کام ہے جس کے تحت بہت سے خاندانوں نے اپنے چھوٹے بچوں کو کل کے لیے تیار کرنا ہے جہاں انہیں سخت ڈریسنگ کوڈ پر عمل کرنا پڑے گا۔ ان کی مائیں اپنے چہروں کو ڈھانپ رہی ہیں۔
افغانوں میں غصہ اور مایوسی بہت زیادہ ہے کیونکہ بہت سے لوگوں کو ڈر ہے کہ ان کی سخت محنت سے حاصل کئے گئے حقوق چھین لیے جائیں گے۔ بہت سے لوگ بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ افغانستان کی نازک صورتحال اور طالبان کو کابل میں داخل ہونے کی صورتحال پر آنکھیں بند کئے جانے کی پالیسی ترک کریں۔
ایک افغان راون کاروان نے کہا کہ ”سب کچھ کھو دیا۔ میری خواہش میرے ملک کاروشن مستقبل ہے، میرا خواب ایک مضبوط اور مستحکم افغانستان ہے۔ میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ ہمارے اتحادیوں نے ہمارے لوگوں کو پیٹھ دکھا دی ہے اور انہوں نے ہمیں مظالم کے حوالے کر دیا ہے۔“
افغان فلم کی سربراہ ساحرہ کریمی کا کہنا تھا کہ ”کوئی امن معاہدہ نہیں ہے، یہ طالبان کو افغانستان دینے کا معاہدہ تھا۔“
ایک ماہر تعلیم پشتانہ زلمی خان درانی کا کہنا تھا کہ ”پہلے لیڈروں نے ہمیں فروخت کیا، مغرب نے ہمیں فروخت کیا اور اب طالبان صرف اپنا انعام لے رہے ہیں، اس جنگ میں خواتین کیساتھ اشیا کے جیسا سلوک کیا گیا ہے۔“
فنکار ردا اکبر نے لکھا کہ ”دنیا کو شرمندہ ہونا چاہیے، میں بیزار ہوں۔“
ایک اور ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ ”میرے افغانستان، ہم بہت سے دشمنوں کے درمیان اکیلے رہ گئے ہیں لیکن یہ وقت بھی گزر جائے گا، ہم دوبارہ اٹھیں گے لیکن یہ کبھی نہیں بھولیں گے کہ دنیا نے ہمارے ساتھ کیا کیا۔“