21 فروری 2021ء کو ڈاکٹر لال خان کی پہلی برسی کی مناسبت سے "روزنامہ جدوجہد” ان کے لکھے گئے مضامین قارئین جدوجہد کے لئے دوبارہ شائع کر رہا ہے۔
لال خان
ایک وقت تھا جب سفارش سے بڑے کام کروائے جاتے تھے۔ ان زمانوں میں منافع خوری کے لئے ذخیرہ اندوزی بھی ہوا کرتی تھی۔ آج کے زمانے میں یہ طریقے بہت ’’کمزور‘‘ ہوگئے ہیں۔ حکمران طبقے اور سامراجی کمپنیوں کی شرح منافع میں اضافہ اب ذخیرہ اندازی جیسے ’قدیم‘ طریقوں سے ممکن نہیں رہا ہے۔ ماضی کی چوری چکاری اب معاشی ڈاکہ زنی میں بدل چکی ہے۔ ذات برادری، رشتہ داری یا دوستی کے رشتوں کو سرمائے کے جبر نے کچل دیا ہے۔ سرمائے کے بڑھتے ہوئے سماجی و اخلاقی کردار کی وجہ سے نوکریاں اب بکتی ہیں یا پھر سفارش کا تبادلہ سفارش سے کرنا پڑتا ہے۔ کام کے بدلے ہی کام ہوتا ہے۔
خونی رشتوں کی گرمائش بھی سرد پڑ گئی ہے۔ دوستیاں بڑی عریانی سے مطلب پرستی میں بدل گئی ہیں۔ باہمی گفتگو کے معیار گر کر مطلب اور ’’مقصد‘‘ تک محدود ہوگئے ہیں۔ معاشی اونچ نیچ نہ صرف سماجی رتبے کا پیمانہ بن گئی ہے بلکہ ہر رشتے میں سرایت کرکے جذبات کو مفلوج اور مادی مفادات کے تابع کررہی ہے۔
شادی بیاہ بھی عشق ، محبت، سیرت، صورت اور کردار کی بجائے مالی حیثیت سے وابستہ ہوگئے ہیں۔ تعلیم کا معیار بھی اسی حوالے سے جانچا جاتا ہے کہ اس سے نئے خاندان کی آمدن میں اضافے کے امکانات کیا ہوسکتے ہیں۔ نوکری اور کاروبار کا مالیاتی حجم ہی ’’افکار‘‘ کا تعین کرتا ہے۔ ’’لو میرج‘‘ اور ’’ارینج میرج‘‘ کی اصطلاحات بھی بے معنی ہوگئی ہیں کیونکہ شادی والدین طے کریں یا لڑکا لڑکی کی اپنی مرضی سے ہو، فیصلہ کن کردار دولت کا ہی ہوتا ہے۔ ’کردار‘ کی خرابی اور سماجی ساکھ کا ازالہ بھی پیسہ بخوبی کردیتا ہے۔ غریبوں کے لئے یہ سہولیات بہرحال میسر نہیں ہے۔
زر کے اس نظام میں سماجی اقدار پر نمائش کا عنصر بہت غالب آجاتا ہے۔ سرمایہ داری نے جوں جوں معاشرے کے مختلف پرتوں پر اپنے پنجوں کی گرفت مضبوط کی ہے ہر قدر اور رسم کمرشلائز ہوگئی ہے۔ درجنوں کاروبار صرف شادیوں سے وابستہ ہیں۔ میرج بیوروز کی بھرمار ہے۔ شادی ہال، شادی کے لباس کی ’’ڈریس ڈیزائینگ‘‘ ، بیوٹی پارلر، کیڑنگ وغیرہ کے کاروبار اس کے علاوہ ہیں۔
موبائل کمپنیوں کے ہوشربا منافعے بھی زیادہ تر ’’ڈیجیٹل محبت‘‘ اور ’’ٹیکسٹنگ‘‘ کے عشق پر منحصر ہیں۔ فون کی دوستی جتنی طویل ہوتی ہے اس کے نتیجے میں قائم ہونیو الے رشتے اتنے ہی کھوکھلے ہوتے ہیں۔
پیداواری صنعت جتنی زوال پزیر ہے، غیر ضروری کاروبار اتنے ہی پھل پھول رہے ہیں۔ حقیقی معیشت سکڑ رہی ہے اور سٹہ بازی کے دھندے عروج پر ہیں۔ عوام کے لئے دو وقت کی روٹی مشکل ہورہی ہے اور ہر گلی میں بینک کھل رہا ہے، ہاؤسنگ سوسائٹیاں کھمبیوں کی طرح اگ رہی ہے۔ کالا دھن انہی ’’شارٹ ٹرم‘‘ طریقوں سے سفید کیا جاتا ہے۔
شادیوں اور دیگر تقریبات میں جتنی شوبازی اور زرق برق ہوتی ہیں ان سے برآمد ہونیو الے رشتے اتنے ہی اندھیر، خود غرض اور بناوٹی ہوتے ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے زیادہ تر اشتہارات کا موضوع بھی معاش کی فکر سے آزاد نئے نویلے جوڑے پر مبنی ’’خوشحال‘‘ خاندان ہوتاہے جو حقیقت میں کہیں وجود نہیں رکھتا۔ بیوی کو منانے کے لئے اب گیت نہیں بلکہ نئے موبائل کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ناراضیاں بڑھتی ہی جارہی ہیں۔
ٹی وی کی اشتہار بازی نے ہر غیر ضروری چیز کو ’’بنیادی ضرورت‘‘ بنا کے رکھ دیا ہے اور تعلیم، علاج، روزگار، رہائش، صاف پانی جیسی انتہائی بنیادی ضروریات آبادی کی وسیع اکثریت کی پہنچ سے کوسوں دور ہیں۔
بہن بھائی اور والدین کے ساتھ اولاد کے رشتوں میں بھی لین دین اتنا بڑھ گیا ہے کہ تحفے، جو کسی زمانے میں غیر معمولی سرپرائزہواکرتے تھے، آج معمول بن گئے ہیں۔ یہ تحائف بھی زیادہ تر ’’کام نکلوانے‘‘ کے لئے دئیے جاتے ہیں جن کا پرچار پھر نجی محفلوں میں اتنا ہوتا ہے کہ تحفے لینے دینے کی نمائش میں نئی دوڑ لگ جاتی ہے۔
مادی مفاد کے حصول کی ہوس سے پاک انسانی تعلق کی ہر روایت دم توڑ رہی ہے۔ نظام کے بحران اور معاشی حالات کے تلخ ہوجانے سے خون سفید ہوگئے ہیں۔ ہر کوئی انفرادی بقا کی فکر میں مبتلاہے۔ عزیز ترین رشتے کے لئے کیا جانے والا کام بھی اب فریضے کی بجائے احسان بن گیا ہے۔ والدین کی دیکھ بھال کو بھی اولاد ’’اضافی‘‘ ذمہ داری سمجھتی ہے۔ دوسری طرف اولاد کی تعلیم اور پرورش پر آنے والے خرچ کو بھی والدین سرمایہ کاری کا درجہ دینے لگے ہیں۔
لیون ٹراٹسکی نے معاشی بحران سے جنم لینے والے سماجی انتشار کے بارے میں لکھا تھا کہ ’’زندگی اور سیاست کسی احسان مندی یا شکر گزاری کو نہیں مانتی۔‘‘ یہ چھوٹی سی بات اگر سمجھ آجائے تو لوگوں کے ذہنی، روحانی اور گھریلو مسائل کسی حد تک حل ہوسکتے ہیں۔ لیکن تلخ سچائی کو کم لوگ ہی تسلیم کرتے ہیں اور بیشتر گفتگو شکوے شکایت اور غیبت پر ہی مبنی ہوتی ہے۔ منافع کے لئے لین دین پر مبنی منڈی کی معیشت کی نفسیات سماج کے تانے بانے میں بھی گھس جاتی ہے۔ ہر کوئی اپنے احسان اور دوسرے کی احسان فراموشی کا رونا روتا نظر آتا ہے۔ خود بھی غیر ضروری اذیت میں مبتلا رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی رکھتے ہیں۔ دوسرے کی کہانی بھی اپنی داستان سنانے کے لئے سنی جاتی ہے۔
سوچ کی اتنی گراوٹ، رشتوں میں مادہ پرستی کی ملاوٹ اور نفسیات کی تنگ نظری سماجی بیماریوں سے زیادہ ایک بیمار معاشرے کی علامات ہیں۔ اصل بیماری زر کی ہوس پر مبنی سماجی و معاشی نظام ہے جس میں مقابلہ بازی، حسد، غیبت اور منافقت کی اقدار ناگزیر طور پر جنم لیتی ہیں۔
درمیانے طبقے میں اس بیمار ذہنیت کی یلغار زیادہ شدید ہوتی ہے لیکن جمود اور پراگندگی کے ادوار میں محنت کش طبقہ بھی درمیانے طبقے کے سماجی و ثقافتی تسلط میں رہتا ہے۔ کارپوریٹ میڈیا اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ معاشی مسائل کے مارے محنت کشوں کے روح اور احساس کو یہ نفسیاتی غلاظتیں اور بھی مجروح کردیتی ہیں۔ درمیانے طبقے کی نظریں آسمان پر اور پیر کیچڑ میں ہوتے ہیں۔ حکمران طبقے کے لائف سٹائل کو مصنوعی طور پر اپنانے کی کوشش خاص کر اس طبقے کے نوجوان کرتے ہیں۔ لیکن ’’بڑا آدمی‘‘ بننے کے لئے چونکہ ’تھوڑی سی‘ بے حسی اورخاصا مال درکار ہوتا ہے لہٰذا طبقہ بدلنے کی کوشش میں مفاد پرستی، ہوس اور خود غرضی مڈل کلاس کی اخلاقی اقدار بن جاتی ہیں۔
مڈل کلاس کی معاشی اور سماجی طور پر نسبتاً پسماندہ پرتوں کے نوجوان جب محسوس کرتے ہیں کہ امیر ہونے کے خواب کی تعبیر ناممکن ہے تو احساس محرومی، سماج دشمنی اور خجالت کا شکار ہو کر مذہبی انتہا پسندی، جرائم یا رجعت کی ڈگر پر نکل پڑتے ہیں۔ اس راستے پر بھی حکمران طبقے کے مختلف حصے اپنی کاروباری دکانیں سجائے ہوئے ہیں جو ان نوجوانوں کی محرومیوں کا استحصال کرتے ہوئے انہیں مذہبی بنیاد پرستی کی سیاست یا دہشت کا خام مال بنا ڈالتے ہیں۔ تشدد کی جو کھیپ یہاں سے برآمد ہوتی ہے اس سے حکمران طبقے کے قدامت پرست دھڑے بے پناہ مالی اور سیاسی مفادات حاصل کرتے ہیں۔
مذہب کا بیوپار کرنے والے یہ ملا، پنڈت اور پادری اپنے ہم طبقہ ’’لبرل‘‘ دھڑوں سے زیادہ دولت مند ہوچکے ہیں۔ موت کی بعد کی زندگی میں دکھائی جانے والے عیاشی اور چمک دمک کے ذریعے نوجوان نسل کی موت سے پہلی کی زندگی اندھیر کر دی جاتی ہے۔ یہ مذہبی سرمایہ دار، سماج کو بدل دینے کی روش سے نوجوانوں کو ہٹا کر انہیں سماج کو مزید برباد کردینے پر لگا دیتے ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام نے تیسری دنیا پر اپنی مسخ شدہ شکل میں مسلط ہوکر سماج کی شریانوں میں سرایت کر کے جعلی تضادات اور خونریزیوں کو خوب ہوا دی ہے تاکہ مزدور اور سرمایہ دار، مزارع اور جاگیردار، امیر اور غریب، استحصال کرنے والے اور استحصال سہنے والے کا اصل تضاد دبایا جاسکے۔ لیکن طبقاتی نظام کے خمیر میں موجود اس تضاد کو ہمیشہ کے لئے دبا کر نہیں رکھا جاسکتا۔ یہ تضاد جب پھٹے گا تو اس نظام کو اس کی انسان دشمن معیشت، سیاست ،اخلاقیات، اقدار اور معاشرت سمیت نیست و نابود کردے گا!