فاروق سلہریا
ٹراٹسکی کو جسمانی طور پر تو ایک بار قتل کیا گیا مگر اس کے افسانوی، رومانوی اور انقلابی کردار کو کئی بار خون میں نہانے کی کوشش کی گئی۔ ماضی میں یہ کام سٹالنزم نے اپنے ذمے لے رکھا تھا۔ ان سٹالنسٹ کوششوں کو ٹراٹسکی نے اپنی ایک کتاب میں بے نقاب کیا اور اس کتاب کو عنوان دیا: سٹالن اسکول آف فالسیفیکیشن (دروغ گوئی کا سٹالنسٹ اسکول)۔ حال ہی میں سٹالنسٹ اسکول آف فالسیفیکیشن کی کوششوں کو تقویت پہنچانے کے لئے پیوٹن سکول آف فالسیفیکیشن نے بھی ایک کوشش ’ٹراٹسکی‘ نامی ڈرامہ سیریل بنا کر کی ہے۔ یہ سیریل/فلم 2017ء میں انقلابِ روس کی 100ویں سالگرہ پر روس کے سرکاری ٹی وی ’چینل ون‘ پر پیش کی گئی۔اس سیریل کو روس میں خاصی پذیرائی ملی۔ آٹھ اقساط پر مبنی اس سیریل کو کچھ عرصہ قبل نیٹ فلیکس پر جاری کیا گیا اور یوں دنیا بھر میں یہ دیکھی گئی۔
یہود دشمنی پر مبنی تعصبات اور جنسی مناظر سے بھرپور اس پیشکش میں تاریخ کو اس بری طرح سے توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے کہ ایک اخباری تجزئیے میں تمام غلط بیانیوں کا احاطہ ممکن نہیں ہو گا۔ اس لئے اس مضمون میں اس سیریل کے مندرجہ ذیل تین پہلووں کا جائزہ لیا جائے گا: سیریل میں ٹراٹسکی کے کردار کی تصویر کشی، ٹراٹسکی اور لینن کے تعلقات کو کیسے پیش کیا گیا اور انقلابِ روس کی تصویر کشی کیسے کی گئی ہے۔
’ٹراٹسکی‘ میں ٹراٹسکی کا کردار
اس ڈرامہ سیریل میں یہ کردار اداکار کونستانتن خابنسکی نے ادا کیا ہے۔ بلاشبہ کونستانتن خابنسکی ٹراٹسکی کا خطرناک حد تک ہم شکل ہے مگر اس بظاہر مماثلت (اور چند بنیادی باتوں)کو چھوڑ کر اس فلم میں ٹراٹسکی کے کردار کا حقیقی ٹراٹسکی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس فلمی کردار میں ٹراٹسکی کو ایک آمر، خونخوار، بے رحم، نرگسیت کا شکار، منافق، دھوکہ باز اور ایک ایسے خود غرض انسان کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو طاقت کے حصول کی خاطر کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ قصہ مختصر ٹراٹسکی اور سٹالن میں کوئی فرق نہیں ماسوائے اس کے کہ ٹراٹسکی کو اقتدار کی کشمکش میں سٹالن کے ہاتھوں اس لئے شکست اٹھانی پڑی کہ ٹراٹسکی نے اپنے مغرور روئیے کی وجہ سے ساری بالشویک قیادت کو اپنا دشمن بنا لیا تھا۔
’’ٹراٹسکی کی بے رحمی‘‘ کی ایک مثال کے طور پہ سیریل کی پہلی ہی قسط میں ایک منظر ہے جس میں انقلاب دشمن ’وائٹ آرمی‘ کے سامنے پسپائی اختیار کرنے والے ایک دستے بارے ٹراٹسکی یہ حکم دیتا ہے کہ اس دستے کے ہر دسویں سپاہی کو گولی مار دی جائے۔ گویا انقلابی سرخ فوج کو ٹراٹسکی نے دہشت کے ذریعے وائٹ آرمی کے خلاف لڑنے پر مجبور کیاتھا۔ اسی طرح ایک اور قسط میں دکھایا گیا ہے کہ ٹراٹسکی کی ریل گاڑی برف کے صحرا میں ایندھن نہ ہونے کی وجہ سے رک جاتی ہے۔ اتفاق سے پاس میں ایک قبرستان ہے اور قبروں پر قد آدم اونچی صلیبیں گڑی ہیں۔ بالشویک ان صلیبوں کو اکھاڑ کر آگ میں جھونک دیتے ہیں تا کہ ان سے کوئلہ بنایا جا سکے۔ اتنے میں ایک جنازہ وہاں پہنچ جاتا ہے۔ لوگ جب دیکھتے ہیں کہ بالشویکوں نے قبروں کی شدید بے حرمتی کی ہے تو وہ سرخ سپاہیوں سے الجھ پڑتے ہیں۔ ’بے رحم بالشویک‘ سپاہی ان پر اندھا دھند گولیاں برسانا شروع کر دیتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے جنازے کے ساتھ آنے والے سب سوگوار موت کے گھاٹ اتار دئیے جاتے ہیں۔ ٹراٹسکی یہ منظر لاپروائی سے دیکھتا رہتا ہے۔ گویا ٹراٹسکی کی قیادت میں لڑنے والے بالشویک سپاہی بے رحم ہی نہیں ، مذہب دشمن بھی تھے۔ ٹراٹسکی کی بے رحمی ثابت کرنے کے لئے ایسے کئی مناظر آٹھ قسطوں میں شامل ہیں۔ مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ ٹراٹسکی کو بے رحم بنا کر پیش کیا جائے۔ اصل مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ ’ریڈ ٹیرر‘ کا اصل موجد لیون ٹراٹسکی تھا۔ اس تاثر کو مظبوط کرنے کے لئے کئی بار اس سیریل میں ’ٹراٹسکی‘ کو ریڈ ٹیرر کا دفاع کرتے دکھایا گیا ہے۔دکھایا گیا ہے کہ اس ریڈ ٹیرر کا شکار ہونے والوں میں زار، زارینہ اور انکے بچے بھی تھے۔
(اتفاق سے 2017ء میں ایک برطانوی ڈاکیومنٹری بعنوان ’دی رشین ریولوشن‘ بھی پیش کی گئی۔یہ کوشش بھی انقلاب روس کی 100 ویں سالگرہ کے موقع پر کی گئی تھی۔ اس کے ڈائریکٹر کال سیویل ہیں۔اس دستاویزی فلم میں زار کے خاندان کے قتل کی ذمہ داری لینن پر ڈالی گئی ہے۔ وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ زار اور اسکے خاندان کو مروا کر لینن نے اپنے بھائی کا بدلہ لیا جسے زار شاہی کے دور میں اُس کے سیاسی نظریات اور زار پر قاتلانہ حملے کی پاداش میں پھانسی دی گئی تھی)
فلم کے مطابق یہ ٹراٹسکی ہی تھا جس نے پھانسی کی سزا بحال کی۔ عدالتوں سے مرضی کے فیصلے کروائے۔ کبھی کبھی تو ٹراٹسکی اور پول پاٹ میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ مثلًا جب ٹراٹسکی اس فلم میں کرونسٹٹ میں جہازیوں کی بغاوت کچلنے کا حکم دیتا ہے اور اس کا دفاع کرتا ہے تو پول پاٹ ہی دکھائی دیتا ہے۔
ٹراٹسکی اس فلم میں اس قدر بے رحم ہے کہ اپنے بچوں کا بھی لحاظ نہیں کرتا۔ اکتوبر 1917ء کے ایک مبینہ واقعے میں وہ لینن سے ملنے چلا جاتا ہے اور آگ میں گھرے اپنے دو بچوں کی جان بچانے کی کوشش نہیں کرتا کیونکہ اس اجلاس میں اس نے لینن کے ساتھ اقتدار کی سودے بازی کرنی تھی۔ ایسا بے رحم انسان اگر اپنی بیوی سے بیوفائی کرتا دکھائی دے تو حیرت کیسی؟
اسے اتفاق نہیں کہا جا سکتا ہے کہ فلم کے پہلے منظر میں ہی ٹراٹسکی کو اپنی سیکرٹری کے ساتھ ہمبستری کرتے دکھایا گیا ہے (یہ سیکرٹری قبل از انقلاب ایک انارکسٹ تھی اور ایک ایسے بالشویک کی بیوی تھی جو ٹراٹسکی کا وفادار تھا۔گویا ٹراٹسکی کسی بھی قسم کی اخلاقیات سے عاری تھا)
فلم کے مطابق اخلاقیات سے عاری اس ٹراٹسکی نے باآسانی اپنی پہلی بیوی کو چھوڑ کر دوران جلا وطنی نتالیا کے ساتھ دوسری شادی کر لی۔ بعد ازاں میکسیکو میں اس نے نتالیا کو دھوکہ دیا اور فریدہ کولہو کے ساتھ تعلقات استوار کر لیے۔ دوسری جانب وہ اپنے بالشویک کامریڈ مارکن سے حسد کرتا تھا کیونکہ نتالیا مارکن کو پسند کرتی تھی اور ایک سازش کے ذریعے مارکن کو مروا دیا۔ مارکن کو مروانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اسنے ٹراٹسکی کی ان حالات میں مدد کی تھی جب کسی نے سوچا بھی نہ تھا کہ وہ ایک دن سرخ فوج کا معمار اور انقلاب کا اہم رہنما بن کر ابھرے گا۔ مارکن کی موجودگی میں ٹراٹسکی مبینہ طور پہ ہمیشہ احساس کمتری کا شکار رہتا۔
فلم کے مطابق مذکورہ بالا قابل نفرت شخصیت کے حامل ، بے رحم اور مکار ٹراٹسکی کا ٹاکرا اتنے ہی بے رحم اور مکار لینن سے تھا۔
لینن اور ٹراٹسکی
دونوں کی پہلی ملاقات لندن میں ہوتی ہے۔ اس پہلی ملاقات سے ہی دونوں ایک دوسرے کے خلاف سازشوں میں مگن ہو جاتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے سے حسد کرتے ہیں (اس موقع پر سٹالنسٹ اسکول آف فالسیفیکیشن اور پیوٹن اسکول آف فالسیفیکیشن کا آپس میں پکا اتحاد دکھائی دیتا ہے)۔ ایک انتہائی لایعنی منظر میں لینن کو ٹراٹسکی پر جسمانی حملہ کرتے دکھایا گیا ہے۔ 1903ء کی برسلز کانگریس میں لینن سازش کے ذریعے ٹراٹسکی کو تقریر سے روک دیتا ہے مگر جب ٹراٹسکی وعدہ کرتا ہے کہ وہ لینن کا نقطہ نظر ہی اپنی تقریر میں پیش کرے گا تو لینن اسے تقریر کی اجازت دیتا ہے۔ ٹراٹسکی البتہ لینن کو دھوکہ دیتا ہے اور تقریر میں پرتشدد جدوجہد کی بات کرتا ہے جس کی وجہ سے اسے پارٹی سے نکال دیا جاتا ہے۔ پارٹی سے اخراج کے بعد دونوں کی ملاقات فروری انقلاب کے بعد ہی ہو پاتی ہے۔ فروری سے لے کر اکتوبر تک دونوں مسلسل ایک دوسرے کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتے ہیں۔ جب لینن جولائی 1917ء میں فن لینڈ جلا وطنی پر مجبور ہوتا ہے تو مذکورہ بالا مارکن کی مدد سے ٹراٹسکی بالشویک پارٹی کی قیادت حاصل کر لیتا ہے۔ اس موقع پر ٹراٹسکی نہ صرف لینن کو یہ کہہ کر بدنام کرتا ہے کہ لینن مزدوروں کو چھوڑ کر جان بچانے کے لئے بھاگ نکلا ہے بلکہ وہ لینن کی ہدایات کے خلاف 27 اکتوبر کی بجائے 25 اکتوبر کو انقلاب برپا کر دیتا ہے کیونکہ اس دن ٹراٹسکی کی سالگرہ تھی!
انقلاب کے بعد ٹراٹسکی لینن کو فارغ ہی کر چکا ہوتا اگر لینن یہود دشمنی (Antisemitism) کا پتّہ نہ پھینکتا۔ لینن ٹراٹسکی کو یاد دلاتا ہے کہ وہ ایک یہودی ہے اور روس کے عوام ایک یہودی کو بطور قائد قبول نہیں کریں گے۔ ٹراٹسکی بھی لینن کی چال سمجھ جاتا ہے اور لینن کے نائب کے طور پر کام کرنے پر راضی ہو جاتا ہے البتہ لینن کی اس چال پر وہ لینن کو ’جہنم میں جائو کامریڈ لینن‘ کہے بغیر نہیں رہ سکتا۔
بعد از انقلاب دونوں کی باہمی نفرت برقرار رہتی ہے مگر انقلاب کے مفاد میں دونوں مل کر کام کرتے رہتے ہیں۔ لینن اور ٹراٹسکی کی اس لڑائی میں سٹالن ہمیشہ لینن کا ساتھ دیتا ہے۔
اپنی زندگی کے آخری سالوں میں البتہ لینن سٹالن کے خلاف ہو جاتا ہے۔ وہ ٹراٹسکی کو ناپسند تو کرتا ہے مگر اسے وہ اپنا ذہین وارث بھی تصور کرتا ہے چنانچہ اپنی وصیت میں وہ سٹالن کو ہٹانے کی ہدایت کرتا ہے مگر سٹالن اس وصیت کو دبا دیتا ہے۔
دونوں کے بیچ میں چند قدریں ایک جیسی بھی پائی جاتی ہیں۔ دونوں عام لوگوں کو انقلاب لانے کے لئے ایندھن سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ دونوں بے رحم، متعصب، مکار اور مطلب کے حصول کے لئے کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار رہتے ہیں۔
ٹراٹسکی (اور لینن) کی مندرجہ بالا تصویر کشی بے شرمی کی حد تک حقائق کے منافی ہے۔ نیم سچ اور سفید جھوٹ پر مبنی اس تصویر کشی کا اصل ہدف انقلابِ روس ہے۔ پوری سیریل میں بین السطور یہ پیغام دیا گیا ہے کہ انقلابِ روس خون خرابے پر مشتمل بغاوت کے سوا کچھ نہ تھا۔
انقلاب روس کی تصویر کشی
انقلابِ روس کو یہودیوں کی سازش بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ انقلاب کو کوئی عوامی حمایت حاصل نہ تھی۔ اس کی ایک مثال 1921ء کا وہ منظر ہے جس میں ٹراٹسکی جلسہ عام کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اس جلسے میں وہ سرخ فوج کی وائٹ آرمی کے خلاف فتح کا اعلان کرنا چاہتا ہے مگر سرخ فوج کے سپاہی بزورِ بندوق بمشکل چند عورتوں اور بچوں کو جلسے میں لا پاتے ہیں۔گویا کوئی بھی ٹراٹسکی یا سرخ فوج کی کامیابی پر جشن منانے کے لئے تیار نہ تھا۔ شرمندگی کے مارے ٹراٹسکی تقریر کئے بغیر سٹیج سے اتر جاتا ہے۔
انقلاب کو ایک بغاوت اور یہودی سازش,جس کا انجام ظلم, بربادی، قتل عام اور سٹالنسٹ جبر کی شکل میں نکلا، کے طور پہ پیش کر کے یہ فلم پیوٹن شاہی کے انقلابِ روس کے ساتھ پیچیدہ تعلق کی نشاندہی کرتی ہے۔ پیوٹن خود کو سٹالن کے وارث کے طور پر پیش کرتا ہے البتہ وہ انقلابِ روس کے پیغام سے دوری ظاہر کرتا رہتا ہے لہٰذا یہ کوئی اتفاق کی بات نہیں کہ انقلابِ روس کی 100ویں سالگرہ پر کوئی سرکاری تقریب نہیں ہوئی مگر فاشزم کے خلاف دوسری عالمی جنگ میں فتح کی سالگرہ پر پیوٹن پورے طمطراق سےموجود ہوتا ہے۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔