دنیا

غاصبوں کی حب الوطنی…

فاروق سلہریا

گزشتہ کچھ دنوں سے امریکی کانگریس کی چار ایسی خواتین صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سفید فام نسل پرستوں کے نشانے پر ہیں جو سفید فام نہیں۔ یہ چار خواتین ارکان کانگرس ہیں: الیگزنڈریا اکاسیو کورٹز(جو خود کو سوشلسٹ کہتی ہیں)، رشیدہ طلیب، ایانا پریسلے اور الہان عمر۔

بات ٹرمپ کے ٹویٹ سے شروع ہوئی۔ٹرمپ نے ا ن خواتین کے بارے میں کچھ یوں کہا کہ یہ ہر وقت امریکہ پر تنقید کرتی رہتی ہیں حالانکہ امریکہ دنیا کا عظیم ترین ملک ہے۔ ان خواتین کو چاہئے کہ یہ ان پسماندہ ملکوں میں واپس چلی جائیں جہاں سے یہ آئی ہیں اور اگر ان میں اتنی قابلیت ہے تو اپنے اپنے ملکوں کے حالات ٹھیک کریں۔

اتفاق سے ان چار میں سے تین خواتین امریکہ میں پیدا ہوئی ہیں۔ الہان عمر صومالیہ میں پیدا ہوئیں اور بچپن میں امریکہ آ گئیں۔ اسے بھی اتفاق ہی سمجھئے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی اپنی اہلیہ دراصل دوسرے ملک سے آئی ہیں اور اگر دوسرے ملک سے آنا کوئی عیب ہے تو پھر بقول باراک اوبامہ امریکہ کے مقامی لوگوں کے سوا (جنہیں عرف عام میں ہمارے ہاں بلیک انڈینز کہا جاتا ہے) سب ہی مہاجر ہیں۔

الیگزنڈریا اکاسیو کورٹز، رشیدہ طلیب، ایانا پریسلے اور الہان عمر

ڈونلڈ ٹرمپ کے اس نسل پرستانہ ٹویٹ کے بعد معاملات اس وقت اور بھی بھڑک اٹھے جب ایک جلسے کے دوران صدر ٹرمپ نے الہان عمر کا جوں ہی نام لیا تو جلسے کے شرکاء ”سینڈ ہر بیک“(اسے واپس بھیجو) کے نعرے لگانے لگے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کم از کم دس سیکنڈ کا توقف کیا تا کہ لوگ بھر پور طریقے سے نعرے لگا سکیں اور اس نعرے بازی کی مذمت بھی نہیں کی۔

ٹرمپ کے اس نسل پرستانہ اقدام پر امریکی کانگریس میں ایک قرار داد بھی منظور کی گئی۔ عالمی میڈیا میں یہ واقعات ابھی تک خبروں کا موضوع ہیں۔ امریکہ اور امریکہ سے باہر ڈونلڈ ٹرمپ کی شدید مذمت کی گئی ہے لیکن یہ سمجھنا کہ ٹرمپ کوئی احمق آدمی ہے جو بیوقوفانہ ٹویٹ کرتا رہتا ہے‘ سراسر حماقت ہو گی۔

ٹرمپ رجعت پسند اور سفید فام نسل پرست متوسط طبقے اور مذہبی حلقوں کا ووٹ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ان حلقوں میں نسل پرستی سے جڑی امریکی قوم پرستی کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ امریکہ میں قوم پرستی کا مطلب ہے سفید فام (اکثریت کا حصہ) ہونا، پروٹسٹنٹ ہونا، کمیونزم مخالف ہونا اور متشدد ہونا(اس تشدد کی کئی شکلیں ہو سکتی ہیں)۔

مذکورہ بالاامریکہ کی چاروں ارکان ِکانگریس کے ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی اور امیر دوست سیاست کو بے نقاب کرتی ہیں۔ الہان عمر اور رشیدہ طلیب (جن کے والدین فلسطین سے آئے تھے) اسرائیل کی صیہونی سیاست کی ناقد ہیں۔ الیگزنڈریا صحت، ٹیکس اور تعلیم کے مسائل اٹھانے کے علاو ہ کئی ارب پتی لوگوں کی بدعنوانی کو بے نقاب کر چکی ہیں۔ بجائے اس کے کہ ان کی سیاست کا سیاسی جواب دیا جائے‘ ٹرمپ کا طریقہ کار یہ ہے کہ ان کو غدار ثابت کیا جائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ وہ ملک ہے جہاں کے انارکسٹ میکسیکو کے ساتھ جنگ میں میکسیکو کی طرف سے لڑے تھے کیونکہ ان کے خیال میں میکسیکو مظلوم اور امریکہ ایک سامراجی ملک تھا۔

یہ کہنا کہ یہ چاروں ارکانِ کانگرس امریکہ پر تنقید کرتی ہیں لہٰذا غدار ہیں تو اس کا بہترین جواب نامور کامیڈین ٹریور نوہا (Trevor Noah) نے اپنے مخصوص انداز میں اپنے پروگرام ”دی ڈیلی شو“ میں دیا۔ ٹریور کے بقول انتخابی مہم کے دوران صدر ٹرمپ روز امریکہ پر تنقید کرتے تھے۔ ان کا تو نعرہ ہی یہ تھا کہ وہ امریکہ کو دوبارہ عظیم ملک بنائیں گے۔ اس وقت انہیں کسی نے نہیں کہا کہ ”واپس چلے جاؤ!“

مندرجہ بالا تفصیلات جان کر بہت سے ممالک میں بہت سے لوگوں کو اپنے ہی ملک کی جھلک دکھائی دی ہو گی۔ ہر ملک میں محب وطن وہ لوگ نظر آئیں گے جن کا تعلق اکثریت سے ہو گا، جن کے پاس سرمائے کی طاقت ہے (یا وہ سرمائے کے گماشتے ہیں)، ہاتھ میں بندوق ہے اور پشت پر اسٹیبلشمنٹ کھڑی ہے۔

پڑوسی ملک بھارت کی مثال لیجئے۔ کانگرس کی جگہ بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) نے قوم پرستی کا علم اٹھا لیا ہے۔ بھارتی قوم پرستی کا آج کل مطلب ہے ہندو ہونا (اگر ہندو برہمن یا کسی اور اونچی ذات کا ہو تو اور بھی زیادہ محب وطن)، پاکستان دشمن ہونا، رجعتی ہونا اور متشدد ہونا۔ آپ بی جے پی سے اختلاف کیجئے، آپ کو فوراًمشورہ ملے گا کہ پاکستان چلے جاؤ!

ٹرمپ ہو یا مودی، ان کی سیاست کا جائزہ لیجئے۔ یہ بالادست طبقوں کے نمائندے ہیں۔ سرمایہ داری کے پر تشدد رکھوالے ہیں۔ ان کی معاشی اور سیاسی حکمت عملیاں محنت کش طبقے کی دشمن ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ (جو کسی بھی ریاست میں تشدد کی تجسیم ہوتی ہیں) ان کی پشت پر کھڑی ہے۔ آپ روٹی، کپڑا، مکان اور امن کی بات کریں تو آپ غدار۔

آخر حب الوطنی ہے کیا؟

حب الوطنی ایک مصنوعی اور سرمایہ دارانہ (بورژوا) جذبہ ہے۔ اس کا تعلق جدید قوم پرستی سے ہے۔ جب مغرب میں سرمایہ داری کا ابھار ہوا تو قومی ریاستوں نے بھی جنم لیا۔ نوآبادیاتی دنیا میں البتہ قومی ریاست اور قوم پرستی نوآبادیاتی حالات کی پیداوار ہے۔ نوآبادیاتی دنیا میں (کسی حد تک یورپ میں بھی) قوم پرستی نے ابتدائی طور پر، جب جنگِ آزادی لڑی جا رہی تھی، ترقی پسندانہ کردار ادا کیا۔

حصول ِآزادی کے بعد قوم پرستی ایک جابرانہ نظریہ بن گیا جس کا مقصد ہے طبقاتی سوال اور محکوم قوموں کو دبانا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قوم پرستی اور اس سے جڑے حب الوطنی کے جذبے کا تعین بالا دست طبقہ کرتا ہے۔ اس نظریہ کی اساس عالمی یکجہتی کی بجائے ”ہم“ اور ”وہ“ کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ ”وہ“ ایک ایسا فرضی دشمن ہوتا ہے جسے دھمکی اور خطرہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ”وہ“ ایک طرح سے ”ہم“ کی ضد ہوتا ہے۔ اس خطرے سے نپٹنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اتحاد قائم رکھا جائے۔ اگر آپ طبقے کی بات کریں گے تو ”اتحاد“ باقی نہیں رہے گا لہٰذا روٹی، کپڑا اور مکان کی بات کرنے والے غدار۔ اگر آپ انسانی اور جمہوری حقوق کی بات کریں گے تو آپ غدار۔ غدار اندرونی دشمن، اندرونی خطرہ اور ففتھ کالم قرار دے دئے جاتے ہیں۔ گویا معاشی و سیاسی حقوق کا خس کم اور سرمایہ دارانہ جہاں پاک…

اس حب الوطنی کی بنیاد ”اکثریت“ ہوتی ہے مگر اکثریت کا تعین مذہب (ہندوستان، پاکستان)، رنگ(امریکہ، یورپ) یا زبان (خلیجی ممالک، ایران)کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ یہ کبھی نہیں کہا جاتا کہ سرمایہ دار اقلیت ہیں۔ امیر لوگ اقلیت ہیں۔ تاجر طبقہ اقلیت ہے۔

لیکن یاد رہے ایک طبقے کا غدار دوسرے طبقے کا محب وطن ہوتا ہے۔ لینن جب فروری انقلاب کے بعد روس پہنچا تو اسے انقلاب دشمن اور سرمایہ دار سیاست دان جرمن جاسوس اور غدار قرار دے رہے تھے۔ لیکن اکتوبر کے عظیم انقلاب نے حب الوطنیوں اور قوم پرستیوں کے بت ہی توڑ ڈالے۔ بر سر اقتدار آنے کے بعد بالشویک حکومت نے ایک کام یہ کیا کہ زار شاہی نے سامراجی حکومتوں کے ساتھ ایشیا اورافریقہ کو غلام بنائے رکھنے کے جو خفیہ معاہدے کر رکھے تھے، انہیں اخباروں میں شائع کر دیا۔ اس ایک واقعے سے سامراج کی بنیادیں ہل کر رہ گئیں۔ روس کی اکثریت نے دنیا بھر کی اکثریت سے یکجہتی کا اظہار کر دیا تھا۔ سرمایہ دارانہ حب الوطنی اور قوم پرستی کی جگہ انٹرنیشنل ازم (بین الاقوامیت) نے لے لی تھی۔

تین چاردہائیاں اور لگیں اور دنیا سے نوآبادیاتی نظام کا خاتمہ ہونے لگا۔ افریقہ کی آزاد ہونے والی آخری کالونی انگولا تھا۔ اگر کیوبا اس جنگ آزادی میں حصہ نہ لیتا تو شاید انگولا کی یہ آزادی اور بھی تاخیر کا شکار ہو جاتی۔ آزادی کا حصول‘ اپنے لئے‘ دنیا بھر کے محکوم لوگوں کے لئے… یہی اصل ”حب الوطنی“ ہے۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔