دنیا

وینزویلا پر ایک اور سامراجی وار

لال خان

آج کے حکمران جب امن، جمہوریت اور آزادی باتیں کرتے ہیں تو ان کے جھوٹ اور منافقت سے گھن آتی ہے۔سرمایہ دارانہ نظام کے رکھوالے چاہے مغرب میں ہوں یا مشرقی میں، ان کی ہر پالیسی اور لائحہ عمل کا مقصد استحصال اور لوٹ مار ہے۔ یہ مخلوق دنیا کو برباد کر کے دولت کے انبار لگاتی چلی جا رہی ہے۔ امریکی سامراج، جو زوال پذیری کے باوجود آج بھی سب سے بڑی معاشی اور عسکری طاقت ہے، ہر انسانی قدر اور اصول و ضابطے کو پامال کر کے نسل انسان کو روندتے چلے جانے والوں میں سر فہرست ہے۔ افغانستان، عراق اور شام میں شرمناک شکستوں کے باوجود وہ مسلسل نئی جارحیتوں اور خونریزیوں کے لئے پر تول رہا ہے۔ اور اس کے اہداف میں آج کل لاطینی امریکہ کا ملک وینزویلا، جہاں گزشتہ دو دہائیوں سے بائیں بازو کی منتخب حکومت قائم ہے، سرفہرست ہے۔

منگل 30 اپریل کو وینزویلا میں فوجی کُو کے ذریعے صدر نکولس مادورو کی حکومت کا تختہ الٹنے کی ایک اور کوشش کی گئی ہے۔ وینزویلا میں حکومت کی تبدیلی کے لئے امریکی سامراج اور اس کے گماشتوں کی کئی سالوں سے جاری واردات میں گزشتہ چند مہینوں کے دوران بہت تیزی آگئی ہے۔ 30 اپریل کو ظاہر یہ کیا گیا کہ وینزویلا کی فوج کے اندر دراڑیں پڑ چکی ہیں اور اس کا ایک فیصلہ کن حصہ نام نہاد ’حزب اختلاف‘ (جو اِن سامراجیوں کے پروردہ غنڈوں کا گروہ ہے) کی جانب آ گیا ہے۔ لیکن رات گئے صدر نکولس مادورو نے براہِ راست تقریر میں واضح اعلان کیا کہ اس بغاوت کو کچل دیا گیا ہے اور یونائیٹڈ سوشلسٹ پارٹی (PSUV) کی حکومت قائم و دائم ہے۔ لیکن کنفیوژن کے اِن 24 گھنٹوں کے دوران ”آزاد“ اور ”غیرجانبدار“ کارپوریٹ میڈیا کے بڑے بڑے عالمی چینل دارالحکومت کاراکاس کی گلیوں سے ایسے رپورٹنگ کر رہے تھے گویا فوجی بغاوت کا جشن منا رہے ہوں۔ منہ سے جھاگ نکالتے ان کے رپورٹروں کا جنون وہاں چند سو حکومت مخالف مظاہریں، جنہیں بہت زیادہ دکھانے کی کوشش کی جا رہی تھی، سے کہیں زیادہ بے قابو محسوس ہو رہا تھا۔ سی این این، بی بی سی، الجزیرہ جیسے سامراجی چینلوں نے تو باقی دنیا کی خبریں ہی غائب کر دی تھیں۔ بس حکومت الٹنے کے انتظار میں مادورو کے خلاف مسلسل زہر اُگل رہے تھے۔

لیکن امریکی سامراج اور اس کے حواری اِس حکومت کے خاتمے کے درپے کیوں ہیں؟ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ پچھلے 21 سالوں میں 20 مختلف انتخابات جیتنے والی سوشلسٹ پارٹی کی حکومت سامراجی احکامات اور تباہ کن اقتصادی شرائط کو ماننے سے انکاری رہی ہے۔ یورپی سامراجیوں کو بھی یہی تکلیف ہے۔ یہ باطل قوتیں کروڑوں ڈالر خرچ کر کے بھی وینزویلا کے سماج اور فوج میں اتنے غدار نہیں خرید سکیں جن کے ذریعے تختہ الٹا جاسکے۔ اب گزشتہ کچھ ہفتوں سے امریکہ براہِ راست فوجی جارحیت کی دھمکیاں بھی لگا رہا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے کچھ وحشی پالیسی ساز تو شاید اب تک ایسا کر بھی چکے ہوتے لیکن ان کو سنجیدہ ماہرین نے یہ باور کروایا ہے کہ اگر وینزویلا پر جارحیت کی گئی تو پورے لاطینی امریکہ میں عوامی بغاوتوں کا طوفان اُٹھ پڑے گا اور نہ صرف یہ کہ امریکہ کا کوئی سفارتخانہ سلامت نہیں بچے گا بلکہ اس کی کٹھ پتلی حکومتیں بھی تنکوں کی طرح بہہ جائیں گی۔ لیکن براہِ راست حملے کی جگہ بالواسطہ سیاسی اور معاشی حملے جاری ہیں۔ وینزویلا پر انتہائی سخت اقتصادی پابندیاں عائد ہیں۔ جس سے افراطِ زر بہت زیادہ ہو گیا ہے۔ اشیائے ضرورت کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے۔ ان حالات میں عام لوگوں کی زندگی ایک عذاب مسلسل بن گئی ہے۔

وینزویلا دنیا میں سب سے زیادہ تیل کے ذخائر رکھنے والے ممالک میں شامل ہے۔ لیکن اس کے تیل کی برآمدات کی بھاری رقوم امریکہ سے لے کے برطانیہ تک کے سامراجی بینکوں اور حکومتوں نے ضبط کر رکھی ہیں۔ اس سب کے باوجود انتہائی ڈھٹائی سے سارے معاشی بحران کا ذمہ دار سوشلسٹ پارٹی کی حکومت کو ٹھہرایا جا رہا ہے۔ لیکن ملک کے عوام اس سامراجی واردات سے بخوبی واقف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کو اب تک آبادی کے بڑے حصے کی حمایت حاصل ہے جو اس کی اصل قوت ہے۔

اپنے مکروہ عزائم میں مسلسل ناکامیوں کے بعد سامراجیوں نے زیادہ زہریلے اور مجرمانہ ہتھکنڈے اپنانے شروع کر دیئے ہیں۔ اب بدنام زمانہ جنگی ٹھیکیداری کی کمپنی ’بلیک واٹر‘ کا مالک ایرک پرنس میدان میں اترا ہے۔ 1980ء کی دہائی کے بعد سے اس نظام کی حکومتوں نے تعلیم، صحت، پانی اور بجلی وغیرہ کے ساتھ ساتھ عسکری سرگرمیوں کی بھی نجکاری شروع کر رکھی ہے۔ جو حالیہ عرصے کی سامراجی جارحیتوں میں واضح نظر آئی ہے۔ جن میں ریاست کی باقاعدہ افواج کی بجائے نجی شعبے کے کرائے کے قاتلوں اور غنڈوں (جنہیں ’کنٹریکٹرز‘ کہا جاتا ہے) کی خدمات ٹھیکے پر حاصل کی گئی ہیں۔ اس دھندے کا سب سے بڑا شیطان بلیک واٹر کا ایرک پرنس ہے جو امریکی فوج کا سابقہ اہلکار بھی ہے۔

جنگ کی نجکاری کے اس سلسلے کا باقاعدہ آغاز عراق پر سامراجی جارحیت کے دوران ہوا تھا۔ 2007ء میں بغداد شہر کے وسط میں انہی کرائے کے قاتلوں نے 17 معصوموں کا قتل عام کیا تھا جس کی لیک ہو جانے والی فلم دنیا بھر میں غم و غصے کی وجہ بنی تھی۔ یہ بلیک واٹر (جس کا موجودہ نام ’اکاڈیمی‘ ہے) افغانستان اور پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں سرگرم ہے (یا رہی ہے) اور بربریت کی انتہا جاری رکھے ہوئے ہے۔ جنگی سرگرمیوں کے اِن ٹھیکوں میں مختلف ریاستوں کے حکمران اور جرنیل بھی بھاری کمیشن اور کک بیکس لے کے اپنی جیبیں گرم کرتے ہیں۔ جنگیں کروانے اور پھر ان جنگوں سے مال بنانے کے لئے اِس نظام کی نام نہاد جمہوریت کے ایوانوں میں باقاعدہ لابنگ کی جاتی ہے۔ یہ انتہائی منافع بخش کاروبار ہے جس سے مال بنا کے ایرک پرنس دنیا کے امیر ترین اور بااثر ترین افراد کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ اس کے قریبی تعلقات ہیں اور اس کی بہن ٹرمپ انتظامیہ کی اہم وزارت پر فائز ہے۔ بلیک واٹر اب ایک ملٹی نیشنل کمپنی بن چکی ہے جس کے مختلف حکومتوں اور حکمرانوں سے تعلقات ہیں۔ 2014ء سے ایرک پرنس نے ہانگ کانگ میں ”فرنٹیر سروسز گروپ“ نامی کمپنی شروع کی ہے جس کے سرمایہ کاری کی چینی سرکاری کمپنی ’CITIC‘ سے بھی تعلقات ہیں۔

وینزویلا میں مداخلت کے لئے ایرک پرنس نے آس پاس کے ملکوں سے تقریباً 5000 کرائے کے قاتلوں کی فوج تیار کی ہے۔ فی الوقت اس واردات سے مال بنایا جا رہا ہے لیکن ان سامراجیوں کا اصل ہدف وینزویلا کے وسائل‘ بالخصوص تیل کی دولت ہے جو سوشلسٹ پارٹی کی حکومت نے قومی تحویل میں لے کے ان درندوں کی پہنچ سے دور کر رکھی ہے۔

جیسا کہ ہم نے اپنی گزشتہ تحریروں میں واضح کیا ہے کہ وینزویلا پر براہِ راست سامراجی حملے کے امکان کو اب بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ نیم خانہ جنگی کے موجودہ حالات مزید بھڑک بھی سکتے ہیں جس سے ہزاروں یا لاکھوں معصوموں کا قتل عام ہوگا۔ اِن سامراجی گِدھوں کے مکروہ عزائم کو صرف وینزویلا اور لاطینی امریکہ کے کے عوام ہی خاک میں ملا سکتے ہیں۔ لیکن اس جدوجہد اور ممکنہ جنگ کو ایک انقلابی کردار دینے کے لئے نکولس مادورو اور سوشلسٹ پارٹی کو بھی اپنی ان غلطیوں کا ازالہ کرنا پڑ ے گا جن کی وجہ سے حالات اس نہج تک پہنچے ہیں۔ انہیں وینزویلا کے ادھورے انقلاب کو مکمل کرنا ہو گا۔ سرمایہ داری کا یکسر خاتمہ کرنا ہو گا۔ تمام دولت اور ذرائع پیداوار کو قومی تحویل میں لے کے محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں چلانا ہو گا۔ لاطینی امریکہ کے محنت کشوں اور نوجوانوں سے یکجہتی کی اپیل کرتے ہوئے سامراج مخالف لڑائی کو پورے خطے میں پھیلانا ہو گا۔ ادھورے انقلاب اور ردِ انقلاب کی یہ کیفیت زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی۔ ردِ انقلاب کی فتح بہت بھیانک نتائج کی حامل ہو گی جس سے بچنے کے لئے راست اقدامات کرنے کا وقت بہت کم ہے۔

Lal Khan
Website | + posts

ڈاکٹر لال خان روزنامہ جدوجہد کی مجلس ادارت کے رُکن تھے۔ وہ پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین کے انٹرنیشنل سیکرٹری اور تقریباً چار دہائیوں تک بائیں بازو کی تحریک اور انقلابی سیاست سے وابستہ رہے۔